جو بائیڈن، کملا ہیرس کی تقریب حلف برداری: نومنتخب امریکی صدر کی حلف برداری سے قبل واشنگٹن ڈی سی کا ماحول کیسا ہے؟


کیپیٹل ہل
امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن آج اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ایسی قوم کی باگ دوڑ سنبھالنے جا رہے ہیں جو فی الحال عالمی وبا، معاشی ناہمواری اور سیاسی بنیادوں پر شدید تقسیم کی زد میں ہے۔

جو بائیڈن کے ہمراہ نومنتخب نائب صدر کملا ہیرس بھی واشنگٹن ڈی سی میں اپنے عہدے کا حلف لیں گی۔ بدامنی کے پیش نظر واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والی اس تقریب کی سکیورٹی کے لیے 25 ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

نمائندہ بی بی سی ونیت کھرے اس وقت واشنگٹن ڈی سی میں موجود ہیں اور اس شہر کی صورتحال کیا ہے، پڑھیے ان ہی کی زبانی۔

دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا دارالحکومت میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ نو منتخب صدر اور نائب صدر کی تقریب حلف برداری سے چند گھنٹے قبل امریکہ میں صورتحال ایسی ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔

سکیورٹی صرف واشنگٹن ڈی سی میں ہی نہیں بلکہ امریکہ کی لگ بھگ تمام 50 ریاستوں میں سخت ہے۔

ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل ہل پر ہونے والی ہنگامہ آرائی جیسا واقعہ حلف برداری کی تقریب کے موقع پر دوبارہ پیش آنے کے خدشات نے بہت سے لوگوں کو پریشان کر دیا ہے۔

کیپیٹل ہل جانے والے راستوں پر آہنی باڑیں لگائی گئی ہیں اور ہزاروں سکیورٹی اہلکار گلیوں میں گشت کر رہے ہیں۔ شہر کے مرکز میں روڈ بلاکس لگا دیے گئے ہیں۔

چہرے ڈھانپے مسلح اہلکاروں کو گلیوں میں تعینات کر دیا گیا ہے جو گاڑیوں کو چیک کر رہے ہیں اور ٹریفک کی روانی کو یقینی بنائے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

چھ جنوری صدر ٹرمپ کی سیاسی میراث کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟

کیا امریکہ میں کیپیٹل ہل پر پہلی مرتبہ حملہ ہوا ہے؟

’صدر ٹرمپ کو فوراً عہدے سے ہٹایا جائے ورنہ ان کا مواخذہ ہو سکتا ہے‘

دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل گارڈز کے 25 ہزار اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔

حکام کو کچھ اس نوعیت کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ کیپیٹل ہل میں ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو اندر سے مدد حاصل تھی۔ اسی نوعیت کی اطلاعات کے بعد وہاں تعینات سکیورٹی اہلکاروں کے بنیاد پرست عناصر سے ممکنہ روابط کے پیش نظر ان کی سکریننگ بھی کی جا رہی ہے۔

سکیورٹی

چہرے ڈھانپے مسلح اہلکاروں کو گلیوں میں تعینات کر دیا گیا ہے جو گاڑیوں کو چیک کر رہے ہیں اور ٹریفک کی روانی کو یقینی بنا رہے ہیں

امریکی میڈیا پر کچھ اس طرح کی رپورٹس نشر ہوئی ہیں جن میں ’مسلح حملے‘ اور ’دھماکہ خیز مواد نصب کرنے‘ کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ سڑکوں پر پولیس کی گاڑیاں ہیں جبکہ شہر کی ہیلی کاپٹرز کی مدد سے بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔

میں نے گلیوں میں سفید ٹینٹ دیکھے جو بظاہر سیکورٹی اہلکاروں کی رہائش کے لیے لگائے گئے ہیں۔ متعدد میٹرو سٹیشن بند کر دیے گئے ہیں۔

امریکی کیپیٹل کا کمپلیکس عام عوام کے لیے بند ہے اور آج کے روز یعنی 20 جنوری کو عوام کو کیپٹل گراؤنڈز تک رسائی حاصل نہیں ہو گی۔

کیپیٹل پولیس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کوئی بھی شخص جس نے دیوار پھلانگ کر یا کسی اور غیر قانونی طریقے سے کیپیٹل گراؤنڈز میں داخل ہونے کی کوشش کی، اس کے خلاف طاقت کا استعمال کر کے اسے گرفتار کیا جائے گا۔‘

آج کے روز واشنگٹن ڈی سی اور اس کی پڑوسی ریاست ورجینیا کو ملانے والے کئی پلوں کو بھی بند کیا جائے گا۔

یہ سب بہت سے مقامی افراد کے لیے حیران کُن ہے۔ گذشتہ پیر کے روز ایک مقامی شہری کرس اکوسٹا نے مجھے بتایا ’یہ فلم جیسا لگ رہا ہے۔ عام طور پر ہر کوئی نئے صدر کا استقبال کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، لیکن اس وقت سڑکیں ویران ہیں۔‘

صورتحال سے مایوس جرمین برائنٹ نے کہا: ’میرا خیال تھا کہ یہ پہلی ورچوئل افتتاحی تقریب ہو گی۔ عام طور پر افتتاحی تقریب ایک اچھا وقت ہوتا ہے۔ اس دفعہ یہ بھوت شہر لگ رہا ہے۔‘

اور برائنٹ کی یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ افتتاحی تقریب سے پہلے کے دن عام طور پر حمایتیوں کے لیے جشن کا وقت ہوتا ہے اور مخالف بھی اتحاد کا مظاہرہ کرنے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں۔

لیکن اس سے قبل پہلے کبھی بھی دارالحکومت کے مرکز میں لاک ڈاؤن نہیں ہوا۔ جس کا مطلب ہے کہ اس بار تقریب میں زیادہ لوگ شریک نہیں ہوں گے۔

لیکن ماہرین کو اس بارے میں تشویش ہے کہ اگر حکام اس قدر بڑے پیمانے پر سکیورٹی تعینات کر کے واشنگٹن کو محفوظ کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو باقی پچاس ریاستوں اور ان کے دور دراز علاقوں میں کیا ہو گا؟

حتیٰ کہ ایک حملہ بھی ٹرمپ کے حمایتیوں کے لیے پراپیگنڈا شروع کرنے کی وجہ بن سکتا ہے اور انھیں متحرک کر سکتا ہے۔

گذشتہ دو ہفتے

باڑ

کیپیٹل ہل جانے والے راستوں پر باڑیں لگائی گئی ہیں اور ہزاروں سکیورٹی اہلکار گلیوں میں گشت کر رہے ہیں

امریکہ کا سیاسی منظرنامہ گذشتہ دو ہفتے میں انتہائی برق رفتاری سے تبدیل ہوا ہے۔

میں چھ جنوری کو واشنگٹن کی یادگار پر موجود تھا جب ٹرمپ کے حمایتیوں کا غصہ بڑھ رہا تھا اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد کیپیٹل ہل کی سکیورٹی کی خلاف ورزی کرنے اور تشدد کرنے کے مرتکب ہوئے تھے۔ اس سارے واقعے کی تصاویر امریکی میڈیا پر بار بار دکھائی گئیں جن کی وجہ سے رپبلکن پارٹی کے ارکان سمیت کئی لوگوں کو اشتعال آیا۔

دو بار مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنے والے صدر ٹرمپ کی جانب سے انتخاب کا نتیجہ تسلیم کرنے سے انکار اور ووٹر فراڈ کے الزمات کو چھ جنوری کو ہونے والے اس واقعے کا ذمہ دار ٹھرایا گیا ہے۔

ایک ہی دن بعد میں نے کچھ آدمیوں کو کیپٹیل ہل کے پاس ایک باڑ اکھاڑتے دیکھا۔ اب یہ باڑ کئی گلیوں تک پھیل چکی ہے جو کہ کئی اہم مقامات جیسے نیشنل مال اور سپریم کورٹ کے باہر بھی نصب کر دی گئی ہے۔

ڈی سی کے میئر مرئیل بوسر، میری لینڈ کے گورنر لارے ہوگن اور ورجینیا کے گورنر رالف نورتھم کے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’59ویں صدارتی افتتاح کے آس پاس انوکھے حالات، جن میں گذشتہ ہفتے ہونے والی پرتشدد بغاوت بھی شامل ہے ساتھ ساتھ جان لیوا کووڈ 19 کی وبا کے پیش نظر ہم شہریوں کو واشنگٹن ڈی سی نہ آنے اور اس تقریب میں ورچوئلی شریک ہونے کی حوصلہ افزائی کرنے کا غیر معمولی قدم اٹھا رہے ہیں۔‘

واضح رہے کہ ورجینیا اور میری لینڈ کی سرحدیں واشنگٹن ڈی سی سے ملتی ہیں۔

وائرس کا خطرہ

کورونا وائرس کا خطرہ بھی بڑی حد تک منڈلا رہا ہے۔

تقریباً چار لاکھ کے نزدیک امریکی شہری اس کی وجہ سے دم توڑ چکے ہیں۔ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے آنے والے ڈائریکٹر روچل ویلنسکی کے مطابق فروری کے وسط میں یہ تعداد پانچ لاکھ ہو سکتی ہے۔

مقامی شدت پسند

جو بائیڈن

کیپیٹل حملے نے ’مقامی دہشتگردوں‘ کے بارے میں بھی بحث چھیڑ دی ہے۔ سماجی کارکنوں کا الزام ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دائیں بازو کی انتہا پسندی اور سفید فام بالادستی کی دھمکیوں پر ردعمل دینے یا کارروائی کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کیا ہے۔

اس صورتحال کا موازنہ اسلامی دہشتگردی کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ردعمل کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’سفید فام بالادستی رکھنے والے انتہا پسند سب سے زیادہ اور مستقل خطرہ رہیں گے۔‘

نو منتخب صدر جو بائیڈن نے کیپیٹل ہل حملے کے بعد کہا کہ ’انھیں مظاہرین مت کہیں۔ وہ فسادی ہجوم تھا۔ بغاوت کرنے والے۔ مقامی شدت پسند۔‘

لیکن کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق ’ایف بی آئی سرکاری طور پر مقامی شدت پسند تنظیموں کو نامزد نہیں کرتی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’کیپیٹل پر حملے اور مقامی شدت پسندی کے گٹھ جوڑ کے تناظر میں، کانگریس متعلقہ قوانین اور پالیسوں میں بہت سی تبدیلیوں پر غور کرنے کی خواہش کر سکتی ہے۔ ان تبدیلیوں میں ایک آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ مقامی شدت پسندی کو قابل سزا جرم بنانے کا فیصلہ کر سکتی ہے…‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp