امریکہ کے سابق صدر کی زندگی کیسے گزرتی ہے؟


سابق امریکی صدور کو وائٹ ہاؤس سے جانے کے بعد بھی کئی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔

عہدِ صدارت ختم ہونے کے باوجود امریکی صدور کی شان و شوکت میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں آتی بلکہ اُنہیں زندگی بھر خطیر پینشن، مراعات اور سیکیورٹی کے علاوہ دیگر سہولیات حاصل رہتی ہیں۔

امریکی کانگریس نے 1958 میں پہلی مرتبہ ‘سابق صدور ایکٹ’ منظور کیا تھا جس میں اُس وقت امریکی صدر کی سالانہ پینشن 25 ہزار ڈالرز مقرر کی گئی تھی جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔ اب سابق امریکی صدر کو سالانہ دو لاکھ 10 ہزار 700 ڈالرز پینشن ملتی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ سابق صدور کو صحت سے متعلقہ فوائد بھی اسی صورت میں ملتے ہیں اگر وہ دو مرتبہ صدارت کے عہدے پر فائز ہوں۔ امریکی قوانین کے مطابق وفاقی ملازمین کو پانچ سال کی ملازمت کے بعد ہی ہیلتھ بینیفیٹس ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر سابق صدر براک اوباما، بل کلنٹن اور جارج ڈبلیو بش تو صحت کی سہولیات سے استفادہ کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ دو مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ تاہم جمی کارٹر جو ایک مرتبہ صدر کے عہدے پر فائز رہے یا اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اُنہیں بھی سرکاری سطح پر ہیلتھ بینیفیٹس نہیں ملیں گے۔

سابق امریکی صدر کے انتقال کر جانے کی صورت میں اُن کی اہلیہ تادمِ مرگ سالانہ 20 ہزار ڈالرز پینشن لینے کی اہل ہوتی ہیں۔

لیکن اس وقت کیا کیا جائے جب امریکی صدر خود ہی مستعفی ہو جائے؟ جیسا کہ 1974 میں صدر رچرڈ نکسن کے کیس میں ہوا۔ اس وقت محکمۂ انصاف نے فیصلہ کیا کہ نکسن اور اُن کے بعد آنے والے جو بھی صدور مستعفی ہوں گے اُنہیں بھی صدارتی مدت ختم کر کے رُخصت ہونے والے صدور کی طرح ہی پینشن اور مراعات دی جائیں گی۔

البتہ مواخذے کے نتیجے میں صدارت سے ہٹائے جانے والے صدور پینشن کے اہل نہیں ہوتے۔

خود سے موسوم لائبریری یا میوزیم

صدارت کی مدت ختم ہونے کے بعد سابق امریکی صدور کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنی آبائی ریاستوں میں اپنے نام سے کوئی لائبریری یا میوزیم بناتے ہیں۔

اس روایت کا آغاز امریکہ کے 32 ویں صدر صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے کیا تھا جنہوں نے اپنے دورِ صدارت کے دوران اپنے زیرِ استعمال اشیا اور دیگر ریکارڈ کو نیویارک میں واقع خود سے موسوم لائبریری اور میوزیم میں محفوظ کیا۔

اس سے قبل یہ روایت تھی کہ سابق صدور وائٹ ہاؤس سے اپنا سارا سامان اور دستاویزات گھروں کو لے جاتے تھے جن میں سے بیشتر کباڑی یا پھر ردی کی نذر ہو جاتا تھا۔

لائبریری یا میوزیم کی تعمیر کے لیے سابق صدور فنڈ ریزنگ بھی کرتے رہے ہیں جب کہ سابق امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین تو خود اپنی لائبریری میں کام بھی کرتے رہے۔

سیکیورٹی کے لیے تاحیات سیکرٹ سروس

سن 2013 تک صدارت کی مدت ختم ہونے کے بعد امریکی صدور کے ساتھ 10 سال تک سیکرٹ سروس کے اہل کار تعینات رہتے تھے۔ تاہم 2012 میں سابق صدور کے تحفظ کا ایکٹ منظور ہونے کے بعد سیکرٹ سروس اہلکاروں کی تاحیات تعیناتی کی منظوری دی گئی۔

سابق صدور کے بچوں کو 16 سال کی عمر تک سیکرٹ سروس فراہم کی جاتی ہے۔ سابق صدر کی اہلیہ کو بھی سیکیورٹی دی جاتی ہے۔ تاہم اگر وہ طلاق لے لیں اور دوسری شادی کرلیں تو یہ سہولت ختم کر دی جاتی ہے۔

سابق امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ (فائل فوٹو)
سابق امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ (فائل فوٹو)

سابق صدور کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں

سابق امریکی صدور کو ایک دلچسپ پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو ان میں سے بیشتر کو پسند نہیں آتی۔ وہ ہے ان کی ڈرائیونگ پر تاحیات پابندی۔ سابق امریکی صدور کو سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر عام شاہراہوں پر گاڑی خود ڈرائیو کرنے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ یہ کام اُن کی حفاظت پر مامور سیکریٹ سروس کے اہل کار کرتے ہیں۔

البتہ سابق صدور کو اپنی ذاتی پراپرٹی کی حدود میں گاڑی چلانے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ سابق صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد کیا گیا تھا۔

کتابوں اور تقاریر سے کمائی

سابق امریکی صدور اپنے دورِ صدارت یا زندگی سے متعلق کتابیں لکھ کر بھی لاکھوں ڈالرز کما لیتے ہیں۔ سابق صدور کی خود نوشتوں کے پبلشنگ رائٹس لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوتے ہیں۔

سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنی کتاب ‘مائی لائف’ کے عوض کتاب کے ناشر سے ڈیڑھ کروڑ ڈالرز ایڈوانس وصول کیا تھا جب کہ سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنی کتاب ‘ڈیسیشن پوائنٹس’ کی 15 لاکھ کاپیوں کی فروخت سے 70 لاکھ ڈالرز کمائے تھے۔

سابق صدر جمی کارٹر اب تک 14 کتابیں لکھ چکے ہیں جو ان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

سابق صدور یونیورسٹیز یا دنیا بھر میں ہونے والی عالمی کانفرنسوں میں اپنی تقاریر کے ذریعے بھی کمائی کرتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد 2001 میں بل کلنٹن نے تقاریر کی مد میں کروڑوں ڈالرز کمائے۔

وائٹ ہاؤس: امریکہ کے صدر کا گھر کیسا ہے؟

ڈاک کی اسکریننگ

سابق صدور خود اپنے میل باکس تک جا کر اپنا پارسل یا ڈاک بھی وصول نہیں کر سکتے بلکہ پہلے ان کے نام موصول ہونے والی تمام ڈاک اور پارسلز ان کی رہائش گاہ سے دور قائم ایک مخصوص اسکریننگ پوائنٹس لے جائے جاتے ہیں جہاں ان کی اسکریننگ کے بعد ہی پارسل سابق صدر تک پہنچتا ہے۔

اکتوبر 2018 میں سیکریٹ سروس نے انکشاف کیا تھا کہ سابق صدور براک اوباما، بل کلنٹن اور چند دیگر سیاست دانوں کو پارسل کے ذریعے پائپ بم بھجوائے گئے تھے جنہیں بروقت قبضے میں لے لیا گیا تھا۔ ان بموں کی نشان دہی بھی اسکریننگ کے مراحل کے دوران ہی ہوگئی تھی۔

دفتری عملہ اور دیگر اخراجات

سابق امریکی صدور کو وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے 30 ماہ بعد تک کے لیے ذاتی دفتری اسٹاف کی تنخواہوں کی مد میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ ڈالرز ملتے ہیں۔ تیس ماہ کی یہ مدت پوری ہوجانے کے بعد دفتری عملے کی تنخواہوں کا بجٹ 90 ہزار ڈالر ہو جاتا ہے اور اگر عملے کی تنخواہ اس سے زیادہ ہو تو اضافی رقم سابق صدر کو اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتی ہے۔

اسٹاف کی تنخواہ کے علاوہ سابق امریکی صدر کو ملک بھر میں کسی بھی مقام پر اپنا دفتر قائم کرنے اور دفتر میں استعمال کی ضروری اشیا کے لیے بھی رقم ملتی ہے۔

علاوہ ازیں سابق صدور کو اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سفر کے لیے ٹکٹس اور قیام و طعام کی مد میں سالانہ 10 لاکھ ڈالرز جب کہ اُن کی اہلیہ کو اس مد میں پانچ لاکھ ڈالرز تک خرچ کرنے کی سہولت ملتی ہے۔

آخری رسومات کے لیے پروٹوکول

سابق صدور کی وفات کی صورت میں اُن کی آخری رسومات پر خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔

سابق صدور کی آخری رسومات کے دوران فلائی پاسٹ کے مظاہرے کے علاوہ توپوں کی سلامی اور پریڈ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ سابق صدور کی یہ آخری رسومات پانچ روز تک جاری رہ سکتی ہیں اور اس دوران ملک بھر میں قومی پرچم سرنگوں رہتا ہے۔

وائٹ ہاؤس سے جانے کے بعد سابق صدور اچھے دوستوں کی طرح آپس میں سماجی روابط رکھتے ہیں جب کہ موجودہ صدر بھی سابق صدر کو بعض اوقات وائٹ ہاؤس میں دعوت دیتے رہتے ہیں۔

سابق صدور رفاہی سرگرمیوں اور عالمی تنازعات کے خاتمے کے لیے تھنک ٹینکس اور رفاہی ادارے بھی بناتے ہیں۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ‘کارٹر سینٹر’ کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا تھا۔ اُن کی خدمات کے اعتراف میں سال 2002 میں اُنہیں امن کے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔

سابق امریکی صدور عام طور پر سیاست سے دور رہتے ہیں اور موجودہ صدر پر کھلے عام تنقید سے بھی گریز کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa