مولوی کون ہوتے ہیں اور کیسے بنتے ہیں؟


مولوی جسے ملا بھی کہتے ہیں یہ ہمارے سماج کا وہ طبقہ ہے جو مساجد میں بطور امام اور خطیب ہونے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ اس طبقے کے کئی روپ ہیں اور ہر روپ اپنی ایک منفرد پہچان رکھتا ہے۔ سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں یہ طبقہ کیوں پیدا ہوتا ہے؟ اس کے محرکات کیا ہیں؟ ان کی معاشرتی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ آیا کہ اس کلاس کا تعلق امیر طبقے سے ہوتا ہے یا غریب طبقے سے؟

ہم اگر ان تمام باتوں کا جائزہ لینے کی کوشش کریں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہاں پر معاشرتی تفریق بہت زیادہ ہے، امیر بہت زیادہ امیر اور غریب بہت زیادہ غریب ہیں جب کہ مڈل کلاس اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق معاشرے میں سروائیو کرتی ہے۔ امیر کلاس کے بچے ڈاکٹر، انجینئر، بلڈر اور بڑے بڑے بزنس مین بنتے ہیں اور بہت سے کاروباروں میں انویسٹمنٹ کرتے ہیں بلکہ آج کل یہ کلاس مختلف سکول و کالج کی برانچز کروڑوں میں خرید کر چلا رہی ہے اور ان کے بچے بھی انتہائی پوش اداروں میں تعلیم حاصل کر کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں۔ مڈل کلاس کے بچے ٹاٹوں والے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جو بچے محنتی ہوتے ہیں وہ ڈاکٹر وغیرہ بن جاتے ہیں جن کے والدین کی زیادہ حیثیت نہیں ہوتی، ان کے بچے زیادہ سے زیادہ ٹیچر بھرتی ہو جاتے ہیں۔

تیسرے نمبر پر آتے ہیں انتہائی غریب لوگ جن کے بچے مزدوری وغیرہ کرتے ہیں اور ان کے والدین بڑی مشکل سے گزر بسر کرتے ہیں، اسی کلاس کے زیادہ تر بچے مولوی اور خطیب بنتے ہیں کیونکہ والدین کے پاس زیادہ پیسہ نہیں ہوتا، اس لیے وہ اپنے بچوں کو مدارس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ایسا کر کے وہ دو طرح سے سکھی ہو جاتے ہیں ایک تو وہ ان کے بچوں کی وجہ سے وہ جنت کے حق دار ٹھہرتے ہیں، دوسرا رہائش اور کھانا پینا مدارس کی طرف سے ہوتا ہے، بچے پل بڑھ کر اور حافظ عالم بن کر مدارس سے فارغ ہوتے ہیں۔

میرا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور پنجاب کے اس حصے کو مدارس کی چھاؤنی کہا جاتا ہے، جنوبی پنجاب کے بہت سارے علاقے مظفرگڑھ، علی پور، کوٹ ادو، روہیلانوالی اور جھنگ جیسے علاقے ترقیاتی طور پر بہت پیچھے اور معاشی طور پر بہت پسماندہ ہیں۔ ان علاقوں میں تعلیمی شرح بہت کم ہے اور وڈیرہ سسٹم چلتا ہے، یہی وڈیرے ان مدارس کو امداد دیتے ہیں۔ اس طرح کر کے ان کے گناہوں کا کفارہ ادا ہوجاتا ہے اور الیکشن میں ووٹ بینک بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔

غربت کی وجہ سے ان علاقوں کی اکثریت اپنے بچوں کے لیے سکول و کالج کی تعلیم افورڈ نہیں کر سکتی۔ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے مدارس کے سپرد کر دیتے ہیں۔ کچھ مدارس میں تو کھانا پکتا ہے اور بچے وہیں سے کھانا کھاتے ہیں جبکہ غریب اور پسماندہ علاقوں کے مدارس کے بچے گلی محلوں میں جا کر کھانا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر مل کر کھاتے ہیں۔ انہی غریب علاقوں کے مدارس سے فارغ ہونے والے مولوی بڑے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور مدارس کے خطیب بن جاتے ہیں۔

ان کا سکول و کالج کا تعلیمی ریکارڈ صفر ہوتا ہے۔ صرف یہ اپنی خوش الحانی اور سریلی آواز کی بنیاد پر دنوں میں مقبول ہو جاتے ہیں۔ ان مولویوں کا تعلق مختلف مکاتب فکر سے ہوتا ہے، اپنی اپنی بساط و حیثیت کے مطابق یہ بڑی بڑی تنظیموں سے وابستہ ہو کر دنوں میں امیر ہو جاتے ہیں اور پھر پجیرو اور لینڈ کروزر میں گھومتے ہیں۔ یہ جلسے وغیرہ میں تقریر کرنے کا معاوضہ لاکھوں میں وصول کرتے ہیں اور بڑے بڑے اشتہارات میں ان کے نام کے ساتھ ”علامۃ العصر، فقیہ العصر، غزالی دوراں اور خطیب شعلہ بیاں“ جیسے القابات لگنا شروع ہو جاتے ہیں اور یوں ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ ان کے لہجے میں جو کرختگی اور غصہ ہوتا ہے، وہ دراصل محرومیوں کا ہی شاخسانہ ہوتا ہے۔

اب ان کی اقسام کی طرف چلتے ہیں :

فصلی بٹیرا ٹائپ مولوی : یہ مولویوں کا وہ گروہ ہوتا ہے جو سارا سال کلین شیو یا ہلکی پھلکی داڑھی کے ساتھ زندگی انجوائے کرتے ہیں جیسے ہی رمضان المبارک کا آغاز ہونے لگتا ہے تو مہینہ دو مہینہ پہلے داڑھی بڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے مولویوں کو حافظ بھی کہا جاتا ہے، یہ پورا مہینہ تراویح کی نماز میں مصلے سناتے ہیں اور عیدالفطر پر حسب سابق کلین شیو ہو کر دوبارہ زندگی کو انجوائے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

نعت خواں ٹائپ مولوی: یہ بھی مولویوں کی ایک قسم ہے جو آج کل ایک صنعت کا درجہ حاصل کر چکی ہے، یہ مولوی بڑی بڑی محافل میں اپنی آواز کا جادو جگاتے ہیں اور لاکھوں میں معاوضہ وصول کرتے ہیں، نعت خوانی کے دوران جو نوٹ نچھاور ہوتے ہیں وہ معاوضے سے الگ ہوتے ہیں۔ آج کل یہ خواں ٹائپ مولوی مختلف آلات کا بھی استعمال کرتے ہیں جنہیں کسی دور میں خلاف شرع سمجھا جاتا تھا۔

خلیفہ ٹائپ مولوی : یہ وہ مولوی ہوتا ہے جسے کسی درگاہ کے بڑے پیر کی طرف سے خلافت کی گدی ملی ہوتی ہے۔ اس کا کام امامت و خطابت کے علاوہ اپنے پیر صاحب کے سلسلہ کو وسیع کرنا ہوتا ہے اور زیادہ زیادہ سے لوگوں کو قائل کر کے اپنے سلسلے کا مرید بنانا ہوتا ہے تاکہ پیرخانہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہے۔

عامل ٹائپ مولوی: اس قسم کا مولوی دم درود کرنے کا ہنر جانتا ہے اور تعویز دھاگے جیسے فن سے آگاہ ہوتا ہے۔ ایسے بندے کے بارے میں مشہور ہوتا ہے کہ یہ عامل جنات ہے اور اس کے پاس بہت سارے مؤکل بھی ہیں۔ یہ کلام کے ذریعے سے دوسروں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

عامر لیاقت ٹائپ مولوی: یہ سیزنل مولوی ہوتے ہیں، ان کی رسائی میڈیا تک ہوتی ہے۔ جیسے ہی ربیع الاول یا رمضان شریف کا آغاز ہوتا ہے تو یہ مولویانہ لباس پہن کر سٹیج پر پرفارم کرنے کے لیے آ جاتے ہیں۔ اور عامر لیاقت کی تو شب قدر کی جذب و سرور والی دعا ویسے ہی بڑی مشہور ہے۔ اسی طرح محرم میں بھی ہوتا ہے، سیزن کے حساب سے حلیہ بنا کر یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

سادہ ٹائپ مولوی: یہ عام بندے ہوتے ہیں جن کی مصروفیت کی وجہ سے داڑھی بڑھ جاتی ہے تو لوگ مولوی کہہ کر پکارنا شروع کر دیتے ہیں یا جس بندے کو خدا ہدایت دے تو وہ داڑھی رکھ لیتا ہے اسے بھی لوگ مولوی کہنا شروع کر دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).