عورت پر تشدد کب تک؟



کمینی کم عقل ذلیل عورت! تیری ہمت کیسے ہوئی اپنی ماں کو فون کرنے کی، میں نے تمہیں سمجھایا بھی تھا کہ مجھے وہ لوگ پسند نہیں، پھر تو  نے ان کو فون کیوں کیا؟

یاسر! میری امی ہاسپٹل میں میں ہیں، بہت بیمار ہیں، میں نے صرف ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کیا تھا۔

میرے آگے اب تو زبان چلائے گی، یہ کہتے ہی وہ زارا پر جھپٹ پڑا۔ بچے جو بیڈ پر بیٹھے ٹیب پر گیم کھیل رہے تھے، اپنی ماں کو پٹتا دیکھ کر سہم گئے۔ یاسر نے ایک نظر بچوں پہ ڈالی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

یہ ماڈل ٹاؤن میں واقع تین کنال کی کوٹھی کے ایک کمرے میں پیش آنے والا واقعہ ہے

بیل ہوئی، بچے دوڑ کے دروازے کی طرف لپکے، وہ سرخ بھبھوکا منہ لے کر اندر داخل ہوا، بانو نے پوچھا خیر تو ہے اتنا سننا تھا کہ اس نے بانو کو بالوں سے پکڑ لیا، گالیوں اور تھپروں کا طوفان تھا جس کی زد میں بانو آ گئی۔

بتائیں تو سہی، ہوا کیا ہے؟ وہ بے چاری مار کھاتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔

مجھے پیسوں کی ضرورت تھی، تیرے بھائی کے پاس گیا، اس نے صاف انکار کر دیا۔ میں نے اتنے زیادہ تو نہیں مانگے تھے، صرف بیس ہزار ہی تو مانگے تھے۔

پہلے بھی تو آپ کو بھائی نے دیے جو آپ نے کبھی واپس ہی نہیں کیے۔

بکواس کرتی ہے آگے سے۔۔۔۔ یہ کہتے ہوے اس مرد  نے ایک زور دار تھپڑ جڑ دیا،اس کے ناک سے خون کا فوارہ ابل پڑا، یہ کہانی ایک لوئر مڈل کلاس گھرانے کی ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایک عورت پر اگر تشدد کیا جاتا ہے تو ان میں سے اکثر خواتین صرف ظلم سہتی ہیں یا پھر آخری حد تک جاتے ہوئے خودکشی کر لیتی ہیں، کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے، ان کی کہیں شنوائی نہیں ہو گی۔

آج بھی ایک مظلوم عورت انصاف کے حصول کے لیے تھانے میں اکیلی داخل ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی، لہٰذا عورتوں پر ہونے والے ظلم و جبر کے اکثر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اگر پرچہ درج ہو بھی جائے تو جس انداز میں تحقیقات ہوتی ہیں، وہ جسمانی تشدد سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔

گھریلو تشدد سماجی نا انصافی اور ظلم کی شکل ہے، یہ دہشت گردی کی ہی ایک شکل ہے، سب جانتے ہیں کہ خوا تین کس کس قسم کے تشدد اور ظلم کا شکار ہوتی ہیں۔ کہیں بھائی نے بہن کو آگ لگا دی، کہیں بیوی کو گھر سے نکال دیا، بہن کو جائیداد نہ دینی پڑے تو انہیں قید میں ڈال دیا۔

اس کا کوئی تو حل ہونا چاہیے، اس سلسلے میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے، اسمبلی میں بیٹھی خواتین پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متحد ہو کر اس نکتے پر مثبت قدم اٹھائیں، اس سلسلے میں میڈیا اور اساتذہ پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ والدین اور بچوں کے درمیان دوری ختم کر کے ان کا اعتماد بحال کریں۔ خاص طور پے لڑکیوں میں احساس کمتری سے پیدا شدہ باغیانہ ردعمل کا خاتمہ کریں، مرد حضرات گھر کے سربراہ ہیں۔ ان کو بھی احساس دلایا جائے کہ باہر کا غصہ بیوی، بہن یا بیٹی پر نہ اتارا جائے، گھر سے باہر کی پریشانی باہر ہی چھوڑ کر آئیں۔

یاد رکھیں عورت محفوظ ہے تو خاندان محفوظ ہے، گھر سلامت ہیں ۔ امیر کی کوٹھی ہو یا غریب کا گھر، اپنا گھر سب کو پیارا ہے، مکان اینٹ سیمنٹ سے بنتے ہیں مگر گھر انسان کے محبت بھرے جذبات سے بنتا ہے، عزت اور احساس سے پھلتا پھولتا ہے، گھر انسانی تحفظ کی علامت ہیں، صبر اور برداشت سے مکانوں کو گھر بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).