جو بائیڈن: عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکی صدر کے ابتدائی فیصلے کیا ہو سکتے ہیں؟


جو بائیڈن
جو بائیڈن امریکہ کے 46 ویں صدر کے طور پر حلف اٹھانے کے بعد اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں پہنچنے کے لیے انھوں نے سیاست کے میدان میں 50 برس کا وقت گزارا ہے لیکن شاید انھوں نے کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ صدارت کے پہلے ہی دن انھیں متعدد بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بائیڈن کے دورِ صدارت کا آغاز صدارتی حکم ناموں کی ایک لہر سے ہو سکتا ہے۔ یہ وہ احکامات ہیں جن کی کانگریس سے منظوری ضروری نہیں۔ ان میں سرفہرست صدر ٹرمپ کی جانب سے لگائی جانے والی متنازع سفری پابندیوں کا خاتمہ اور پیرس ماحولیاتی معاہدے میں امریکہ کی دوبارہ شمولیت کے فیصلوں کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

مگر صرف یہ دو اہم معاملات ہی نہیں جن پر جو بائیڈن کی نظر ہے۔ اگرچہ امریکہ کے سامنے اس وقت دنیا کے کئی خطوں میں خارجہ پالیسی کے مسائل کا بھی سامنا ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کی میراث کے طور پر انھیں درپیش آئیں گے لیکن عام امریکی کے لیے اس وقت خارجہ پالیسی سے زیادہ اہم عام شہری مسائل ہیں۔

نو منتخب صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ جو کہ ایوانِ صدر ’وائٹ ہاؤس‘ کا حصہ کہلاتی ہے، کے چیف آف سٹاف رونلڈ کلائین نے کچھ روز پہلے ہی بائیڈن کے پہلے چند دنوں کے اقدامات کے بارے میں ایک یادداشت جاری کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

جو بائیڈن صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے کیا کریں گے؟

دنیا کے طاقتور ملک کا دارالحکومت ’میدان جنگ‘ کا منظر کیوں پیش کر رہا ہے؟

کیا امریکہ میں پہلے بھی کبھی صدر کی افتتاحی تقریب میں تشدد کا خطرہ رہا ہے؟

اس یادداشت میں کہا گیا تھا کہ جو بائیڈن صدر بنتے ہی چند اہم معاملات میں رخصت ہونے والے صدر ٹرمپ کے کئی اقدامات کو کالعدم قرار دینے کے حکم نامے جاری کریں گے اور امریکی قوم کو درپیش بڑے بڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے اقدامات کا اعلان کریں گے۔

اُن کے مطابق صدر بننے کے پہلے دس دن میں جو بائیڈن کانگریس کی منظوری سے پہلے ہی صدارتی حکم نامے جاری کریں گے تاکہ وہ اپنے ملک کو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کے ’تباہ کن اقدامات‘ سے محفوظ کر سکیں۔

کلائین کے مطابق حلف اٹھاتے ہی جو بائیڈن مسلمان ممالک کے شہریوں پر عائد کی گئی سفری پابندیوں میں نرمی متعارف کرائیں گے، موسمیات کے عالمی معاہدے ’پیرِس کلائمیٹ اکارڈ‘ اور ریاستوں کے درمیان سفر کے دوران ماسک پہننا لازمی قرار دیں گے۔

ہر آنے والا امریکی صدر اسی طرح شروع کے دنوں میں بہت سارے حکم نامے جاری کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایسا ہی کیا تھا تاہم ان کے کئی حکم ناموں کو بعد میں عدالت میں چیلنج کر دیا گیا تھا تاہم رون کلائین کا خیال ہے کہ جو بائیڈن کے جاری کردہ حکم ناموں کا وہ انجام نہیں ہو گا جو ٹرمپ کے حکم ناموں کا ہوا تھا کیونکہ نئے صدر قانون کی روح کو سمجھتے ہیں۔

بائیڈن کی میانہ روی

نو منتخب صدر کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ مفاہمت پسند سیاست دان ہیں۔ وہ سینیٹ کے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے 35 برس تک رکن رہے اور عموماً سب کو ملا جلا کر ساتھ لیے چلتے رہے۔ انھوں نے عراق جنگ میں صدر بش کی حکومت کا ساتھ دیا تھا اس لیے بعض مبصرین کی نظر میں وہ آئندہ اپنی حکومت میں بھی میانہ روی اختیار کریں گے۔

تاہم ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما اور امریکہ کے سابق لیبر سیکرٹری رابرٹ ریخ کہتے ہیں کہ جس ریپبلکن پارٹی کے ساتھ مل جل کر جو بائیڈن ماضی میں کام کرتے رہے ہیں وہ اب بالکل ہی بدل چکی ہے۔ ’اب وہاں میانہ روی والا کوئی ماحول نہیں ہے۔‘

رابرٹ ریخ کہتے ہیں کہ اب نئے صدر جو بائیڈن کو دلیرانہ اقدامات لینا ہوں گے کیونکہ اب دوسری جانب مصالحت کار موجود ہی نہیں۔ ان کے بقول اب بائیڈن کو ابراہم لنکن کی طرح تیزی سے جرات مندانہ فیصلے کرنا پڑیں گے جس طرح کہ غلامی کے خاتمے کا فیصلہ تھا۔

کورونا کے خلاف جنگ

بائیڈن ایک ایسے دور میں امریکہ کے صدر بنے ہیں جب کووڈ کی عالمی وبا زوروں پر ہے اور امریکہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے جہاں اب تک اس سے چار لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے خلاف بائیڈن کی انتخابی مہم کے دوران سب سے بڑا مسئلہ وبا سے نمٹنے کا انداز تھا جس پر صدر ٹرمپ کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب نئی انتظامیہ کی ترجیحات میں سب سے اوپر یہی معاملہ ہے۔

جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ ان کی انتظامیہ کو جن اہم ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا ان میں کورونا کے خلاف جنگ بھی شامل ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ کورونا کے خاتمے کے لیے اپنی حکمتِ عملی فوری طور پر نافذ کر دیں گے۔

اس سلسلے میں ابتدائی اقدامات میں ایک ایگزیکٹو اقدام یہ ہو گا کہ ملک بھر میں وفاقی مقامات اور بین الریاستی سفر کے دوران ہر فرد کے لیے ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا جائے گا۔

تاہم اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ مختلف ریاستوں کے وہ گورنر جو ماسک لازمی بنانے کے مخالف تھے، اپنا فیصلہ بدلنے پر تیار ہوں گے کیونکہ صدر کو ایسا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں کہ وہ ملک بھر میں عوام کو ماسک پہننے کا پابند کر سکیں۔

جو بائیڈن کو اس صورتحال کا ادراک ہے اور ان کے مطابق وہ اس سلسلے میں گورنروں سے ذاتی طور پر بات کریں گے اور اگر وہ نہ مانے تو مقامی انتظامیہ سے بھی رابطے کیے جا سکتے ہیں۔

ویکسین

جو بائیڈن عوام کو ویکسین کی فراہمی کا عمل تیز کرنا چاہتے ہیں

100 دن میں 100 ملین افراد کو ویکسین کی فراہمی

جو بائیڈن عوام کو ویکسین کی فراہمی کا عمل بھی تیز کرنا چاہتے ہیں اور اپنی صدارت کے ابتدائی 100 دن کے دوران ویکسین لگوانے والے افراد کی تعداد 10 کروڑ تک دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک تجویز تمام دستیاب ویکسین کی فراہمی ہے نہ کہ کچھ ویکسین کو دوسری خوراک کے لیے روک لیا جائے۔

عالمی ادارہ صحت میں واپسی

جو بائیڈن یا ان کے ساتھیوں میں سے کسی کی جانب سے فی الحال امریکہ کے ڈبلیو ایچ او میں واپس جانے کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے لیکن امریکہ کی جانب سے صحت کے عالمی ادارے سے علیحدگی اختیار کرنے کے فیصلے کی واپسی بھی جو بائیڈن کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

رخصت ہونے والے صدر ٹرمپ نے اس ادارے پر کورونا وائرس کے دوران چین کی سخت بازپرس نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اس سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

اقتصادی اقدامات

گذشتہ ہفتے جو بائیڈن نے امریکہ کی کورونا سے متاثرہ معیشت کی بحالی کے لیے 19 کھرب ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا۔

اس بارے میں وائٹ ہاؤس کے سٹاف کے سینیئر ارکان کو جاری کی گئی اس یادداشت میں چیف آف سٹاف رون کلائین نے کہا ہے کہ ’نئے صدر کے حکم نامے ایسے لاکھوں امریکیوں کو اقتصادی تکلیفوں سے نجات دلائیں گے جو اس وبا کے دوران دشواریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ نو منتخب صدر بائیڈن صرف ٹرمپ حکومت کے سنگین نقصانات کو پلٹنے کی کوشش ہی نہیں کریں گے بلکہ ملک کو آگے بڑھانے کے اقدامات بھی لیں گے۔‘

انھوں نے کہا تھا کہ صدر بائیڈن کے ویژن پر مکمل طور پر عملدرآمد کے لیے کانگریس کو کئی قوانین کی منظوری دینا ہو گی جن میں ایک اعشاریہ نو ٹریلین ڈالر کے اخراجات کے قانون کی منظوری بھی شامل ہے۔

اگر کانگریس اس کی منظوری دے دیتی ہے تو اس میں امریکہ کے تمام شہریوں کو 1400 ڈالر کی رقم کی ادائیگی بھی شامل ہے۔

صدر بائیڈن کا یہ پیکیج 900 ارب ڈالر کے اس امدادی پیکیج کے علاوہ ہے جس کی منظوری کانگریس دسمبر 2020 میں دے چکی ہے اور اسے جو بائیڈن نے ایک بڑے منصوبے کی ابتدائی قسط قرار دیا تھا۔

ماحولیات کا مسئلہ

امریکہ کی موجودہ اقتصادی مشکلات کورونا کی وبا سے جڑی ہیں لیکن ماحولیات کا معاملہ امریکہ میں سیاسی تقسیم کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے دورِ صدارت کے پہلے دن پیرس ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کریں گے۔ اس عالمی معاہدے کا ایک بڑا مقصد دنیا کے درجۂ حرارت کو قبل از صنعتی زمانے کے درجۂ حرارت سے دو ڈگری سے زیادہ بڑھنے سے روکنا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 میں طے پانے والے اس معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری کا فیصلہ کیا تھا اور امریکہ ایسا فیصلہ کرنے والا پہلا ملک تھا۔

جو بائیڈن نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے 100 دن کے اندر ماحولیات کے موضوع پر ایک عالمی سربراہی کانفرنس بھی منعقد کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہ کہ وہ رواں برس کے دوران ہی ایسی قانون سازی بھی کروانا چاہتے ہیں جس کے تحت سنہ 2050 تک امریکہ میں ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کو مجموعی طور پر صفر پر لایا جا سکے۔

کی سٹون ایکس ایل پائپ لائن منصوبے کی منسوخی

اپنے صدارتی دور کے آخری دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کے صوبہ البرٹا سے امریکی ریاست نبراسکا تک تیل کی ترسیل کی 12 ہزار میل لمبی کی سٹون ایکس ایل پائپ لائن کی تعمیر کی منظوری دی تھی لیکن امریکی میڈیا کی تازہ رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن اس فیصلے کو منسوخ کر دیں گے۔

احتجاج

جو بائیڈن نے امیگریشن کے حوالے سے جو اہم وعدہ کیا تھا وہ ملک میں موجود ایک کروڑ دس لاکھ غیرقانونی تارکینِ وطن کے لیے امریکی شہریت کی راہ ہموار کرنے کے اقدامات تھے

سفری پابندیوں کا خاتمہ

صدر ٹرمپ نے جنوری 2017 میں امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے سات دن بعد جن سفری پابندیوں کا اعلان کیا تھا، نئے صدر کی جانب سے ان کا فوری خاتمہ متوقع ہے۔

ابتدائی طور پر ان پابندیوں کا نشانہ سات مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک بنے تھے تاہم بعد میں عدالتی احکامات کے بعد ان پابندیوں میں کچھ تبدیلیاں بھی لائی گئیں۔

اب اس کے تحت ایران، لیبیا، صومالیہ، شام، یمن، وینزویلا اور شمالی کوریا کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد ہیں۔

امریکی شہریت کا راستہ

جو بائیڈن نے امیگریشن کے حوالے سے جو ایک اور اہم وعدہ کیا تھا وہ ملک میں موجود ایک کروڑ دس لاکھ غیرقانونی تارکینِ وطن کے لیے امریکی شہریت کی راہ ہموار کرنے کے اقدامات تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں جلد ہی کانگریس میں ایک مسودۂ قانون بھیجیں گے۔

اس قانون کے مسودے کے بارے میں تارکینِ وطن کی تنظیم نیشنل امیگریشن فورم کے سربراہ پاکستانی نژاد علی نورانی کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر امریکہ میں موجود غیر قانونی تارکینِ وطن کے لیے ایک آٹھ برس کا ایک قانونی راستہ مہیا کیا جائے گا تاکہ وہ امریکی شہری بن سکیں جبکہ بچپن سے آئے تارکینِ وطن کے لیے اس سے بھی مختصر عرصہ ہو گا۔

اور پھر اگلے دس دن تک امریکی صدر بائیڈن کریمینل جسٹس سسٹم، امیگریشن، بچھڑے ہوئے رشتہ داروں کو دوبارہ سے اپنے خاندان سے ملانے کے اقدامات کا اعلان کریں گے۔

سرحدی دیوار کی تعمیر کا خاتمہ

جو بائیڈن نے اس عزم کا بھی اظہار کیا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کے دورِ صدارت کی پہچان بننے والے اس منصوبے کو بھی روک دیں گے جس کے تحت امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کی جا رہی ہے۔

صدر بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران اس منصوبے کو رقم کا ضیاع قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کی وجہ سے اصل خطرات سے نمٹنے کے لیے درکار وسائل کا رخ موڑا گیا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ کے مطابق وہ دیوار کی تعمیر کی بجائے وفاقی رقوم کو سرحدی نگرانی کے نئے انتظامات پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ٹرمپ

AFP via Getty Images

خارجہ پالیسی اور بائیڈن

چین

جو بائیڈن کے نامزد وزیر دفاع جنرل آسٹن نے حال ہی میں امریکی سینیٹ کی کمیٹی میں اپنی تقرری کی توثیق کے لیے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ چین کو اپنا اصل مدمقابل سمجھتا ہے۔ انھوں نے سینیٹرز کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکی چین کو اپنے لیے سب سے بڑا چیلنج سمجھتا ہے۔

تاہم امریکہ کے سابق وزیرِ خارجہ ہینری کیسنجر نے حال ہی میں لکھا ہے کہ امریکہ کے لیے یہ وقت موزوں نہیں کہ وہ چین کے انسانی حقوق کے بارے میں تنازع کھڑا کرے۔ ان کے مطابق اب وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ امریکہ چین سے اقتصادی اور تجارتی تعلقات بہتر کرے جو کہ پچھلی حکومت کے زمانے میں خراب ہو گئے تھے۔

ایران

جوہری معاملات پر ایران اور پانچ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے سے صدر ٹرمپ نے یکطرفہ علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا لیکن ابھی تک امریکہ کی نئی انتظامیہ اس معاہدے کے بارے میں خاموش ہے۔

جو بائیڈن نے ماضی میں اعلان کیا تھا کہ وہ چاہیں گے کہ امریکہ ایران کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائے لیکن ان کی اس تجویز کی سینیٹ نے مخِالفت کی تھی۔

ایران نے اُس معاہدے کی حد سے زیادہ مقدار میں یورینیم کی افزودگی شروع کردی ہے جس وجہ سے اب واپسی کا معاملہ پیچیدہ ہو گیا ہے اور کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔

یورپ

یورپ سے تعلقات میں پہلی مثبت تبدیلی تو صدر بائیڈن کے اہلکار رون کلائین کے اس اعلان سے نظر آتی ہے کہ امریکہ پیرس ماحولیاتی معاہدے میں واپس جا رہا ہے لیکن انھیں نیٹو کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر بھی نظرِ ثانی کرنا ہو گی۔

یورپی یونین اور اُس سے الگ ہونے والے ملک برطانیہ کے بارے میں نئی حکومت کی حکمت عملی پر بھی فی الحال خاموشی ہے۔ شمالی کوریا سے تعلقات کی بہتری اور وینیزویلا سے لڑائی جو انھیں ٹرمپ کی میراث کی صورت میں ملی ہے، اب دیکھتے ہیں کہ صدر بائیڈن اس پر کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

جنوبی ایشیا

امریکہ کی ماضی کی حکومتیں انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرتی آئی ہیں لیکن اس کے باوجود جو بائیڈن اور ان کی نائب صدر کملا ہیریس نے کشمیر میں انسانی حقوق پر مذمتی بیانات جاری کیے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اب اقتدار میں آنے کے بعد ان کے بیانات کس قسم کی عملی صورت اختیار کرتے ہیں۔

افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا ہوتا ہے یا وہ افغان طالبان سے مذاکرات کے انجام تک اس بارے میں کوئی فیصلہ کرتے ہیں، جس کے لیے انھیں پاکستان کی ضرورت ہو گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ ان معاملات میں صدر ٹرمپ کے نقشہِ راہ پر چلیں گے یا اُن کا اپنا کوئی نیا وژن ان کی حکومت کی پالیسیوں کی رہنمائی کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp