جو بائیڈن کی حلف برداری: اتحاد کی اپیل اور ٹرمپ ازم کا بھوت


امریکہ میں جو بائیڈن نے نئے صدر کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے نئے صدر نے قومی اتحاد سے ملکی مسائل پر قابو پانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ لیکن یہ ایک مشکل اور صبر آزما جد و جہد ہوگی۔ سابق صدر ڈونلد ٹرمپ 142 سال پرانی روایت توڑتے ہوئے جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شریک نہیں ہوئے۔ واشنگٹن سے روانہ ہوتے ہوئے انہوں نے نئی انتظامیہ کے لئے ’نیک خواہشات‘ کا اظہار تو کیا لیکن اپنی شکست تسلیم نہیں کی۔ وہ بدستور دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں سازش کے تحت دھاندلی سے شکست دی گئی ہے۔

انتخاب چوری ہونے کا دعویٰ کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ تنہا نہیں ہیں بلکہ امریکہ میں ان کے حامیوں کی بڑی تعداد ان کے اس موقف کی حمایت کرتی ہے۔ اور سمجھتی ہے کہ انہیں ’ڈیپ اسٹیٹ‘ نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ناکام کروایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جب واشنگٹن سے روانہ ہو کر فلوریڈا پہنچے تو ان کا استقبال کرنے کے لئے بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ انہوں نے ’ٹرمپ بدستور میرا صدر ہے‘ کے بینر اٹھا رکھے تھے اور سابق صدر کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے۔ ٹرمپ ان جذبات کو ٹھنڈا ہونے نہیں دیں گے۔ واشنگٹن سے روانہ ہوتے ہوئے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ’پھر ملیں گے اور واپس آئیں گے‘ ۔ فی الوقت ڈونلڈ ٹرمپ کو سینیٹ میں دوسرے مواخذے کا سامنا ہے۔ اگر سینیٹ اس بار بھی بطور صدر ان کا مواخذہ کرنے اور ایک قرارداد کے ذریعے ان پر کوئی سرکاری عہدہ سنبھالنے کی پابندی لگانے میں ناکام رہتی ہے تو ٹرمپ 2024 میں ایک بار پھر صدر بننے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

بدھ کو نئے امریکی صدر کی تقریب حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن کو حصار بند کیا گیا تھا۔ کیوں کہ سبکدوش ہونے والے صدر نے سیاسی عمل اور جمہوری طریقہ کو مشکوک قرار دینے کا ہر ممکن جتن کیا ہے۔ اس طریقہ سے امریکہ میں ایسی گہری تقسیم پیدا ہوئی ہے جو ملکی آئین و قانون کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔ 6 جنوری کو کانگرس پر حملہ اسی تقسیم شدہ امریکہ کی تصویر پیش کرتا ہے۔ تمام امریکی سیاست دان اور تجزیہ نگار اس ایک نکتہ پر زور دے رہے ہیں کہ صدارتی انتخاب چوری کرنے کا بے بنیاد نعرہ ترک کیا جائے۔ 6 جنوری کی دہشت گردی کے بعد یہ مطالبہ زور پکڑ گیا لیکن ٹرمپ نے اس معاملہ پر مفاہمت سے انکار کیا ہے۔ اس انکار کی متعدد وجوہات پیش کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ سابق صدر شکست کے عادی نہیں ہیں، اس لئے ان میں اپنی ہار قبول کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ ایک وضاحت یہ بھی دی جاتی ہے کہ ٹرمپ ذہنی طور پر یقین کیے بیٹھے ہیں کہ وہ درحقیقت انتخاب جیتے تھے لیکن کسی سازش کے تحت انہیں ہرایا گیا ہے۔ تاہم اگر ٹرمپ کے انتہا پسند نظریات اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کو پیش منظر رکھا جائے تو یہ جاننا مشکل نہیں ہوگا کہ ٹرمپ نے کسی جذباتی کیفیت یا بھولپن میں امریکی صدارتی انتخاب کو متنازعہ بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ انہوں نے یہ رویہ دوسروں کو یقین دلانے کے لئے اختیار کیا ہے کہ واقعی انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تمام عدالتی فورمز پر یہ موقف غلط ثابت ہو جانے کے باوجود نہ ٹرمپ اس سچائی کو ماننے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی ان کے حامی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ٹرمپ کو انتخاب میں شکست بھی ہو سکتی ہے۔ کانگرس پر حملہ کے بعد مسلسل ان عناصر کے بارے میں معلومات سامنے آ رہی ہیں جو اس حملہ میں معاونت کرتے رہے تھے۔ ان میں پولیس و سیکورٹی کے علاوہ کانگرس کے ارکان بھی شامل ہیں۔ یہ حملہ ٹرمپ کی فوری پسپائی کی وجہ ضرور بنا ہے لیکن وہ اب بھی نفرت، تقسیم اور انتہا پسندی کی بنیاد پر ذاتی سیاسی کامیابی کے ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ ری پبلیکین پارٹی نے ابھی تک سابق صدر سے فیصلہ کن فاصلہ بھی اختیار نہیں کیا۔ ایوان نمائندگان میں مواخذہ کی دوسری قرارداد کو ضرور 10 ری پبلیکن ارکان کی حمایت حاصل ہوئی تھی جس کی وجہ سے اسے بعض مبصرین بین الجماعتی کاوش قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ ایوان نمائندگان کے 197 ری پبلیکن ارکان نے مواخذے کی قرارداد کو مسترد کیا تھا۔

سینیٹ میں اس مقدمہ کی سماعت کے دوران ری پبلیکن پارٹی کے ووٹ اہم ہوں گے۔ گو کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو سینیٹ میں 50 نشستیں حاصل ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ تکنیکی طور سے اس وقت کانگرس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت کی حامل ہے۔ تاہم اختلافی امور پر کامیابی کے لئے پارٹی کو یا تو کسی ری پبلیکن سینیٹر کی حمایت درکار ہوگی یا نائب صدر کا ووٹ استعمال کرنا پڑے گا تاکہ اسے سینیٹ میں اکثریت مل جائے۔ سابق صدر کے مواخذہ کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے ڈیموکریٹک پارٹی کو کم از کم 17 ری پبلیکن سینیٹرز کی حمایت درکار ہوگی۔ کیوں کہ صدارتی مواخذہ کے لئے دو تہائی اکثریت ضروری ہوتی ہے۔ اگر اتنی تعداد میں ری پبلیکن سینیٹرز ٹرمپ کے خلاف ووٹ دینے پر راضی ہو گئے تو یہ واقعی امریکی جمہوریت کی بڑی کامیابی ہوگی اور ری پبلیکن پارٹی پر سے ٹرمپ کا اثر و رسوخ ختم کرنے کی کامیاب کوشش بھی کہی جاسکے گی۔ لیکن فی الوقت امریکہ سے موصول ہونے والی اطلاعات اس امکان کی تائید نہیں کرتیں۔ بلکہ صدر بائیڈن کو یہ فکر لاحق ہے کہ سینیٹ مواخذہ کی کارروائی کی وجہ سے ان کی کابینہ کے ارکان اور دیگر اہم عہدیداروں کی توثیق کے کام میں تاخیر نہ کرے۔ بائیڈن کو درپیش مسائل حل کرنے کے لئے فوری طور سے موثر ٹیم کی ضرورت ہے۔ سینیٹ کے تعاون کے بغیر یہ کام مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ کسی بھی صدر کے لئے پہلے ایک سو دن اہم ہوتے ہیں۔ اس دوران وہ یہ واضح کرتاہے کہ آئندہ چار برس کے دوران اس کی حکومت کیسی کارکردگی دکھا پائے گی۔

صدر جو بائیڈن کو ان مشکلات کا ادراک بھی ہے اور نفرت اور تقسیم کرنے والی قوتوں کی صلاحیت کا بھی اندازہ ہے۔ اسی لئے حلف برداری کی تقریب میں انہوں نے واضح کیا کہ ’میں جانتا ہوں کہ تقسیم کرنے والی قوتیں حقیقی ہیں اور ان کی جڑیں گہری ہیں۔ لیکن امریکہ نے نسل پرستی، قوم پرستی، خوف، شیطنیت اور منفی طاقتوں سے ہمیشہ مقابلہ کیا ہے۔ اس وقت بھی ہم جس بحران اور خطرے کا مقابلہ کر رہے ہیں، اسے اتحاد سے ہی شکست دی جا سکتی ہے‘ ۔ اتحاد کی اپیل میں نفرت کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے دراصل جو بائیڈن اپنے طویل سیاسی تجربے کا نچوڑ پیش کر رہے تھے۔ امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ کی صورت میں یہ منفی قوتیں منظم بھی ہیں اور مسلسل ملک کو انتشار اور تصادم کی طرف دھکیلنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے اس حقیقت کے باوجود کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہفتہ عشرہ میں سبکدوش ہونے والے تھے، ان کے خلاف مواخذے کی دوسری تحریک لائی گئی۔ اس تحریک کے ذریعے امریکی کانگرس یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ امریکی جمہوری نظام کو جھوٹ اور ناقص قرار دینے والے کسی شخص کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی ایک ایسا شخص محض صدر ہونے کی وجہ سے انتشار و تشدد پر اکسانے کے جرم کی سزا سے بچ سکتا ہے۔

نئے امریکی صدر کو ایک طرف بکھری ہوئی منتشر قوم کی شیرازہ بندی کرنا ہے تو دوسری طرف اس اصول کی حفاظت بھی ان پر لازم ہے کہ امریکی جمہوریت کو متنازعہ بنا کراس نظام کو کمزور کرنے کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’جمہوریت بہت قیمتی ہے تو یہ نازک بھی ہے۔ اس بار جمہوریت کامیاب ہوئی ہے۔ ہم آج کسی امید وار کی کامیابی کی خوشی نہیں منا رہے بلکہ اس بات پر مسرور ہیں کہ ایک مقصد کامیاب ہوا ہے۔ یہ مقصد جمہوریت ہے۔ چند روز پہلے پر تشدد مظاہرین نے سوچا تھا کہ وہ عوام کی پسند کو مسترد کر سکتے ہیں۔ ہماری جمہوریت کو کام کرنے سے روک سکتے ہیں۔ ہمیں اس مقدس جگہ سے بے دخل کر سکتے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکا۔ اور کبھی ایسا نہیں ہو سکے گا‘ ۔ جو بائیڈن کو آنے والے چار برسوں میں اس مقصد کے لئے سخت محنت کرنا پڑے گی۔ اس کا آغاز انہوں نے صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی متوازن اور پر اثر تقریر سے کیا ہے۔

قوم سے متحد ہونے اور اختلاف رائے کو تصادم بنانے سے گریز کی اپیل کرتے ہوئے جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’امریکہ کو سیاسی انتہا پسندی، سفید فام نسل پرستی اور داخلی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ہمیں اتحاد کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں سرخ کو نیلے، دیہی کو شہری اور قدامت پسند کو لبرل سے لڑانے والی غیر مہذب جنگ کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر ہم دلوں کو سخت کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے لئے گنجائش پیدا کریں تو ہم یہ مقصد حاصل کر سکتے ہیں‘۔ جو بائیڈن کا یہ پیغام کسی بھی صحت مند معاشرہ کے لئے عالمگیر سچائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم تخریبی قوتوں کو عوام کے شعور سے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہتھکنڈوں سے امریکی عوام کی بہت بڑی تعداد کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہی ان کے نسلی فخر اور معاشی مفاد کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ اسی لئے 3 نومبر کے انتخاب میں انہیں 74 ملین لوگوں نے ووٹ دیا۔ یہ امریکی تاریخ میں کسی بھی صدر کو ملنے والے سب سے زیادہ ووٹ تھے۔ وہ اپنے مقصد میں اس لئے کامیاب نہیں ہو سکے کہ امریکی عوام کی زیادہ بڑی تعداد نے ٹرمپ کی تخریبی ذہنیت اور نسل پرستی کے پیغام کو مسترد کرنے کے لئے اس سے بھی زیادہ تعداد میں جو بائیڈن کو ووٹ دے کر کامیاب کروایا۔ جمہوریت میں یہی شعور اور اس کا اظہار کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔

امریکہ کے مقابلے میں پاکستانی جمہوریت ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے جمہوری شعور بھی ناپختہ ہے۔ تاہم پاکستانی سیاست دان ضرور انتہا پسندی، نعرے بازی اور معاشرتی انتشار کی اس ہلاکت خیزی کو سمجھتے ہیں جس کی طرف جو بائیڈن نے آج اپنی تقریر میں اشارہ کیا ہے۔ پاکستان میں سیاست سے وابستہ سب عناصر کو سمجھنا ہوگا کہ نفرت اور تقسیم کی سیاست اگر امریکہ جیسے منظم معاشرہ میں دراڑیں ڈال سکتی ہے تو وہ پاکستان میں کیسی تباہی لے کر آئے گی۔ اس تباہی سے بچنے کے لئے اس تصادم سے بچنا اہم ہوگا جس طرف پاکستانی سیاست کو اس وقت دھکیلا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali