پی سی سی سی، ایپٹما اور وزیراعظم کا اعلان کردہ پیکچ


کچھ دوستوں کو شاید پی سی سی سی یعنی پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے بارے میں زیادہ نہیں معلوم تو ان کے لئے مضمون کے آغاز سے پہلے میں پی سی سی سی کا مختصر تعارف کیے دیتا ہوں۔ یہ اہم قومی نوعیت کا ادارہ ملکی سطح پر کپاس کے میدان میں تحقیق و ترقی کو فروغ دینے اور ملکی معیشت کو استحکام فراہم کرنے کے لئے کاٹن سیس ایکٹ 1923 کے تحت حکومت پاکستان کے توسط سے 1948 میں تشکیل دیا گیا اور یہ ادارہ وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی کے ماتحت کام کرتا ہے۔

پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی قومی سطح پر روئی کی تحقیق اور ترقیاتی پروگراموں کو انجام دینے والا واحد قومی ادارہ ہے۔ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے بنیادی مقاصد میں کپاس کی تحقیق و ترقی سے متعلق تمام پہلوؤں سے کپاس کی فصل کی ترویج و ترقی ہے۔ کپاس کی نئی نئی اقسام تیار کرنا، کپاس کی پیداواری ٹیکنالوجی پر تحقیق، اس کی مارکیٹنگ، مینو فیکچرنگ، کپاس کے اعداد و شمار اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے لئے کپاس سے متعلق ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا جہاں سب یکجا ہو کر ملکی کپاس اور کپاس کی مصنوعات پر سیر حاصل گفتگو کر سکیں اور مناسب حکمت عملی تشکیل پا سکے۔

صوبائی حکومتوں کے ساتھ کپاس سے متعلق تحقیق میں تکنیکی و غیر تکنیکی معاونت فراہم کرنا، کپاس پر تحقیقات اور ترقیاتی پروگراموں کے نفاذ اور نگرانی میں وزارت خوراک برائے قومی تحفظ و تحقیق کی مدد کی فراہمی وغیرہ پی سی سی سی کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ بنیادی مقاصد کے حصول کے لئے پی سی سی سی کے تین بڑے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کاٹن ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی، سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان و سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ سندھ قائم کیے گئے اور ساتھ ہی چاروں صوبوں میں مختلف مقامات پر کاٹن ریسرچ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔

پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کا ذریعہ آمدن کاٹن سیس ہے جو کہ 50 روپے فی گانٹھ 170 kg) روئی) ہے۔ کاٹن سیس ایکٹ کے تحت تمام ٹیکسٹائل ملز مالکان پی سی سی سی کو کاٹن سیس ادا کرنے کے قانونی طور پر پابند ہیں اور ان فنڈز سے حاصل ہونے والی آمدن کو ملازمین کی تنخواہوں، پینشنز، کپاس کی تحقیق و ترقی اور دیگر آپریشنل چارجز پر خرچ کیا جاتا ہے۔ یاد رہے یہ سیس کاٹن پروڈکشن کی بجائے کاٹن کنزمپشن یعنی کھپت میں استعمال ہونے والی ایک گانٹھ پر عائد ہے مگر ستم ظریقی یہ کہ گزشتہ چند برسوں سے غیر قانونی طور پر ٹیکسٹائل ملز مالکان نے پی سی سی سی کو کاٹن سیس دینا بند کر دیا ہے جس سے پی سی سی سی کی مالی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نہ صرف کپاس کی تحقیقی سرگرمیاں جمود کا شکار ہو چکی ہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں پی سی سی سی ملازمین کو چار ماہ سے تنخواہیں اور پینشنز نہ ملنے کے سبب معاملہ فاقوں تک پہنچ گیا ہے۔

وزرات نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کاٹن سیس کی وصولی کے لئے پورا زور لگا رہی ہے مگر مل مالکان کا گروپ اس قدر طاقتور اور با اثر افراد پر مشتمل ہے کہ ان کے آگے کسی کا زور چلتا دکھائی نہیں دے رہا اور یوں یہ مل مالکان پی سی سی سی کے تقریباً اڑھائی ارب روپے سے زائد کی رقم دبا کر بیٹھے ہیں۔

جب مختلف فورمز پر یا اعلیٰ سطحی اجلاس میں ان کے نمائندگان سے اس مسئلے پر بات ہوتی ہے تو پھر جان بوجھ کر پی سی سی سی کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہاں تو کوئی ریسرچ نہیں ہو رہی اور یہ کہ یہ ادارہ قومی خزانے پر بوجھ بن کر رہ گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ادارہ آج بھی اپنے محدود وسائل کے باوجود پاکستان میں کپاس کے دیگر ریسرچ اداروں کے مقابلے میں بہتر پرفارم کر رہا ہے ، ہاں مگر مسائل کے حل تک صد فیصد نتائج دینے سے قاصر ہے۔

غور طلب نکتہ یہ ہے کہ جب تک کپاس کی تحقیق پر سرمایہ کاری نہیں ہو گی، ملازمین کے مالی مسائل حل نہیں کیے جائیں گے اور ادارے کے انتظامی ایشوز کو حل نہیں کیا جائے گا تو پھر مطلوبہ نتائج کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو ہی دیکھ لیجیے جب تک اس شعبہ کے مسائل دور نہیں کیے گئے تھے تو ٹیکسٹائل سیکٹر کی گروتھ کافی سالوں سے رکی رہی مگر موجودہ حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر کے دیرینہ مسائل مثلاً فی یونٹ بجلی و گیس کی سستی فراہمی سے اور امپورٹڈ کاٹن پر ریگولر ڈیوٹی کا خاتمہ کر کے اس سیکٹر کی پیداواری لاگت میں خاطر خواہ کمی کر کے اس سیکٹر کی کارکردگی و صلاحیت کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

ٹیکسٹائل سیکٹرز کے مسائل دور ہونے کے بعد ہی اس شعبہ سے مطلوبہ نتائج سامنے آئے ہیں۔ لہٰذا انہی خطوط پر جب تک پی سی سی سی کے مالی و انتظامی مسائل کے حل کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی تو اس وقت یہ مطلوبہ نتائج دینے سے معذور ہی رہے گا۔ موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو ایک طرف تو مل مالکان حکومت سے بہت سی مراعات لے رہے ہیں تو دوسری طرف ناجائز طریقے سے پی سی سی سی کے اربوں روپے دبائے بیٹھے ہیں۔

ارباب اختیار کا اس معاملے پر فوری ایکشن لینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ حالت یہ ہے کہ اس سال ملک میں پیداوار کے لحاظ سے ہمیں کپاس کی بدترین صورتحال کا سامنا ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول ایپٹما بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔ جب سے مل مالکان نے ریسرچ اداروں کو سیس دینا بند کیا ہے تب سے کپاس کی تحقیقی سرگرمیوں پر منفی اثرات پڑنا شروع ہوئے اور یوں کپاس کی کم پیداوار کی بدولت ہمیں اس سال تقریباً 4 سے 5 ارب ڈالرز کی کپاس بیرون ممالک سے منگوانا پڑ رہی ہے جس کا بوجھ قومی خزانے کو اٹھانا پڑ رہا ہے جو کہ پہلے ہی کمزور معیشت کے باعث نزع کی حالت میں ہے۔

پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کی مخدوش مالی و انتظامی حالت کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ برس 25 فروری 2020 کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی اور اس اجلاس میں پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے لئے تین برس کے لئے 6 ارب روپے کی خطیر رقم بطور اینڈونمنٹ فندز جاری کرنے کا حکم دیا اور اس سلسلے میں وزارت خزانہ کو بھی ایک لیٹر جاری کیا گیا مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ 11 ماہ گزر جانے کے باوجود تاحال وزیر اعظم کے اعلان کردہ فنڈز سے متعلق حکم نامے پر عمل درآمد نہ ہو سکا ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی، کئی سالوں سے ملازمین کے رکے ہوئے واجبات کی ادائیگی نہ ہونے اور گزشتہ چار ماہ سے تنخواہوں اور پینشنز نہ ملنے کے باعث معاملہ سنگین صورتحال اختیار کیے ہوئے ہے۔ ادارے کے ملازمین، کسانوں کی نمائندہ تنظیموں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے حکومت سے اس اہم مسئلہ کے حل کے لئے فی الفور ایکشن لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).