آؤ رل مل کے کم کریے، برکت ہو سی


پرانے وقتوں میں بزرگ کہا کرتے تھے کہ ”آؤ رل مل کے کم کریے، برکت ہو سی“ (آؤ مل جل کر کام کریں، برکت ہو گی) اور برکت تو سونا چاندی اور میٹھے پھل لیے ہمیشہ چوکھٹ پر کھڑی ملا کرتی تھی۔ بڑے سیانے ہوا کرتے تھے۔ اپنے تجربے سنایا کرتے۔ ایک بیٹھک ہوا کرتی تھی جس میں بڑھتی عمریں اور غروب ہوتے سورج اختلاف اور اعتماد کی فضا میں سانس لیا کرتے تھے۔ پرانے وقت تھے، گزر گئے۔

پھر نئے گزرتے وقت آئے، ان نئے گزرتے وقتوں میں بزرگوں نے کڑی تپسیا کی کہ گھوڑے کی لگام قابو میں رکھی جا سکے۔ ترقی کا عمل کب تھم سکا ہے۔ لاکھ روڑے اٹکا لو، یہ قدرتی عمل ہے، چلتا رہنے والا ہے۔ تو ہوا یوں کہ نئے گزرتے وقت کے جو بزرگ تیز رفتار گھوڑے کو تھامنے کے بجائے اپنی چال میں تیز ہو گئے، وہ آگے بڑھ گئے اور جو صرف گھوڑے کو قابو کرنے میں مصروف رہے وہ جاں سے گزر گئے۔

اس نئے گزرتے وقت نے سائنس کو سہارا دیا۔ سائنس نے ذرا ترقی کی اور وقت کو آئینہ بنا کر بزرگوں کے سامنے جا رکھا۔ بزرگ یہ دیکھ کر سٹپٹا گئے۔ بہتوں نے سائنس کو سچ جانا اور کئی ایک نے سائنس کو جھٹلایا۔ جھٹلانے کا نقصان بھی نوع انسانی کو ہوا اور اپنانے یا سمجھنے کا فائدہ بھی نوع انسانی ہی کو ہوا۔ مگر وقت کا گھوڑا مسلسل اپنے مدار میں چلتا رہا۔ سائنس کو استقامت ملتی گئی۔ اور اس نے درخت کی مانند شاخیں ہوا میں پھلنے پھولنے کو چھوڑ دیں۔

کئی مدمقابل زہر کا پیالہ تھامے خلیفہ وقت کھڑے تھے۔ سقراط نے اسے تجربہ قرار دیا اور جام سمجھ کر پی گیا۔ خلیفہ وقت کو یہ معمولی واقعہ کامیابی لگا اور اس نے وہیں اپنے پیر پسارے اور اندھیر نگری میں ڈیرا جما لیا۔ سقراط پر زہر نے کب اثر کرنا تھا۔ سو روشنی بن کر علم کے سمندر میں جا گرا۔ پھر ہوا یوں کہ اس سندر سمندر سے جس نے پانی کے چند قطرے پیے، سقراط ٹھہرا، یہاں تک کے وقت مسافت طے کرتا زمانۂ جدید میں آ رہا۔ یہاں وقت ذرا حیران ہوا کہ کہاں گئے وہ بزرگ جو داستان سنایا کرتے تھے۔

رل مل کے لوگ کام کرتے دیکھے مگر وہ بات وقت کو نہ ملی جو اسے اپنے بچپن میں اکثر سننے کو ملا کرتی تھی۔ پھر وقت کے گھوڑے پر سوار سقراط نے روشنی کو پھیلنے کے بجائے سکڑتے دیکھا تو حیران ہوا کہ روشنی سکڑ کیوں رہی ہے۔ پھر اسی سقراط نے دیکھا کے زمانہ الٹ گیا ہے۔ اب روشنی پھیلانے سے سکڑتی ہے لیکن سکڑنے سے بھی سکڑتی ہے۔ وجہ جاننے کی کوشش کی تو پایا کہ رل مل کے کام کرتے زمانے میں لوگوں میں برداشت کی قوت تھی بلکہ کسی کو پھلتا دیکھ زمانے بھر میں نقارہ بجایا جاتا تھا۔ سکڑتی روشنی کے زمانے میں پھلتا پھلتا دیکھنا ہی لوگوں کے لیے عذاب بن چکا ہے۔

نئے بیانیے کے وقت نے یہ بھی جانا کے رل مل کے کام کرتے لوگوں میں خوشیاں اور سکون تھا کہ سب ایک دوسرے کی ضرورت کا خیال رکھتے، انسان کہلائے جانے کا احساس کیا کرتے تھے۔ مگر سکڑتی روشنی کے وقت میں لوگ عزت کر لینے کو بڑی بات سمجھتے۔ خوشیاں مصنوعی تھیں اور قدرتی انسانی پن موت کے دہانے پر کھڑا تھا

سقراط نے یہ سب دیکھا اور گھوڑے کی مہار وقت کے حوالے کی اور بے نام سمت چل دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).