بٹو میاں رفو گر(کہانی)


ارے اماں! آج پھر میری پینٹ اپنی واشنگ مشین کے کٹھارا اسپنر میں سکھائی ہے کیا؟ وقاص اپنی اکلوتی لیوائس کی جینز کو ہاتھ سے لہراتے ہوئے چلایا۔ اماں سٹوو کی آنچ کم کرکے ، ہاتھ سے خشکی جھاڑتے ہوئے وقاص کے پاس دوڑی آئیں۔

لاؤ ادھر دکھاؤ۔ کہاں سے رگڑ گئی پھر؟
اماں غربت میں آٹا گیلا بڑبڑاتے ہوئے پینٹ کو دیکھنے لگیں۔

لے یہ پھر گھٹنوں کے پاس سے پھٹی ہے ، اب یہ مجھ سے نہ سل پائے گی۔ اماں ہمت ہارتے ہوئے بولیں۔ یہ تو اب سلیم کا لڑکا بٹو ہی رفو کر کے دے گا۔ تم دے آؤ اس کی دکان پر شام تک کر دے گا۔

اماں اپنا فرمان جاری کرتے ہوئے پھر سے باورچی خانے کے امور نمٹانے لگیں۔

بٹو میاں پورے محلے کے منظور نظر تھے اور ہوتے کیوں نا۔ اس محلے میں رہنے والے سبھی سفید پوش لوگ تھے جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے کبھی کبھار ہی کچھ مہنگا کپڑا خریدتے تھے اور پھر سالہا سال اس کپڑے کو استعمال کرتے تھے۔ اب اگر ایسے میں کہیں کچھ ادھڑ جائے تو جناب بٹو میاں حاضر۔ ایسی باریک رفو گری کرتے تھے کہ مانو کپڑا کبھی پھٹا ہی نہیں۔

۔۔۔

سلیم صاحب گھر کے اندورنی آنگن میں بڑی بے تابی سے ٹہل رہے تھے۔ ماموں جان برآمدے میں پڑی سیٹھی پہ نیم دراز آنکھوں کے سامنے تازہ اخبار لیے بیٹھے تھے۔ کبھی نگاہ اٹھا کر سلیم کو ٹہلتے دیکھتے پھر آنکھیں اخبار پہ جم جاتی۔ جی میں ان کے بھی یہی وسوسہ تھا کہ اللہ جانے اب اس کے گھر کون مہمان آتا ہو گا۔ پاس ہی سلیم کی چار بیٹیاں آم کے پیڑ کے نیچے بیٹھی لٹو کھیل رہیں تھیں۔

ابھی دوپہر کا پہلا پہر ہی گزرا تھا کہ زنان خانے سے ممانی مبارک باد دیتی نمودار ہوئیں۔
اے سلیم! مبارک ہو لونڈا ہوا ہے۔

سلیم میاں تو خوشی کے مارے پھولے نہ سما رہے تھے ، ماموں جان نے لپک کر گلے لگایا۔ ممانی ماتھا چومتے ہوئے بچیوں کو خوش خبری سنانے آگے بڑھ گئیں۔

بٹو میاں کی آمد کیا ہوئی کہ گھر میں زندگی دوڑ گئی۔

بہنوں کے چہیتے ماں باپ کے لاڈلے بٹومیاں فطرتاً نفیس طبیعت کے تھے ، بہنوں کے ساتھ پلے بڑھے تو دل بھی نرم ہی رہا، کہیں کوئی چوٹ لگ جائے کسی بہن کو تو موٹے موٹے آنسوؤں سے روئیں بٹو میاں۔

بچپن گزرا تو وقت کے ساتھ ساتھ بٹومیاں بہادر ہوتے گئے ، اب بہنوں کا درد ہو یا ماں کی تکلیف بٹو میاں حاضر۔ کبھی سکھائی کر رہے ہیں تو کبھی دوا مل رہے ہیں، ان سے درد دیکھا ہی نہیں جاتا تھا۔

جوانی بھی خوب تاؤ سے آئی بٹو پہ۔ مسیں کیا بھیگیں کہ پورے خاندان کے منظور نظر ہو گئے۔ خاندان میں شادی بیاہ ہو یا کوئی اور تہوار ، بٹو میاں وہاں موجود ہوتے تھے۔ لپک لپک کر کھانا پروسنا ہو یا دردیاں بچھانا ہوں مبٹو میاں انکار نہیں کرتے تھے۔

سلیم صاحب نے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کو میڑک کروا کر دکان پر ساتھ بٹھا لیا تھا۔ کاریگری سیکھنے کے ساتھ ساتھ طبیعت میں چونکہ نزاکت کافی تھی تو کام میں باریکی آتی چلی گئی اور یوں بٹو میاں رفو گر ہو گئے۔

کاریگر کوئی کام خراب کر بیٹھے تو گاہک کا غصہ سکون سے جھیلتے اور اپنی جیب سے نقصان پورا کر دیتے۔ محلے کی دادیاں نانیاں اپنے بیٹوں کی شکایتیں بھی بٹو میاں سے کرتی تھیں، بٹومیاں نے ان کے بیٹوں کا کیا بگاڑ لینا تھا ، ہاں بڑھ کر کام پوچھ لیتے اور فٹا فٹ کر دوڑتے۔

ان کی سنگی سہیلیاں بھی بہت تھیں ، ایسے بھروسا کرتی تھیں گویا بٹومیاں ان کی سہیلی ہی ہو۔ فلاں نے اس فیشن کا سوٹ پہنا ہے ، مجھے بھی ایسا سلوانا ہے۔ لو بھئی کاریگر کو جیب سے بڑھتی پیسے دے کر سوٹ سل جاتا تھا۔

کہنے کو تو کپڑوں کی رفو گری کرتے تھے بٹو میاں لیکن اپنی نیک فطرت سے وہ اپنے سانجھے داروں کے بھی رفو گر تھے۔

بلوغت پار کر چکے تو سہرا سجانے چلیں بہنیں۔

شادی کا رش ، گھر مہمانوں سے کچھا کچھ بھرا ہوا۔ دلہن اپنی آرام گاہ میں بیٹھی تیز دھڑکنوں سے بیٹھی سرتاج کا انتظار کر رہی تھی۔

بٹو میاں بھی تمام رسموں و رواجوں سے فراغت پا کر حجلہ عروسی میں داخل ہوئے تو دلہن مسہری پہ سمٹ کے بیٹھ گئی۔

بٹو میاں مختصراً اپنا تعارف دے چکے تو دلہن کی مہین سی آواز نکلی۔
مجھ سے وعدہ کیجیے کہ آپ مجھے معاف کر دیں گے!
بٹو میاں کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولے:
ایسا کیا کر دیا آپ نے پہلے ہی دن کہ معافی مانگنا پڑ گئی۔

میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن ماں باپ کی عزت کی خاطر یہ زہر کا گھونٹ پینا پڑا۔
بٹو میاں یہ سن کر سناٹے میں آ گئے۔
ایسا مت کہیے۔ اب آپ میرے نکاح میں ہیں ، میری عزت ہیں۔

دلہن نے انہیں مسہری پہ سے اتر جانے کو کہا اور خود غسل خانے کی جانب بڑھی۔
بہت دیر جب غسل خانے سے باہر نہ آئی تو بٹومیاں کو فکر لاحق ہوئی۔ دروازہ بجایا آوازیں دیں لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ کواڑ کو اندر کی جانب دھکیل کر کنڈی توڑی اور اندر داخل ہوئے۔
اندر دیکھتے ہیں کہ دلہن اوندھے منہ گری پڑی ہے، پاس ہی زہر کی شیشی گری ہوئی ہے۔

اب تو آؤ دیکھا نہ تاؤ ، اپنی نئی نویلی دلہن کو لے کر ہسپتال دوڑے۔
اس بھاگ دوڑ میں کوئی بھی یہ سوال کرنے کی ہمت نہ کر سکا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔

بٹو میاں نے اپنی ماں کو تو سب بتا دیا لیکن وعدہ لیا کہ وہ کسی کو بھی کچھ نہیں بتائیں گی۔
پوری رات ہسپتال میں گزر گئی۔ ڈاکٹروں کی بروقت تدبیر سے دلہن کی جان بچی۔

صبح گھر جانے کی اجازت ملنے پہ بٹو میاں اپنی دلہن کو گھر لے آئے۔ مہمانوں کا تانتا بندھا رہا۔ میکے سے دور پرے کے سب ہی رشتہ دار دلہن کو دیکھنے آئے مگر بٹو میاں نے کسی پر بھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ ان پر پہلی رات کیا قیامت پہاڑ بن کر ٹوٹی ہے۔
شب و روز یونہی گزرتے رہے ، نندیں اکلوتی بھابی کے نخرے اٹھاتی نہ تھکتی تھیں۔

اماں تو ہر وقت صدقے واری ہوتی رہتی تھیں۔ اور بٹو میاں جو غیروں کی سہیلی تھے ، اپنی گھر والی کا دکھ کیونکر نہ بٹاتے، اسے اتنی عزت سے اپنے گھر میں رکھا ہر چیز کا خیال کیا اور کبھی پلٹ کر وہ باتیں دہرائی ہی نہیں جو ان کی دلہن نادانی میں کہہ گئی تھی اور اپنی ناسمجھی یا جذباتیت میں ایسا قدم اٹھا بیٹھی تھی۔

بٹو میاں نے اپنی فطرت کی بدولت اپنے گھر کو تماشا بننے نہیں دیا۔ ان کے پر خلوص رویے اور عزت سے ان کی شریک حیات اپنی حرکت سے شرمسار سی رہنے لگی۔

بٹو میاں اپنے کمرے میں مسہری پہ نیم دراز تھے۔ آنکھیں موندے جانے کس گہری سوچ میں گم۔ کہ اپنے پیروں پہ ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا۔ پاوں جھٹک کر اٹھ بیٹھے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی شریک حیات ان کے پیروں پہ پڑی رو رو کر معافی مانگ رہی ہے۔ کیونکر معاف نہ کرتے۔ بٹو میاں تو تھے ہی رفو گر۔
اپنے محبت پیار اور عزت سے اس طرح اپنی دلہن کے زخم سی دیے اور اسے جتایا بھی نہیں۔

وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ جسے ان کی دلہن محبت سمجھ رہی ہے، وہ اس کی کچی عمر کی نادانی ہے، اس کی عمر کا تقاضا ہے۔ اس عمر میں جذبات کا بہاؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ انسان کسی بھی طرف راغب ہو جاتا ہے جسے عموماً لڑکیاں محبت سمجھ بیٹھتی ہیں اور بہت سے ایسے غلط قدم بھی اٹھا لیتی ہیں کہ پھر واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ بٹو میاں کی عقل مندی اور خوش قسمتی نے ان کا گھر برباد ہونے سے بچا لیا۔

اس میں ان کی رفو گری بھی کام آ گئی، آخر کو اتنی سمجھ انہیں اپنی سہیلیوں سے ہی آئی تھی جن کے رفو گر تھے وہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).