حقیقی کامیاب کون؟


ان دنوں میرا معمول تھا کہ میں روزانہ کمپنی باغ جایا کرتا تھا۔ کمپنی باغ انگریزوں نے 2 صدی قبل برصغیر پر قبضہ کے بعد مقامی رئیس کی جائیداد پر بنایا تھا۔ صاحب کیا اعلیٰ باغ تھا۔ شام کو روز ہم (یعنی میں اور بے شمار دیگر) لمبی سیر کرتے اور دنیا کے مسائل اور کل علم کے ہر شے ہر بات ہوئی۔ باغ میں ڈاکٹر الطاف بھی روز آتے۔ ڈاکٹر صاحب کوئی 25 سال کے جوان تھے اور بلا کے ذہین۔

اب اتنے سالوں بعد جب یاد کا لنگر اٹھاتا ہوں اور تو یاد آتا ہے کہ وہ 2010 کا موسم بہار تھا۔ مارچ کے آخری دن چل رہے تھے۔ ایک دن ”بوڑ“ (برگد) کے درخت کے نیچے چشتی، ڈاکٹر اور میں بیٹھے تھے کہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ کامیابی کی تعریف کیا ہے؟ میں نے کہا کہ اچھا وقت گزرنا۔ چشتی بولا:۔ کن اداروں سے تعلیمی اور پیشہ ورانہ و سماجی طور پر وابستہ رہے۔ ڈاکٹر نے چوٹ کی، کہا ”چشتی صاحب! صاف کہو نہ سول سر ہیں۔

ہماری باتیں سن اکثر اور لوگ بھی ہمارے پاس بیٹھنا شروع کر دیتے تھے۔ اس دن بھی علی اور وحید آ بیٹھے تھے۔ ہم نے ان کی رائے لی کہ وہ کچھ اس پر تبصرہ کریں۔ علی نے ہمیشہ کی طرح فلسفیانہ نکتہ اٹھایا کہ ’کہتی ہے خلقت تجھے غائبانہ کیا‘ وحید بولا: میرے خیال میں ناموافق حالات میں کتنا باوقار رہیے۔

غرض ہم سب کسی نتیجے پر نہ پہنچے اور بات کل پر چھوڑ کر گھر چل پڑے۔ میں مال روڈ سے گھر تک اسی سوال کے اثر میں رہا۔ گھر کے باہر بے خیالی میں اپنے گھر کی جگہ ہمسائے کے گھر کی بیل بجا دی۔ ساتھ والے حکیم ناظم الدین صاحب باہر نکلے تو ان کو دیکھ کر یاد آیا کہ یہ تو غلط دروازے پر آ گیا ہوں۔

ان سے معذرت کر کے جانے لگا تو وہ بولے۔ اماں! خیریت تو ہے سب؟ آج پھر کچھ دماغ میں پھنس گیا کیا؟ ہمیں بتاؤ ہم کچھ روشنی ڈالیں۔ انہیں ساری کہانی سنائی تو وہ سوچ میں گم ہو گئے۔ سوچ کر بولے! میاں شیخو! اب کیا بتاؤں آپ کو۔ لکھنو میں کامیابی یا ناکامی کا معیار شوقینی تھی اور دہلی میں شائستگی۔ اب نہ لکھنو رہا اور دہلی۔ پتہ نہیں ہم کہیے کو رہ گئے اور ساتھ ہی آنکھوں میں نمی آ گئی اور وہ سر جھکا کر اپنے اور میں اپنے گھر آ گیا۔

گھر میں خیالوں میں گم اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا کہ ابا نے کہا۔ شیخو میاں! وہ کیا کہا کسی نے بے خیالی جاتے جاتے جائے گی اور خیال ان کے آتے آتے آئے گا۔ میاں کن خیالوں میں گم ہو۔ سوال ان کے سامنے رکھا تو فوراً بولے :شیخو میاں! کامیابی کا مطلب شعور، کامیابی کا مطلب اپنے آپ کو کتنا ریفائن کیا آپ کا۔ میں نے سنا اور کمرے میں جا کر سو گیا۔

اگلا سارا دن گھر میں اسی سوچ میں گم رہا۔ شام کو باغ میں اس پر تفصیل سے بات کی۔ ہم سب کے درمیان یہ طے ہوا کہ کامیابی کے اب تک جمع ہونے والے تمام جوابات اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔ لیکن ان کی ترتیب بنانی پڑے گی کہ یہ سب کتنا کتنا اہم ہے۔ اس کے بعد ہم نے اس کی فہرست بنائی اور تمام نے اتفاق کیا کہ یہ جواب حتمی ہیں۔

فہرست کچھ اس طرح بنائی:
( 01 ) وقت کیسے اور کہاں گزارا۔
( 02 ) کن اداروں سے سماجی، پیسہ ورانہ، تعلیمی طور پر وابستہ رہا۔
( 03 ) کہتی ہے خلقت تجھے غائبانہ کیا
( 04 ) شوقینی
( 05 ) شائستگی و تہذیب۔
( 06 ) شعور۔
( 07 ) اپنے آپ کو کتنا ریفائن کیا۔

حتمی جواب ملتے ہی جیسے میرے سر پر سے ایک بوجھ اتر گیا، میں نے اپنے آپ کو ہلکا ہلکا محسوس کیا اور خوشی میں، میں نے چائے والے ”کاکا“ سے کہا کہ چائے لاو اور سب کو پیش کرو۔ اس دوران علی نے فلسفہ جھاڑا کہ یار اس جواب کی بنیاد مادہ پرستی پر ہے۔ فرض کریں کہ کسی کو اگر کوشش کے باوجود کامیابی نہیں ملتی تو پھر؟ اس دوران ”کاکا“ چائے لے آیا۔ کاکا بھی اکثر ہماری باتوں پر تبصرہ کر دیا کرتا تھا۔ علی کا سوال ایسا تھا کہ میں نے لاجواب ہو کر سوچنے لگا۔

عین اس لمحے جب میری لاجوابی بے بسی میں بدلنے لگی، تو ڈاکٹر اس نے غریب اور بدحال کاکا سے پوچھا کہ کاکا کیا آپ اپنے آپ کو کامیاب سمجھتے ہیں یا ناکام؟ کاکا نے چائے رکھی اور آرام سے اپنے پرانے ٹوٹے ہوئے جوتے کو جو کہ اک کانٹے سے الجھ گیا تھا، سیدھا کیا اور کہا جی ڈاکٹر صاحب! میں بے حد کامیاب ہوں، اور ساتھ دونوں ہاتھوں کو جوڑا۔ مجھ سمیت سب نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا کہ یہ کاکا کیونکر کامیاب ہے۔

کاکا بولا ”دیکھو صاحب! میں نے آج تک بھیک نہیں مانگی۔ آج 20 سال ہو گئے، روز صبح کماتا ہوں اور گھر 3 کلو تازہ آٹا لے کر جاتا ہوں۔ اپنے بچوں کی طرف اشارہ کیا اور بولا“ ان سالوں کو حلال کھلایا ہے۔ صاحب میں نہیں کامیاب تو پھر کون ہے؟ یہ سامنے میر کے محل کی طرف اشارہ کیا اور کہا ”یہ میر کامیاب ہے یا باغ کا 18 سکیل کا مینجر جو سارا دن حرام کھاتا۔ گالم گلوچ بکتا اور دوسروں کا برا سوچتا، نہ صاحب میں تو ان کو کامیاب نہ مانوں۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور میری آنے والے کئی دن کی نیند یہ سوچتے خراب ہوتی رہی کہ کون ہے کامیاب؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).