بائیڈن نے صدارتی ذمہ داریاں سنبھال لیں، پہلے روز 17 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط


صدر جو بائیڈن صدارتی دفتر میں ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کر رہے ہیں۔
ویب ڈیسک — امریکہ کے 46 ویں صدر جو بائیڈن نے حلف برداری کے بعد صدارتی دفتر میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد انہوں نے 17 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔کیپٹل کمپلیکس کے سامنے بدھ کو منعقدہ حلف برداری کی تقریب سے فراغت کے بعد صدر بائیڈن اوول آفس (صدارتی دفتر) پہنچے۔ جہاں انہوں نے اپنی نشست سنبھالتے ہوئے میڈیا نمائندوں کے سامنے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے۔

انہوں نے کہا کہ نئی ہدایات جاری کرنے کے لیے وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا اور ابھی یہ ابتدا ہے۔

اٹھتر سالہ صدر بائیڈن نے جن ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں اُن میں وفاقی ملازمین کے دفتری اوقات میں ماسک لازم کرنے کے علاوہ کرونا وائرس کے بحران پر قابو پانے سے متعلق ہدایات شامل ہیں۔

جو بائیڈن نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق 2015 کے پیرس معاہدے میں واپسی اور عالمی ادارۂ صحت میں دوبارہ شمولیت کے ایگزیکٹو آرڈر پر بھی دستخط کیے ہیں۔

صدر بائیڈن نے اوول آفس میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد 17 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں۔
صدر بائیڈن نے اوول آفس میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد 17 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں۔

یاد رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو پیرس معاہدے سے نکالنے کے علاوہ عالمی ادارۂ صحت کو بھی خیرباد کہہ دیا تھا۔

دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے صدر بائیڈن کے مذکورہ اقدامات کا خیر مقدم کیا ہے۔

انتونیو گوتریس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور کرونا بحران کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے وہ جو بائیڈن اور دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

امریکہ کی پیرس معاہدے اور ڈبلیو ایچ او میں واپسی

گزشتہ برس اپریل میں کرونا وائرس کے دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے کے بعد صدر ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ او کو امریکی فنڈنگ روک دی تھی۔ امریکہ دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں اس تنظیم کو سب سے زیادہ فنڈنگ دینے والا ملک تھا۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عالمی ادارۂ صحت چین کے زیرِ اثر ہے اور اس نے کرونا وائرس سے متعلق امریکہ کو درست حقائق سے آگاہ نہیں کیا۔ بعدازاں صدر ٹرمپ نے امریکہ کو جولائی 2020 میں عالمی تنظیم سے الگ کر دیا تھا۔

صدر بائیڈن نے پیرس معاہدے میں بھی دوبارہ شمولیت اختیار کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں۔ اس سے قبل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنا امریکہ کے مفاد میں ہے۔

بدھ کو اوول آفس میں صدارتی فرمان پر دستخط کرتے ہوئے اٹھتر سالہ صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ “آج جن ایگزیکٹو آرڈرز پر وہ دستخط کرنے جا رہے ہیں ان کی مدد سے کرونا بحران سے نمٹنے کے اقدامات کو تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔”

انہوں نے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ اس انداز میں کریں گے جو پہلے کبھی نہیں کیا گیا اور نسلی مساوات کو بھی فروغ دیں گے۔

صدر بائیڈن نے ملک کے 46 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد صدارتی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔
صدر بائیڈن نے ملک کے 46 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد صدارتی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔

بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ “ہم ان طبقات کا خیال رکھیں گے جو محرومیوں کا شکار ہیں۔”

جو بائیڈن کی پریس سیکرٹری جین پساکی نے اپنی پہلی نیوز بریفنگ کے دوران اس بات پر زور دیا ہے کہ نئی انتظامیہ آزادیٔ صحافت کا احترام کرتی ہے اور وہ اس کے لیے پرعزم ہے۔

عالمی سطح پر امریکی ساکھ کی بحالی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر پساکی کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کی ترجیحات میں پہلے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا اور دنیا بھر میں اتحاد قائم کرنا ہے۔

اس سے قبل صدر بائیڈن نے حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ صرف اُن کے صدر نہیں جنہوں نے انہیں ووٹ دیا بلکہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ تمام امریکیوں کے صدر ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جان پساکی کی پہلی نیوز بریفنگ
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جان پساکی کی پہلی نیوز بریفنگ

بائیڈن کا کہنا تھا کہ قومی یکجہتی امریکہ کے لیے مستقبل کی راہ ہے اور ​ہم لازمی اس خانہ جنگی کا خاتمہ کریں گے جس نے امریکیوں کو ایک دوسرے کے خلاف کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کو مخالف کے طور پر نہیں بلکہ پڑوسی کی حیثیت سے دیکھ سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے سلوک اور اخلاق کے ساتھ پیش آ سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ کے 46 ویں صدر جو بائیڈن امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہیں جو 36 برس تک سینیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اور وہ آٹھ مرتبہ نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa