تین ماہ بعد قومی اسمبلی کا اجلاس طلب، ناراض اپوزیشن کے بغیر ایوان چل پائے گا؟


قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینیٹ کا اجلاس بھی 22 جنوری کو طلب کر لیا گیا ہے۔
اسلام آباد — پاکستان کی حکومت نے طویل التوا کے بعد پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے بتایا ہے کہ وزیرِ اعظم سے مشاورت کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ کے الگ الگ اجلاس جمعے کو طلب کیے گئے ہیں۔

اس سے قبل قومی اسمبلی کا آخری اجلاس گزشتہ برس اکتوبر میں منعقد ہوا تھا۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس ایسے وقت میں بلائے گئے ہیں جب حزبِ اختلاف کی قیادت اور حکومتی رہنماؤں کے درمیان تناؤ پایا جاتا ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے حال ہی میں حزبِ اختلاف کو پارلیمنٹ کے اندر سیاسی معاملات پر بات چیت کی پیش کش کی گئی تھی۔

حزبِ اختلاف نے حکومت کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر کسی قسم کا تعاون نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

حزبِ اختلاف کے اس اعلان کے بعد پارلیمانی نظام کو چلانے کے سب سے اہم ادارہ قومی اسمبلی معطل ہو کر رہ گیا ہے اور گزشتہ تین ماہ سے اس کا کوئی اجلاس تک نہیں ہو سکا۔

حزبِ اختلاف نے نومبر میں اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے گلگت بلتستان کے حوالے سے بلائی گئی قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کا بھی بائیکاٹ کیا جس میں عسکری قیادت نے بریفنگ دینا تھی۔

دوسری جانب حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت مخالف تحریک جاری رکھے ہوئے ہے۔ حال ہی میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن ہیڈ آفس کے سامنے احتجاج بھی کیا۔

حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اقتدار میں رہنے کا حق نہیں رکھتی لہذا اس کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کسی قسم کا تعاون نہیں کیا جائے گا۔

حزبِ اختلاف حکومت کا خاتمے اور نئے انتخابات کروانے پر بھی زور دے رہی ہے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے قبل وزیرِاعظم عمران خان نے حزبِ اختلاف کو دعوت دی کہ وہ سڑکوں پر احتجاج کے بجائے پارلیمنٹ میں آ کر سیاسی معاملات پر بات کریں۔

مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان بھی کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کا بیانیہ سڑکوں پر مسترد ہو گیا ہے لہذٰا انہیں اب ایوان میں واپس آجانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی سڑکوں پر احتجاجی سیاست قوم کے سامنے ناکام ہو گئی ہے اور حزبِ اختلاف کو انتشار کے بجائے عملی اور عوامی خدمت کے لیے ایوان میں کردار ادا کرنا چاہیے۔

حزبِ اختلاف نے حکومت کی مذاکرات کی پیش کش کو ٹھکراتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ حکومت مخالف تحریک جاری رہے گی۔

حزبِ اختلاف نے قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں شرکت کی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں نے حال ہی میں الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کیا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں نے حال ہی میں الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کیا تھا۔

پاکستان میں جمہوری اقدار اور قانون سازی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘پلڈاٹ’ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا اور حزبِ اختلاف سے گفتگو پر آمادگی خوش آئند ہے مگر اس کے لیے سازگار ماحول بھی بنانا ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومتی ترجمان حزبِ اختلاف پر تنقید کے لیے غیر پارلیمانی انداز اپناتے ہوئے ہتک آمیز گفتگو کرتے ہیں جس سے بات چیت کا ماحول متاثر ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ ایک دوسرے پر گالم گلوچ کر رہے ہوں گے تو پھر گفتگو کیسے ہوسکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ حزبِ اختلاف بھی ایسا ہی رویہ اپنائے ہوئے ہے تاہم حکومت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

‘پلڈاٹ’ کے سربراہ کہتے ہیں کہ حکومتی رہنماؤں کے رویے کے باعث پارلیمنٹ کے اندر حکومت و اپوزیشن کا ورکنگ ریلیشن شپ برقرار نہیں رہ سکا جس سے پارلیمانی امور اور قانون سازی متاثر ہوئی۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تناؤ کے باوجود پارلیمنٹ کے اندر ورکنگ ریلیشن شپ رہا ہے اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف) سے متعلق زیادہ تر قانون سازی اتفاق رائے سے منظور ہوئی۔

وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان (فائل فوٹو)
وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان (فائل فوٹو)

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ حکومت کو اپنا یہ مزاج بدلنا ہوگا اور پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے حزبِ اختلاف سے ورکنگ ریلیشن شپ بحال کرنا ہوگا۔

یاد رہے کہ گزشتہ تین ماہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے متعدد صدارتی آرڈیننس جاری کیے گئے تھے۔

خیال رہے کہ پارلیمانی قواعد کے مطابق پارلیمانی سال کے دوران کم ازکم 130 دن اجلاس بلایا جانا لازم ہے۔

اگست میں شروع ہونے والے رواں پارلیمانی سال کے پانچ ماہ کے دوران اب تک صرف 23 دن قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا ہے جبکہ بقیہ سات ماہ میں 107 دن مزید اجلاس بلانا ضروری ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa