بھارت کو امریکہ کی نئی انتظامیہ سے کیسے تعلقات کی امید ہے؟
بھارت کے وزیرِ اعظم نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بھارت اور امریکہ کی شراکت داری مشترکہ اقدار پر مبنی ہے۔ دونوں ممالک کا کثیر جہتی دو طرفہ ایجنڈا ہے۔
نریندر مودی نے مزید کہا کہ ہم مشترکہ چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں جو بائیڈن کے ساتھ مل کر کام کرنے اور بھارت و امریکہ کی شراکت داری کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے پُر عزم ہوں۔
My warmest congratulations to @JoeBiden on his assumption of office as President of the United States of America. I look forward to working with him to strengthen India-US strategic partnership.
— Narendra Modi (@narendramodi) January 20, 2021
وزیر اعظم نے ایک ٹوئٹ میں کملا ہیرس کے نائب صدر کے منصب کا حلف اٹھانے کو ایک تاریخی واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اور امریکہ کی شراکت داری پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔
Congratulations to @KamalaHarris on being sworn-in as @VP. It is a historic occasion. Looking forward to interacting with her to make India-USA relations more robust. The India-USA partnership is beneficial for our planet.
— Narendra Modi (@narendramodi) January 20, 2021
کانگریس کے سابق صدر اور سینئر رہنما راہول گاندھی نے بھی ٹوئٹ کرکے جو بائیڈن اور کملا ہیرس کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں جمہوریت کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔
Congratulating the USA on a new chapter of their democracy.
Best wishes to President Biden and Vice-President Harris.#InaugurationDay
— Rahul Gandhi (@RahulGandhi) January 20, 2021
کانگریس کے سینئر رہنما پی چدم برم نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے سیاسی رہنما 78 سالہ جو بائیڈن کو حلف اٹھاتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے جنہوں نے ایک تقسیم شدہ ملک کو متحد کرنے اور اس کی روح کو بحال کرنے کا عہد کیا ہے۔
I hope all our political leaders are watching the swearing in as President of the United States of 78-year old Joe Biden who has pledged to unite a divided nation and restore its soul.
— P. Chidambaram (@PChidambaram_IN) January 20, 2021
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے سیاست داں کملا ہیرس سے تکثیریت کا سبق سیکھنا چاہیے ۔
I hope all our political leaders are watching the swearing in of Kamala Harris as VP of the United States and absorbing lessons on diversity and pluralism.
I also hope that INDIA will forever celebrate diversity and pluralism in this ancient land.
— P. Chidambaram (@PChidambaram_IN) January 20, 2021
امریکہ کا موجودہ انتخاب بھارت کے لیے اس لیے بھی اہمیت کے حامل رہا ہے کہ نائب صدر کے منصب پر ایک بھارتی نژاد کملا ہیرس منتخب ہوئی ہیں۔
ان کا آبائی وطن تمل ناڈو کے ناگاپٹنم ضلع کا تھولا سینتھو پورم گاؤں ہے جہاں سے ان کی والدہ جمائکا ہجرت کر گئی تھیں۔
کملا ہیرس کے آبائی گاؤں میں جشن
کملا ہیرس کے نائب صدر کا حلف لینے کے موقع پر ان کے آبائی گاؤں میں جشن کا ماحول تھا۔ سڑکوں کو سجایا گیا اور مندروں میں ان کے لیے پوجا کی گئی۔ لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کرکے خوشی کا اطہار اور روایتی کھانا ‘موروکو’ بھی تیار کیا گیا۔
مقامی باشندوں نے کہا کہ انہیں فخر ہے کہ ان کے گاؤں سے تعلق رکھنے والی کملا آج امریکہ کی نائب صدر بن گئی ہیں۔
انہوں نے اس پر ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس معمولی سے گاؤں کو دنیا کے نقشے پر نمایاں کیا۔
‘امریکہ اور بھارت کے اختلافات باہمی تعلقات میں حائل نہیں ہوں گے’
بین الاقوامی امور کے ایک سینئر تجزیہ کار قمر آغا کا کہنا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات صدر بل کلنٹن کے زمانے سے ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد جارج بش کے دور میں دونوں ممالک میں جوہری تعاون کا معاہدہ ہوا۔ اس کے بعد براک اوباما کے دور میں تعلقات آگے بڑھے۔ وہ دو بار بھارت آئے۔ اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ بھارت آئے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دو ممالک کے درمیان کچھ اختلافی امور بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا باہمی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان بھی ویزہ یا بھارت کی جانب سے روس سے ایس۔400 میزائل نظام خریدنے کے معاملے پر کچھ اختلافات ہیں۔ لیکن وہ باہمی تعلقات کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے۔
قمر آغا نے امید کا اظہار کیا کہ بھارت امریکہ کے ساتھ جو تجارتی معاہدہ کرنا چاہتا ہے اور جو ٹرمپ انتظامیہ میں نہیں ہوا، وہ اس بار ہو جائے گا۔
وہ جو بائیڈن کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے خود کہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 150 ارب ڈالر ہے۔ وہ اس کو 500 ارب ڈالر تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
‘بائیڈن کی ٹیم میں 20 بھارتی شامل ہیں’
انہوں نے نئے نامزد امریکی وزیرِ دفاع جے لائیڈ آسٹن کے بیان کے حوالے سے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات اور مضبوط ہوں گے۔
قمر آغا نے کہا کہ بھارت کے لیے مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ایک تو وہاں کی نائب صدر کملا ہیرس بھارتی نژاد ہیں اور دوسرا یہ کہ بائیڈن کی ٹیم میں 20 بھارتی شامل ہیں جو اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اس بات پر یہاں کے عوام میں بہت خوشی ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سب پہلے امریکی ہیں اور بعد میں بھارتی ہیں۔ لیکن خود جو بائیڈن بھارت کے ساتھ مضبوط رشتوں کے حق میں ہیں۔ اس لیے ان سے بھارت کو بہت امیدیں ہیں۔
امریکہ کے نامزد وزیرِ خارجہ اینتونی بلنکن نے کہا ہے کہ بھارت کو امریکہ میں دونوں سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے اور دونوں کے دور میں باہمی رشتے مستحکم ہوئے ہیں۔
انہوں نے اپنی نامزدگی کے موقع پر کہا تھا کہ اوباما انتظامیہ میں بھارت کے ساتھ تعلقات خاص طور پر دفاع اور اطلاعات کی شراکت کے سلسلے میں گہرے ہوئے اور ٹرمپ انتظامیہ نے بھی انہیں آگے بڑھایا۔
حلف برداری کو بھارت کے ذرائع ابلاغ میں اہمیت دی گئی
جو بائیڈن اور کملا ہیرس کی حلف برداری کو بھارتی ذرائع ابلاغ میں کافی اہمیت دی گئی۔ تمام نیوز چینلوں نے اس تقریب کو براہِ راست دکھایا۔ جب کہ ماہرین اور تجزیہ کاروں کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیا کہ جو بائیڈن کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات کیسے رہیں گے اور باہمی تعلقات کو آگے بڑھانے میں کیا چیلنجز درپیش ہوں گی۔
نئی دہلی سے شائع ہونے والے تقریباً تمام اخباروں نے اداریے اور خصوصی مضامین شائع کیے ہیں اور باہمی رشتوں کا جائزہ لیا ہے۔
روزنامہ ‘دی ہندو’ نے نئے وزیر خارجہ اینتونی بلنکن کے بیان کی روشنی میں لکھا ہے کہ یہ واضح ہے کہ بھارت امریکہ اسٹریٹجک تعلقات مضبوط رہیں گے۔
تاہم اخبار نے بھارت کی جانب سے روس سے ایس۔400 میزائل نظام خریدنے کے بارے میں درپیش چیلنجز کا ذکر بھی کیا۔ جس کے بارے میں کیا گیا ہے کہ اس معاملے پر دونوں ممالک میں تناؤ ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ نئی دہلی کو امید ہے کہ بھارت کو رواں برس روس سے مذکورہ میزائل نظام حاصل ہو جائے گا۔
روس سے میزائل نظام کی خریداری کا معاملہ
اینتونی بلنکن نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا تھا کہ امریکہ کا کوئی اسٹریٹجک شراکت دار، واشنگٹن کے سب سے بڑے حریف روس کے ساتھ کھڑا ہے، تو یہ بات تسلیم نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اس نظام کی خریداری کی وجہ سے ترکی پر مزید کیا پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں امریکہ کی پابندیوں کے امکانات کے باوجود بھارت ایس۔400 کی ٹریننگ لینے کے لیے ایک ٹیم ماسکو روانہ کر رہا ہے۔ اخبار ‘دی ہندو’ نے اس بیان کی روشنی میں کچھ خدشات کا اظہار کیا ہے۔
تمل ناڈو کے گاؤں میں جشن
کثیر الاشاعت اخبار ‘ٹائمز آف انڈیا’ نے حلف برداری کی تقریب کی بڑے پیمانے پر کوریج کی ہے۔ اس نے کملا ہیرس کے آبائی گاؤں کی ایک تصویر شائع کی ہے جس میں کچھ لوگ کملا ہیرس کا ایک بڑا سا پوسٹر اٹھائے ہوئے ہیں۔
#WATCH I Tamil Nadu: Locals in Thulasendrapuram, the native village of US Vice President Kamala Harris' mother celebrated as she took oath of office. pic.twitter.com/xgL7NESyC8
— ANI (@ANI) January 20, 2021
کیا جو بائیڈن کی تقریر ایک بھارتی نژاد نے لکھی؟
اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جو بائیڈن کی تقریر لکھنے والے ایک بھارتی نژاد ہیں۔ ان کا تعلق بھارتی ریاست تلنگانہ سے ہے اور ان کا نام سی ونے ریڈی ہے۔ وہ بائیڈن کی تقریر لکھنے والی ٹیم کے ڈائریکٹر ہیں۔
اخبار کے مطابق ونے ریڈی پوری انتخابی مہم میں جو بائیڈن ٹیم کے ساتھ تھے۔ وہ 2013 سے 2017 تک بائیڈن کی نائب صدارت کی مدت میں بھی ان کے ساتھ رہے ہیں۔
اخبار کے مطابق تلنگانہ میں واقع ان کے آبائی گاؤں کے لوگوں کو اس بات پر فخر ہے کہ وہاں سے تعلق رکھنے والا شخص امریکی صدر کی تقریر کے لکھاری ہیں۔
ایک اور کثیر الاشاعت اخبار ‘ہندوستان ٹائمز’ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ صدر کے منصب پر جو بائیڈن کا فائز ہونا ان تمام لوگوں کی فتح ہے۔ جو آزاد جمہوریت، اقدار پر مبنی مہذب سیاست، ذمہ دار قیادت اور حکومتی ڈھانچے میں اقلیتوں سمیت تمام طبقات کی شمولیت پر یقین رکھتے ہیں۔
اداریے کے مطابق بائیڈن کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ ان تمام اقدار کی مخالف سمت میں کھڑے تھے۔ وہ آمریت پسند تھے۔
اخبار کے مطابق وہ اقتدار میں رہنے کے لیے تمام آئینی اداروں کو نقصان پہنچانے کے خواہاں تھے۔
اخبار نے اس امید کا اظہار کیا کہ بائیڈن بھارت کے ساتھ دفاع، معیشت، ٹیکنالوجی اور ماحولیات کے شعبوں میں مل کر کام کریں گے اور توقع ہے کہ وہ اپنے دورِ اقتدار کے نصف آخر میں بھارت کا دورہ کریں گے۔
اخبار ‘انڈین ایکسپریس’ نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بھارت کے موجودہ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور سیکریٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا امریکہ میں بھارت کے سفیر رہ چکے ہیں۔
موجودہ سفیر ترنجیت سنگھ سندھو 1997 سے 2000 تک امریکہ میں بھارتی سفارت خانے میں فرسٹ سیکریٹری اور جولائی 2013 سے جنوری 2017 تک ڈپٹی چیف آف مشن رہے ہیں۔ لہٰذا امریکہ سے تعلقات نبھانے کا انہیں خاصا تجربہ ہے۔
اخبار کے مطابق نئی دہلی میں موجود حکومتی اہلکاروں کی نظریں باہمی تعلقات کے سلسلے میں پانچ اہم شعبوں پر ہیں۔ جن میں اسٹریٹجک تعلقات، ماحولیات، توانائی اور ماحولیاتی تبدیلی، ڈیجیٹل اینڈ آئی ٹی ایجوکیشن اور صحت عامہ شامل ہیں۔
نئی دہلی کی نظر جون میں برطانیہ میں ہونے والے گروپ سات کے اجلاس پر بھی ہے جس میں شرکت کی دعوت برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن بھارت کے وزیرِ اعظم کو دے چکے ہیں۔ نئی دہلی کا خیال ہے کہ اس موقع پر امریکہ اور بھارت کے سربراہوں کی ملاقات ہو سکتی ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ ویزہ کے سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے سخت ضابطوں کی وجہ سے دو لاکھ بھارتی طالب علموں کو امریکہ میں سخت حالات کا سامنا ہے۔ بھارت کی کوشش ہو گی کہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند طلبہ کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔
ایک اور انگریزی روزنامہ ‘اکنامک ٹائمز’ کا اداریے میں کہنا ہے کہ بائیڈن کے دور میں بھارت امریکہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔
اخبار نے بائیڈن کی جانب سے سات مسلم ممالک پر سفری پابندی کے خاتمے، کرونا وائرس کے سلسلے میں ویکسی نیشن میں تیزی لانے اور ایک کروڑ 10 لاکھ غیر دستاویزی تارکین وطن کی شہریت کے سلسلے میں فیصلوں کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔
بھارت کے بڑے اردو روزنامے ‘انقلاب’ نے اداریے میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متعدد پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔
اخبار کے مطابق انہوں نے امریکہ آنے والے مہاجرین کی زندگی اجیرن کرکے مہاجرین اور مقامی باشندوں کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا کی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ سچ یہ ہے کہ امریکہ کو مہاجرین کا ملک کہا جاتا ہے۔ وہاں مختلف ممالک کے باشندوں کے بسنے کی وجہ سے ایک مشترکہ تہذیب وجود میں آئی جس نے امریکی معاشرے کو سنوارا۔
اخبار نے سات مسلم مالک پر سفری پابندیاں عاید کرنے پر بھی سخت تنقید کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ سابقہ انتظامیہ میں جو مبینہ غلط فیصلے ہوئے تھے ان کو اب درست کیا جائے گا۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).