عراق: بغداد میں تین سال بعد خود کش دھماکے، کم از کم 32 افراد ہلاک


بغداد
عراق کے اس بازار کو پہلے بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے
عراق کے دارالحکومت بغداد کے ایک مصروف تجارتی علاقے میں جمعرات کے روز دو خود کش حملوں میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔

حکام کے مطابق دو خود کش حملہ آوروں نے بغداد میں کپڑوں کی مارکیٹ طاران میں اس وقت خود کو دھماکے سے اڑا لیا جب سیکیورٹی اہلکار ان کا پیچھا کر رہے تھے۔

شہر میں آخری خود کش حملہ جنوری سنہ 2018 میں اسی بازار میں ہوا تھا جس میں 35 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

دہشت گردی کی اس واردات کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے لیکن عام خیال یہی ہے کہ اس کے پیچھے نام نہاد دولت اسلامیہ کا ہاتھ ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

عراق میں امریکی افواج کے خلاف ملین مارچ

عراق کے علاقے عین الاسد میں حملے کی تصویری جھلکیاں

عراق، شام میں کتنے غیرملکی جنگجو باقی رہ گئے؟

عراق کی دو یزیدی خواتین کے لیے سخاروف ایوارڈ

عراق کی حکومت نے سنہ 2017 میں دولت اسلامیہ نامی دہشت گرد تنظیم کے خلاف جنگ میں فتح کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس تنظیم کے بچے کچے عناصر زیادہ تر ملک کے دیہی علاقوں میں محدود پیمانے پر کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اکثر ان کا نشانہ سیکیورٹی اہلکار ہی ہوتے ہیں۔

عراقی فوج کے ترجمان یحییٰ رسول نے بتایا کہ جمعرات کو جن دو خود کش حملہ آوروں نے دھماکے کیے سیکیورٹی اہلکار ان کا پیچھا شہر کے باب شرقی نامی علاقے سے کر رہے تھے۔

ان حملہ آوروں نے کھلے آسمان تلے استعمال شدہ کپڑوں کے بازار طاران سکوائر کو نشانہ بنایا جو تقریبا ایک سال بعد کورونا وائرس کی وجہ دسے عائد کردہ پابندیوں کے بعد چند دنوں قبل ہی کھولا گیا ہے۔

وزارتِ داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پہلے خود کش حملہ آور نے بازار میں داخل ہو کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس کے پیٹ میں شدید تکلیف ہے۔ جب لوگ اس کے اردگرد جمع ہونے لگے تو اس نے اپنی کمر کے گرد لپٹی ہوئی بارود کی بیلٹ کو اڑا دیا۔

بازار میں موجود ایک دکاندار نے برطانوی خبررساں ادارے روائٹرز کو بتایا کہ ‘ایک خود کش حملہ آور زمین پر گر پڑا اور اس نے پیٹ پکڑ کر کراہنا شروع کر دیا اور اِس کے بعد اُس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ‘ڈیٹونیٹر’ یا بم کا بٹن دبا دیا، جس کے بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا۔’ قریب میں موجود لوگوں کے چیتھڑے اڑ گئے۔’

عراقی وزارتِ داخلہ کے مطابق دوسرا دھماکہ اس وقت ہوا جب پہلے دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کی مدد کے لیے لوگ آ گے بڑھے۔

سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دوسرا دھماکہ ایک گلی میں موجود لوگوں کے درمیان ہوا۔ دھماکے کی دوسری ویڈیوز میں دھماکے کے بعد گلی میں بکھری لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

دھماکے کے فوراً بعد ایمبولینسیں زخمی کو ہسپتالوں میں پہنچانے کے لیے وہاں پہنچنا شروع ہو گئیں۔

جمعرات کو ہونے والی دہشت گردی کی واردات کی ذمہ دارای کسی گروپ کی طرف سے قبول نہیں کی گئی ہے تاہم شہری دفاع کی تنظیم کے سربراہ میجر جنرل خادم سلمان نے کہا ہے کہ ان دھماکوں میں نامہ نہاد تنظیم دولت اسلامیہ کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

عراق کے دارالحکومت بغداد میں دہشت گردی کی وارداتیں دولت اسلامیہ نامی شدت پسند تنظیم کو ملک کے شمال مغربی علاقوں میں شکست کے بعد تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئیں تھیں۔ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو شکست دینے میں عراقی سیکیورٹی فورسز کو امریکہ کی فوجی قیادت میں عراق میں موجود کثیرالمکی افواج اور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کی مدد بھی حاصل تھی۔

شدت پسند تنظم دولت اسلامیہ ایک وقت مشرقی عراق سے لے کر مغربی شام تک کے 88 ہزار مربع کلو میٹر کے وسیع علاقے پر قابض تھی اور یہاں بسنے والے اسی لاکھ افراد کو انتہائی جبر کا سامنا تھا۔

گزشتہ سال اگست میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے دس ہزار کے قریبی کارندے سرگرم عمل ہیں۔

ان جنگجوؤں نے چھوٹے چھوٹے گروہ بنا لیے ہیں اور وہ شام اور عراق کے درمیان آسانی سے آتے جاتے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے شمال مشرقی عراق کے پہاڑی سلسلے میں محفوظ پناہ گاہیں بنا لی ہیں۔

امریکہ کی اتحادی افواج نے اکتوبر میں کہا تھا کہ دولت اسلامیہ کے شدت پسند اب گھریلو ساختہ بارودی سرنگیں اور چھوٹے ہتھیاروں کا استعمال زیادہ کر رہے ہیں۔ یہ گروہ ملک کے شمالی صوبے دالیہ، صلاح الدین، کرکک اور نینوا اور ملک کے صوبے انبار میں موجود ہیں۔

بغداد میں جمعرات کو ہونے والے دھماکے حکومت کی طرف سے ملک میں قبل از وقت ہونے والے انتخابات کو جون کے بجائےاکتوبر میں کرانے کے اعلان کے ایک دن بعد ہوئے ہیں۔ اس تاخیر کا مقصد الیکشن حکام کو ووٹروں کے اندراج اور نئی جماعتوں کے اندارج کے لیے مزید وقت دینا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp