براڈ شیٹ: جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ


پاکستان کی وفاقی حکومت نے براڈ شیٹ کے معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی انکوائری کمیٹی کی سربراہی عدالت عظمیٰ کے سابق جج جسٹس عظمت سعید شیخ کو سونپ دی ہے۔

خیال رہے کہ براڈ شیٹ نامی ایک کمپنی اور اس کے سربراہ کاوے موسوی نے پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے نیب کے بارے میں حال ہی میں متنازعہ بیانات دیے ہیں۔

کاوے موسوی کی طرف سے یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب حال ہی میں براڈ شیٹ ایل ایل سی نے پاکستانی حکومت کے خلاف برطانیہ میں ثالثی کا ایک مقدمہ جیتا ہے۔ اس کے بعد عدالتی حکم پر انھیں برطانیہ میں پاکستانی سفارتخانے کے بینک اکاؤنٹ سے لگ بھگ 29 ملین ڈالر کی رقم ادا کی گئی ہے۔

کاوے موسوی نے یہ دعوٰی کیا ہے کہ انھوں نے سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے خاندان سمیت کئی پاکستانی سیاستدانوں کے بیرونِ ممالک میں بنائے گئے لاکھوں ڈالر مالیت کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثہ جات کا سراغ لگا لیا تھا۔

منگل کو وفاقی کابینہ نے براڈ شیٹ کے معاملے پر ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیٹی قائم کرنے کی منظوری دے دی تھی جسے اپنی تحقیقات 45 روز میں مکمل کرنی ہوں گی۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق بی بی سی سے گفتگو میں وفاقی وزیر شبلی فراز نے کہا کہ جسٹس ریٹائرڈ شیخ عظمت سعید کارپوریٹ لا کے ایک بہترین وکیل بھی رہے ہیں اس لیے ان کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ کے طور پر تعیناتی سے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ جب سنہ 2000 میں براڈ شیڈ اور نیب کے درمیان نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں کی جائیدادوں کا سراغ لگانے کے حوالے سے معاہدہ ہوا تھا تو اس وقت جسٹس (ر) شیخ عظمت سعید نیب میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل تھے تو کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے؟

انھوں نے جواب میں کہا کہ ان کے اس تجربے کی بنا پر کمیٹی کو تحقیقات میں مدد ملے گی۔

جسٹس عظمت سعید کو سنہ 2004 میں لاہور ہائی کورٹ میں ایڈہاک جج اور سنہ 2005 میں مستقل جج لگا دیا گیا تھا۔ سنہ 2011 میں وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے تھے۔

وفاقی وزیر شبلی فراز نے بتایا کہ جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کی تعیناتی متفقہ طور پر عمل میں لائی گئی ہے۔ جبکہ کمیٹی میں شامل دیگر اراکین کی تقرری کا نوٹیفکیشن 22 جنوری کو جاری کیا جائے گا۔

تحقیقاتی کمیٹی کو یہ مینڈیٹ ہو گا کہ وہ ڈیڑھ ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرے۔

انھوں نے کہا کہ کمیٹی میں وکلا کے علاوہ تحقیقات میں معاونت کے لیے ماہرین کی خدمات بھی حاصل ہوں گی۔

جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید اس پانچ رکنی بینچ کا حصہ بھی تھے جس نے پاناما کیس کا فیصلہ دیا تھا۔ وہ ان ججوں میں شامل تھے جنھوں نے نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس میں عمران خان کی درخواست کے فیصلے میں ملک کے وزیراعظم کی فوری نااہلی کی بجائے جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کاوے موسوی: ایک ارب ڈالر برطانیہ منتقل کرنے والے پاکستانی کا نام ’حکومت کو معلوم ہے‘

اگر این آر او دینا نہیں تو پھر اس کا بار بار ذکر کیوں؟

کیا نیب نے وصولیوں کے ’متنازع‘ اعداد و شمار کے ذریعے وزیراعظم کو گمراہ کیا؟

عمران: اپوزیشن فوج کے خلاف انڈیا کی پروپیگنڈا مشین جیسی زبان استعمال کر رہی ہے

بی بی سی کےنامہ نگار عمر دراز ننگیانہ کو دیے گیے ایک حالیہ انٹرویو میں براڈ شیٹ ایل ایل سی کے سربراہ کاوے موسوی بتایا کہ پاکستانی سیاسی شخصیات کے بیرونِ ملک اثاثہ جات کا سراغ لگانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کے حوالے سے موجودہ پاکستانی حکومت کے ساتھ ان کی بات چیت جاری ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ پہلے ہی ‘رضاکارانہ طور پر’ موجودہ حکومت کو برطانیہ میں ایک ارب ڈالر مالیت کے ایک مشکوک بینک اکاؤنٹ کی نشاندہی کر چکے ہیں تاہم ’پاکستانی حکومت نے تاحال اس کا کھوج لگانے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔‘

کاوے موسویبنیادی طور پر انسانی حقوق کے وکیل ہیں۔ وہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم بھی دے چکے اور بین الاقوامی مصالحتی عدالت میں ثالث کے طور پر کام کر چکے ہیں۔

آئل آف مین میں رجسٹرڈ اثاثہ جات کی کھوج لگانے والی ان کی کمپنی براڈ شیٹ ایل ایل سی پہلی مرتبہ سنہ 2000 میں پاکستان آئی تھی۔ اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے نیب کے لیے ان کی خدمات حاصل کی تھیں۔

کاوے موسوی کے مطابق جنرل پرویز مشرف خاص طور پر نواز شریف، بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے بیرونِ ملک اثاثہ جات کا سراغ لگا کر مبینہ طور پر لوٹی گئی رقم پاکستان واپس لانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔

’لیکن ہم کسی سیاسی انتقامی کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے جو کہ اس وقت ظاہر ہو رہا تھا کہ مشرف کرنا چا رہے تھے۔ اس لیے ہم نے واضح کر دیا کہ ہم صرف ان تین شخصیات کے پیچھے نہیں جائیں گے۔‘

براڈشیٹ اور نیب کے درمیان کیا معاہدہ طے پایا؟

ابتدائی بات چیت کے بعد نیب اور پاکستانی حکومت کے ساتھ ان کا معائدہ طے پایا۔ انھیں ان تین شخصیات سمیت 200 اہداف کی ایک فہرست فراہم کی گئی۔

معاہدے کے مطابق نیب نے انھیں مطلوبہ دستاویزات فراہم کرنا تھیں جن کی بنیاد پر براڈشیٹ ایل ایل سی کو ان افراد کی طرف سے بیرونِ ملک رکھی گئی مبینہ کرپشن کی رقم کا سراغ لگا کر ثبوت فراہم کرنا تھے اور اسے پاکستان واپس لانے میں مدد فراہم کرنا تھی۔

‘نیب نے ہم سے کہا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں، آپ پیسہ خرچ کریں، ان افراد کے اثاثہ جات کا سراغ لگائیں اور لوٹی ہوئی رقم واپس دلانے میں ہماری مدد کریں۔ کل رقم کا 20 فیصد حصہ آپ کو معاوضے کے طور پر دیا جائے گا۔’

کاوے موسوی اور موجودہ حکومت کے درمیان کیا بات چیت ہوئی؟

موسوی کا کہنا تھا کہ معاوضے کی رقم کو کم کروانے کے لیے پاکستان کی موجودہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے مذاکرات کے دوران سنہ 2018 میں انھوں نے پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ایک مرتبہ پھر ارادہ ظاہر کیا تھا۔

موسوی کے مطابق موجودہ حکومت کے اندر ہی سے ان کے ساتھ بات چیت کرنے والے چند افراد نے انھیں پیشکش کی کہ ‘ہم آپ کا نیا کانٹریکٹ کروا دیں گے لیکن یہ بتائیں کہ اس میں ہمارا حصہ کتنا ہو گا۔’ ان کا کہنا تھا کہ اس کے فوراً بعد انھوں تمام تر بات چیت روک دی تھی۔

‘ہم نے ان سے کہا کہ ہم معاوضے کی اس رقم کو بھول جاتے ہیں اور آئیں مل کر اس پر پھر سے کام کرتے ہیں۔ ہم نے معاہدے کا ایک مسودہ بھی تیار کر لیا تھا لیکن عمران (وزیرِاعظم عمران خان) کی حکومت کے اندر ہی سے چند عناصر نے ایک مرتبہ پھر اس کوشش کو سبوتاژ کر دیا۔’

کاوے موسوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی پاکستانی حکومت کے ساتھ دوبارہ کام کرنے کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔

یاد رہے کہ عمران خان نے 13 جنوری کو اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’براڈ شیٹ سے ہم اپنی اشرافیہ کی منی لانڈرنگ اور تحقیقات رکوانے والوں کے حوالے سے مکمل شفافیت چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’براڈ شیٹ کے انکشافات نےایک مرتبہ پھر ہماری حکمران اشرافیہ کی بھاری بھرکم کرپشن اور منی لانڈرنگ بےنقاب کردی ہے۔‘

چند روز قبل ایک بیان میں عمران خان نے یہ بھی کہا کہ براڈ شیٹ کے انکشاف کے مطابق ایک پاکستان سیاسی شخصیت نے سعودی سے ایک ارب ڈالر برطانیہ منتقل کیے ہیں۔

’براڈ شیٹ نے تاحال حکومت کو اس اکاؤنٹ ہولڈر کا نام نہیں بتایا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp