پنجاب کی نصابی کتاب میں مارشل لا کی حمایت


نوآبادیاتی عہد میں جو نظریہ علم تشکیل دیا گیا اس کی جڑوں میں استعماری تصورات کا بہت زیادہ حصہ رہا، اس نظریہ علم کی بنیادیں تعلیمی ڈھانچے کے ذریعے سے مضبوط کی گئیں۔ نوآباد کاروں کی نظریاتی بنیادوں میں یہ شامل تھا کہ کالونائزیشن کے ذریعے غیر یورپی اقوام کی پسماندگی دور ہوئی، چنانچہ اسی تصور کی بنیاد پر برطانیہ نے بالخصوص ہندوستان میں مقامی ثقافت، تاریخ، زبان و ادب اور تہذیبی شناخت تبدیل کرنے کے منصوبے بنائے۔

برطانوی نوآباد کاروں نے مقامیت کا رخ مغرب کی جانب موڑنے کے لیے تعلیم نصاب کا استعمال کیا، ان نصابات میں شامل استعماری منصوبہ بندی کو عملی شکل دینے کے لیے تعلیمی اداروں کو اہداف سونپے گئے۔ تقسیم ہند کے بعد، پاکستان کی مقامی تاریخ کو بالاتر طبقات کی ایما پر تشکیل دینے کا نوآبادیاتی طریقہ رائج کیا گیا۔ پروفیسر کے۔ کے عزیز نے اپنی معروف کتاب مرڈر آف ہسٹری میں اس مدعے پر بے شمار نصابی حوالہ جات درج کیے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مارشل لاء ادوار اور جمہوری عہد۔ پاکستان میں مارشل لاء عہد سیاسی جبر، سماجی گھٹن اور جمہوریت پر سنگ باری کی بدترین تاریخ کا حامل ہے تاہم مارشل لا ادوار کو سرکاری نصابات میں مثالی اور معیاری عہد کے طور پر پیش کرنا، گویا نوآبادیاتی عہد کے فلسفہ حکمرانی کو قائم رکھنے کے مترادف ہے۔ تعلیمی صحافت کرنے کی بنا اکثر و بیشتر نصابات کا جائزہ لینے کا موقع میسر رہتا ہے، پنجاب میں رائج مطالعہ پاکستان کا سرکاری نصاب پڑھنے سے لگتا ہے کہ غالباً یہ صوبہ غیر جمہوری سیاست کا قائل ہے۔

پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ نے مطالعہ پاکستان کی نئی کتاب شائع کی ہے، اس کتاب میں نویں جماعت کے طلباء کے لیے جو نصابی مواد متن کا حصہ بنایا گیا ہے، اس سے طالب علم کے تعقل کو خاص سانچے میں ڈھالنے کا منصوبہ ہے۔ کتاب کا دوسرا باب تحریک پاکستان اور پاکستان کا قیام کے عنوان سے لکھا گیا ہے، جس کے تدریسی مقاصد میں درج ہے کہ طلباء ایوب خان کی قومی خدمات کو جان سکیں گے۔ عین ممکن ہے کتاب میں ایوب خان کی مدح سرائی غالباً اس لیے کی گئی ہو چونکہ بورڈ کا قیام ایوب خان عہد میں ہوا۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ بورڈ کا موجودہ چیئرمین ریٹائرڈ جرنیل ہے اس لیے ایوب خان کو قابل تقلید لیڈر لکھا گیا ہے۔ بہرحال مطالعہ پاکستان کے نام پر پنجاب کے طلبا کو کیا پڑھایا جا رہا ہے، چند ایک متن ملاحظہ کیجئے :

”قیام پاکستان کے ایک سال بعد قائد اعظم وفات پا گئے، پھر لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا، ملک دور اندیش رہنماؤں سے محروم ہو گیا، پاکستان میں اہل سیاسی قیادت کا بحران پیدا ہو گیا۔ سول سروس میں جو لوگ زیادہ با اثر تھے ان کے دلوں میں اقتدار کی ہوس نے جنم لیا گویا مارشل لا کا راستہ ہموار ہو گیا“

مطالعہ پاکستان کی اس کتاب میں طلباء کو یہ باور کرایا گیا کہ پاکستان میں جمہوریت کا خاتمہ کرنے میں مارشل لا لگانے والوں کو کوئی قصور نہ تھا، جب معاشی اور سیاسی بحران بڑھ گیا تو مارشل لاء کے نفاذ کی حوصلہ افزائی۔ آگے چل کر کتاب میں درج ہے :

”قیام پاکستان سے لے کر 7 اکتوبر 1958ء تک پاکستان میں پارلیمانی نظام رائج رہا، پہلے گیارہ برسوں میں یہ نظام مکمل طور پر ناکام ہو گیا، پارلیمانی نظام کی ناکامی سے ان گیارہ برسوں میں چار گورنر جنرلوں کے تحت سات وزارتیں تشکیل دی گئیں، اس سیاسی عدم استحکام سے مارشل لا کے نفاذ کی حوصلہ افزائی ہوئی“

پارلیمانی نظام یا جمہوریت کو قصور وار ٹھہرانے کے بعد کتاب میں جنرل ایوب خان کی عوام دوستی اقدامات کو سراہنے کے لیے مزید دلائل بھی پیش کیے گئے، ملاحظہ کیجئے :

”پاکستان اور بھارت دونوں ایک ہی وقت میں آزاد ہوئے (حالانکہ ہندوستان تقسیم ہوا تھا) ، بھارت نے اپنا دستور اڑھائی سال میں تیار کر لیا لیکن پاکستان کے سیاست دان اس اہم مسئلے کو لٹکاتے رہے، آخر کار مارشل لا نافذ ہو گیا۔ جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا کر ملک کا انتظام سنبھالا، وہ کافی عرصے سے سیاست کو قریب سے دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ بطور وزیر دفاع امور مملکت میں حصہ لیتے رہے، اس لیے وہ ملکی سیاسی صورتحال سے آگاہ تھے، وہ بذات خود صدارتی نظام کے حامی تھے جس میں صدر کو وسیع اختیارات حاصل تھے، اسی احساس کے پیش نظر جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام لانے کا فیصلہ کیا“

کتاب میں جنرل ایوب خان کو مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا ہے، گویا یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اس کتاب کا مسودہ خود جنرل ایوب کی نگرانی میں مرتب کیا گیا ہے بلکہ یوں کہہ لیجیے جیسے مصنفین کو ایسا مواد لکھنے کی ہدایات خود جنرل ایوب نے دی ہوں۔ مصنفین مزید لکھتے ہیں :

”بنیادی جمہوریتوں کے نظام کی افادیت سے لوگوں کے بنیادی مسائل حل ہوئے، سماجی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کیے گئے، جنرل ایوب نے بنیادی جمہوریتوں کا حکم نامہ 26 اکتوبر 1959ء کو جاری کیا جس کے نتیجے میں دسمبر 1959 اور جنوری 1960ء میں ملک مین انتخابات ہوئے جس میں 80 ہزار نمائندوں کو منتخب کیا گیا، فروری 1960ء میں ان نمائندوں نے جنرل ایوب پر اعتماد کا اظہار کیا، اس طرح 17 فروری 1960ء میں جنرل ایوب نے صدر پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا“

مطالعہ پاکستان کی اس کتاب میں ثابت کیا گیا ہے کہ جنرل ایوب خان قوم کے خدمت گزار تھے اور عوام نے 1958ء میں مارشل لا کا جوش و جذبے کے ساتھ خیر مقدم کیا تھا اور قوم کو جنرل ایوب سے امیدیں وابستہ تھیں۔ تاریخ کا قتل دیکھیے کہ مطالعہ پاکستان کی اس کتاب میں 1965ء کے صدارتی انتخابات کا نقشہ بھی جنرل ایوب کے حق میں کھینچ دیا گیا ہے، مادر ملت فاطمہ جناح کا معمولی سا تذکرہ کرنے کے بعد کمال مہارت سے ان انتخابات میں جنرل ایوب کی فتح بیان کی گئی ہے۔ کتاب کا متن ملاحظہ کیجئے :

”قائد اعظم کے بعد مادر ملت ہی ایسی شخصیت تھیں جن کو ملک میں ہر دلعزیزی اور مقبولیت حاصل تھی، فاطمہ جناح جنرل ایوب کے قائم کردہ کردہ آمرانہ نظام کے خلاف تھیں، آپ میدان میں نکلیں تو ڈھاکہ سے کراچی تک آپ کا پر جوش استقبال کیا گیا“ ۔ یہ بات یہیں ختم کر کے اچانک ان جملوں کا آغاز کر دیا گیا: ”1965ء میں بی ڈی ممبران کی تعداد 80 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ بیس ہزار کر دی گئی، ان ممبران کی مدت 1965ء میں ختم ہو رہی تھی لہذا نومبر 1964ء میں ان کا دوبارہ انتخاب کرایا گیا، بنیادی جمہوریت کے ارکان نے ایوب خان کو اکثریت سے صدر منتخب کر لیا اور فاطمہ جناح کو شکست کا سامنا کرنا پڑا“ ۔

اس کے بعد پاکستان اور بھارت کی جنگ کا تذکرہ شروع ہوتا ہے اور متن میں مارشل لاء کے ذریعے صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالنے والے جنرل ایوب خان کا ریڈیو خطاب شامل کیا گیا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کی معاشی ترقی، زرعی ترقی، صنعتی شعبے کی ترقی، تعلیمی اور سماجی شعبوں کی ترقی کے پیراگراف میں جناب صدر کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے بلکہ اس باب میں تو بالکل واضح لکھا گیا ہے کہ جنرل ایوب کے دور حکومت میں ملکی ترقی میں جو اضافہ ہوا آج بھی معاشی ترقی کے لحاظ سے اس دور کو مثالی دور سمجھا جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد جنرل ایوب کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کی خوبیاں بیان کر کے باب کے اس حصے کا اختتام کر دیا گیا۔

جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان میں کیسے سیاستدانوں پر جبر کیے گئے اور ملک میں جمہوریت کے خلاف کیا اقدامات ہوئے اس پر میں ایک تفصیلی کالم لکھ چکا ہوں، یہاں بس اتنا عرض کروں گا کہ مابعد نوآبادیاتی عہد کے مقامی حکم ران طبقات آج بھی پاکستان کو اپنی نوآبادیات سمجھتے ہیں اس لیے تاریخ کی تشکیل بالاتر طبقات کے فکر و فلسفہ کے مطابق پڑھائی جاتی ہے، کتابوں کی اشاعت پر ہر سال اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، سرکاری خزانے سے، عوامی ٹیکسوں سے چھپنے والی ان کتابوں میں بالاتر طبقات کی بتائی ہوئی تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔

جمہوریت کو عظیم تر سمجھنے والے سیاست دانوں کو چاہیے کہ نصابی تاریخ تو قومی حقائق کی بنیاد پر پڑھانے کا مطالبہ کریں۔ یہاں میں ان مصنفین کا ذکر ضرور کروں گا جنھوں نے یہ کتاب پنجاب کے نوجوانوں کے لیے لکھ کر عظیم معرکہ سر کیا۔ اس میں ڈاکٹر علی اقتدار مرزا، سید عباس حیدر اور محمد حسین چودھری جبکہ جی سی یونیورسٹی لاہور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جغرافیہ ڈاکٹر شکیل محمود، سائنس کالج وحدت روڈ لاہور کے لیکچرر تاریخ منیر احمد بھٹی، جی سی یونیورسٹی لاہور کی لیکچرر روبینہ شاہین اور نظریہ پاکستان کے ڈائریکٹر ریسرچ نعیم احمد نظر ثانی کمیٹی کے ممبران ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).