براڈ شیٹ، نہیں چارج شیٹ


نئے سال کی شروعات پاکستان میں سیاسی چپقلش اور صف بندی و طریقہ کار میں اتھل پتھل سے ہوئی ہے متعدد اسکینڈل سامنے آئے بجلی کا بریک ڈاؤن، ایل این جی کی قلت، مہنگے داموں خریداری طلب اور دستیاب مقدار میں عدم توازن، براڈ شیٹ اور پھر ملائیشیا میں پی آئی اے کے طیارے کی ضبطی۔

لیکن میں بحث کا آغاز ملکی آئین میں وضح شدہ سیاسی ڈھانچے سے ممکنہ انحراف جیسی وسیع المعنی اور گہری اثر پذیری کے حوالے سے کروں گا حکومت نے بعض دلائل کی بنا پر سینیٹ کا آمدہ انتخاب شو آف ہینڈ یا اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کا لائحہ عمل اختیار کرنے کے لئے عدالت سے رہنمائی لینے کا انوکھا فیصلہ کیا ہے کہا جا رہا ہے کہ اراکین اسمبلی ہارس ٹریڈنگ میں مبتلا ہو کر پارٹی فیصلوں کے برعکس ووٹ کاسٹ کرتے ہیں وفاقی حکومت جو سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی بنیادی درخواست گزار ہے مخلوط حکومت ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت ہی کہلاتی ہے اتحادی تو مطلوب عددی اکثریت پوری کرنے والے اضافی کردار ہیں جو بنیادی فیصلہ سازی میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتے مردم شماری کے سوال پر ایم کیو ایم کا نقطہ نظر یا احتجاج اس کی عمدہ مثال ہے علاوہ ازیں پنجاب کے پی اور بلوچستان کی حکومتوں نے عدلیہ میں اس ریفرنس کی حمایت کی ہے تینوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی واحد یا بذریعہ اتحادی حکومتیں ہیں بلوچستان حکومت میں اہم عددی حیثیت باپ کے پاس ہے جس کی ساخت اور سیاسی ثقافت اطاعت گزار کی روایت کی مشکوک چادر میں لپٹی۔

شخصی گروہی مفادات کے گرد گھومتی ہے چنانچہ صورتحال سے نتیجہ اخذ کرنا ممکن ہے کہ پی ٹی آئی اور باپ سینٹ انتخابات کے مرحلے میں اپنے ہی اراکین صوبائی اسمبلی پر عدم اعتماد اور تحفظات کے شکار ہیں تین سال قبل بھی کے پی میں پی ٹی آئی اراکین نے پارٹی فیصلوں کی خلاف ورزی کی تھی اس بار بھی ایسے ہی معاملات کے اعادہ کا نمایاں خدشہ موجود ہے صدارتی ریفرنس انہی تحفظات کا اغماض ہے سادہ الفاظ میں کہا جائے تو دونوں جماعتیں زیادہ واضح طور پر ببانگ دھل یہ تسلیم کر رہی ہیں کہ ان کے اراکین صوبائی اسمبلی ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہو سکتے ہیں!

گویا کہ وہ اپنے کردار خواص اور سیاسی طور طریقے سے مربوط پیوستہ مفادات کی وجہ سے ناقابل بھروسا ہیں۔ پارٹی ڈسپلن کے پابند نہیں بلکہ خود کو پارٹی ڈسپلن سے ماوراء سمجھتے مانتے ہیں۔ یوں وہ ( ریفرنس کی رو) آئین کی دفعات 62 اور 63 کے معینہ صادق و امین کے معیار پر پورے نہیں اترتے یہ شبہ پی ٹی آئی کے صدارتی ریفرنس کا ایک امکانی منطقی نتیجہ سمجھا جا سکتا ہے میری ذاتی رائے نہیں۔

الیکشن کمیشن نے 16 جنوری ہفتہ کے روز سپریم کورٹ میں تحریری طور پر اپنا موقف جمع کرایا ہے جو حکومت کے نقطہ نظر کے برعکس بادی النظر میں آئینی سے گہری مطابقت رکھتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ آئین میں کسی ابہام یا تضاد کے متعلق تشریحی وضاحت کی مجاز ہے مگر واضح آئینی احکامات و دفعات کو بدل سکتی ہے نہ ان کو ختم کرنے کی مجاز ہے ملک کے قانونی حلقے بھی حکومتی موقف کو کمزور قرار دے رہے ہیں فرض کریں کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس مسترد کر دیے تو اس کے کیا سیاسی نتائج برآمد ہوں گے؟

قانونی سطح پر تو کچھ نہیں بدلے گا لیکن حکومت کی قانونی ماہرین کی ٹیم کی ساکھ ملیامیٹ ہو جائے گی۔ ممکن ہے اس ریفرنس کی صلاح دینے والے بذریعہ عدلیہ اپنے کاندھوں پر لدا ہوا بوجھ اتارنے کی سعی تو نہیں کر رہے؟ صدارتی ریفرنس کے استرداد سے حکومت ختم نہیں ہوگی لیکن کیا اس کی غیر فہمیدہ ساکھ سرپرستوں کے لئے سنجیدہ سوالیہ نشان نہیں بنے گی؟ جو معاشی سیاسی، سفارتی اور ملکی قانون و آئین کے واضح امور کی درست انجام دہی سے قطعاً قاصر ہے؟

اگر یہ خیال غلط نہیں تو کیا یہ گمان قرین قیاس نہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور سیاست اختتام پذیر ہونے کے خدشے کی زد میں ہے؟ جبکہ فارن فنڈنگ کیس اس مقصد کے لئے تیر بہدف نسخہ ثابت ہو سکتا ہے جسے چھ سال تک بچا بچا کر رکھا گیا تھا؟ یہ بھی واضح رہے کہ الیکشن کمیشن اس کیس میں حقائق کی چھان پھٹک کے بعد جو نتائج اخذ کرے اور کسی جماعت پر خلاف قواعد غیر ملکی فنڈ وصول کرنے کی تصدیق کرے تو بھی مذکورہ جماعت کے خلاف مزید تادیبی کارروائی کرنے کا اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہے مگر شاید یہ صوابدیدی اختیار نہ ہو یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے خلاف فائنڈنگ سامنے آئیں تو مرکزی حکومت اپنی جماعت پر قدغن کے لئے کارروائی نہیں کرے گی۔

میری رائے میں ایسا ہونا بعید از قیاس ہے اولا ً تو یہ کہ تادیبی کارروائی کا صوابدیدی اختیار نہیں ثانیاً الیکشن کمیشن سے مخالفانہ فیصلہ آنے سے حکمران جماعت کی سیاسی اور اخلاقی ساکھ پر بہت دباؤ آئے گا دریں حالات ڈوبتے سیاسی جہاز کا ادراک کرتے وہی یکجا کرائے گئے موسمی سیاسی پرندے کسی منزل کا رخ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کا جہاز چھوڑنے میں پہل کاری کر سکتے ہیں جس کا اثر بد قومی اسمبلی میں دستیاب معمولی سی عددی اکثریت پر پڑے گا اکثریت تحلیل ہو جائے گی ثالثاً حکومت الیکشن کمیشن کی رائے میں مزاحم ہوئی تو مخالف سیاسی جماعتیں وکلا اور دیگر شہری حکومتی اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتے ہیں قصہ کوتاہ الیکشن کمیشن سے منفی فائنڈنگ یا فیصلہ حکومت کے لئے ضرر رساں ہو گا اور حکومت بہت دنوں تک برقرار نہ رہ پائے گی نہ ہی لیت و لعل سے کام چلا سکے گی۔ بعید نہیں کہ دریں حالات طاقتور حلقے بھی پی ٹی آئی کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں۔

بروز منگل شائع ہونے والے کالم، ”تجزیات میں تضادات کا مخمصہ“ میں پی ڈی ایم کی تحریک کے تیز رو ابھار اور پھر اس میں آنے والے ٹھہراؤ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ نہ لینے پر مبنی اقدامات کی خامی کی نشاندہی کی تھی 14 دسمبر 2020 ء کو مشرق کوئٹہ میں شائع ہوئے سروے /فیچر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے سینیٹ کے انتخابی عمل کو حکمران حلقے کے لئے کھلا میدان مہیا کرنے کی مخالفت کی تھی۔ میں نے عرض کیا تھا

” پی ڈی ایم تحریک جب اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کرے گی تو پورے ملک کی سیاست پر اس کے گہرے اثرات ہوں گے بلوچستان اسمبلی اس سے مبرا نہیں۔

اپوزیشن اتحاد سے جڑے ہوئے 25 ارکان مستعفی ہوجائیں تو عددی اعتبار سے حکومت کی صحت پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن اسمبلی مع حکومت کی ساکھ ختم ہو جائے گی۔

یہ کہا جا سکتا کہ مسلط شدہ حکومت کے لیے عوامی جمہوری ساکھ کی کیا اہمیت و افادیت ہو سکتی ہے!

ایسا ہونا بعید نہیں مگر دھیان میں رہے کی جس طرح ایک ٹانگ سے معذور انسان دوڑ میں شریک نہیں ہو سکتا حزب اختلاف کے بغیر حزب اقتدار بھی سیاسی میدان میں موجود نہیں رہ پاتی۔ آمریت کی البتہ انی منطق ہوتی ہے جو استدلال کی بجائے طاقت کے استقلال پہ منحصر ہوتی ہے۔

حکومت اپوزیشن کے چلے جانے سے جو قانون سازی کرے گی وہ متنازعہ ہوگی شاید عدلیہ بھی اسے رد کردے۔ کاروبار حکومت ٹھپ ہو جائے گا۔ گہرائی تک سرایت کردہ سیاسی عدم استحکام کے ماحول میں سول بیوروکریسی عضو معطل بن جائے گی

حکومت ضمنی انتخابات کے ذریعے خالی نشستوں کو پر کرنا چاہے گی تو کیا اپوزیشن جماعتیں ایسے انتخابات کے لیے راستہ دیں گی؟ بعید نہیں 1985 کا اعادہ ہو اور آزاد امیدواروں کے ذریعے سیاسی جماعتیں بالواسطہ طور پر انتخاب لڑیں تاکہ ان کے سیاسی انتخابی مراکز پر قبضہ نہ ہو

ایسی صورتحال جبھی سامنے آئے گی کہ طاقت کا مرکز موجودہ حکومت کی مسلسل بیساکھی بنا رہے۔ یوں 1985 عود آئے گا اور بلدیاتی سطح کے افراد اچانک صوبائی قانون ساز بن سکتے ہیں یہ پہلو ملک میں سیاسی بلوغت میں کمی اور پارلیمانی اداروں کی بے توقیری کو آگے بڑھانے گا۔

کیا خطے کی مخصوص و مخدوش صورتحال میں پاکستان کا حساس وفاقی منطقہ اس کا متحمل ہو سکے گا؟

میری رائے نفی میں اور پر از تشویش بھی۔ فیصلہ ساز کیا سوچتے ہیں؟ اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت بھی ہے اور میرا حق بھی نہیں ”۔ میں آج بھی اس رائے کو درست سمجھتا ہوں

گزشتہ کالم میں طوالت بچنے کے لیے تجزیوں میں موجود تضاد کی جزوی نشاندہی کی تھی مناسب ہوگا اس کی ذرا تفصیل بھی لکھ دی جائے ایک نمایاں تاثر محولہ بالا کالموں میں جناب عمران خان کے بارے ابھر کر یوں سامنے آتا ہے کہ وہ منتخب شدہ نہیں بلکہ کٹھ پتلی ہیں ساتھ ہی ساتھ انہی تجزیوں میں عمران خان کو ہٹ دھرم طاقتور وزیراعظم کے طور بھی بیان کیا جاتا ہے

بے بسی اور کٹھ پتلی کہنے والے دلیل کے طور پر جناب میاں نواز شریف کی بیرون ملک برائے علاج روانگی سے لے کر جناب شاہد خاقان عباسی کے حالیہ دروہ امریکہ کا حوالہ دیتے ہیں کہ وزیراعظم کی منشا و رضا کے برخلاف ان فیصلوں پر عملدرآمد ہوا۔ اسی ضمن میں چند ماہ پیشتر لاہور جیل میں جناب شہباز شریف کے ساتھ جناب حمد علی درانی کی ملاقات کا بھی ذکر کیا جاتا ہے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب ہر حال میں مذکورہ ملاقات کو روکنا چاہتے تھے مگر وہ اس میں بری طرح ناکام رہے بیان کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کئی مواقع پر وزیراعلی پنجاب جناب عثمان بزدار کو بدلنے کے لئے دباؤ ڈال چکی ہے مگر اس حوالے سے وزیراعظم اپنے عزم پر قائم رہے باوجود دباؤ اور اتحادیوں کی خفگی و ناقص کارکردگی کے جناب بزدار کی رخصتی ممکن نہیں ہو پا رہی کہتے ہیں کہ ان کا کلہ بہت مضبوط ہے جو شاید کسی روحانی رشتے سے بندھا ہوا ہے تو سوال یہ ہے کہ ایک کٹھ پتلی وزیراعظم ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیونکر کر پاتا ہے؟ واقعاتی مثالیں مزید رقم کی جا سکتی ہیں تھوڑے کو ہی حوالے کے لئے مناسب سمجھنا چاہیے۔

براڈ شیٹ کیس جتنا پیچیدہ ہے اتنا ہی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے یہ کیس ہمارے نظم حکمرانی کی بوسیدگی کو عمدگی سے بیان کرتا ہے جسے ذاتی گروہی محکمانہ جاتی مفادات اور کوتاہیوں نے مزید کمزور کر رکھا ہے۔

کہا گیا ہے کہ براڈ شیٹ کو کی گئی ادائیگی میں 1.5 ملین ڈالر کی رقم نواز شریف کے ایون فیلڈ فلیٹس کے ضمن میں ادا ہوئی ہے یہ بہت طرحدار دروغ گوئی ہے نیب اور براڈ شیٹ کے درمیان کسی پاکستانی کی مخفی شدہ جائیداد و اثاثوں کی نشاندہی پر رقوم کی تقسیم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا بلکہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک موجودہ اثاثوں کی ضبطی سے حاصل ہونے والی دولت کی باہمی تقسیم میں شراکت داری طے پائی تھی چنانچہ اگر جناب شہزاد اکبر کے اس دعوے کو تسلیم کیا جائے کہ کاوے موسوی کو دی گئی 28 ملین ڈالر کی رقم میں نواز شریف کے اثاثہ جات کی نشاندہی کرانے پر 1.5 ملین ڈالر بطور فیس و جرمانہ ادا کیا گیا ہے تو پھر بتایا جانا چاہیے کہ نواز شریف و دیگر افراد جن کے نام خود نیب نے براڈ شیٹ کو دیے تھے ان کے غیر قانونی اثاثہ جات سے پاکستان کے قومی ( نیب نہیں ) خزانے کو 80 فیصد شراکت کے اصول پر کتنی رقم موصول ہو چکی ہے؟

ایون فیلڈ کے فلیٹس 1999 سے شریف فیملی کے زیر استعمال ہیں چونکہ نیب نے 200 افراد کی جو فہرست دی تھی ان میں نواز شریف کا نام موجود تھا لہذا براڈ شیٹ نے اس معلوم شدہ اثاثے کو نیب کے بیان کے مطابق برطانوی عدالت میں کرپشن سے بنایا گیا اثاثہ قرار دے کر ضبط کرنے کی استدعا کی تھی جسے عدالت نے مسترد کر دیا کہ اول تو یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ مذکورہ فلیٹس کرپشن یا بد عنوانی کی رقم سے خریدے گئے ہیں ثانیاً یہ فلیٹس میاں نواز شریف کے نہیں بلکہ ان کے بچوں کی ملکیت ہیں جو برطانوی شہری ہیں میاں نواز شریف نے اسی پس منظر میں عدالتی فیصلے کو اپنی کامیابی قرار دیا تھا لیکن ہمارے جغادری درباری وزرا اور ترجمانوں نیز میڈیا مدبرین نے اس پر میاں نواز شریف پر تنقید کی جو قانونی اور عقلی تقاضوں سے قطعاً ہم آہنگ نہ تھی۔

19 جنوری کو کابینہ کی تشکیل دی گئی سہ رکنی وزرا کمیٹی نے براڈ شیٹ کیس کی تحقیقات اور حقائق کی کھوج لگانے یا مانیٹرنگ کے غیر جانبدارانہ فرائض بجا لانے کی بجائے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں معاملہ کا سارا گند اور بوجھ نواز شریف پر ڈالنے کی کوشش کی ہے یہ پریس کانفرنس وزارتی مانیٹرنگ کمیٹی کی جانبداری کی بری مثال ہے اب یہ کمیٹی رپورٹ مرتب ہونے، کرپشن کیے جانے کے فیصلوں سے قبل ہی مشکوک و متنازعہ ہو گئی ہے۔

اگر براڈ شیٹ کو کی گئی ادائیگی بقول حکمران اس این آر او کی قیمت و تلافی ہے جو نواز شریف و دیگر کو آمر پرویز مشرف نے دیا تھا تو اس دعوے سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ متذکرہ صدر این آر او کا بڑا ملزم آمر پرویز مشرف تھا جس نے مخصوص 200 افراد کی فہرست دی پھر اس میں سے اطاعت اختیار کرنے والے پناہ مانگنے والوں کے معاملات ختم کر کے انہیں آمریت کا ہم نموا ساتھی بنا لیا یاد رہے اس وقت جناب عمران خان اور پی ٹی آئی آمر پرویز مشرف کے ساتھ اقتدار سنگھاسن پر موجود تھی جسے پرویز مشرف کے فیصلوں سے بری الذمہ کیسے سمجھنا لینا چاہیے؟

براڈ شیٹ کہانی سے ابھی بہت کچھ باہر آنا ہے اور ساری کہانی ریاست کے انتظامی ڈھانچے کی بوسیدگی کے سوا کچھ ثابت نہیں کرسکے گی یہی لمحہ فکریہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).