جو بائیڈن کے لیے چیلنج


عام بے وقوف شخص کی غلطی کی سزا اس کی ذات تک محدود رہتی ہے مگر، ایسا شخص اگر حکمران ہو تو اس سے سر زد ہونے والی حماقتوں سے بسا اوقات اس کی قوم کی عمر بھر کی کمائی اور محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔ اس فعل کے مضر اثرات اس طرح جان کو چمٹتے ہیں کہ چھڑانے کی سر توڑ کوشش بھی کامیاب نہیں ہوتی۔ جتنے مرضی ہاتھ پیر مارے جائیں، دلدل سے نکلنے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ امریکا عظیم جمہوری روایات کی امین اور خوابوں کی سر زمین ریاست تھی، انسانی حقوق، آزادی اظہار رائے، مساوات اور برادشت و تحمل جس کا طرہ امتیاز تھا اسی امریکا کو لیکن ٹرمپ نے محض اپنے چار سالہ دور صدارت میں پوری دنیا کے سامنے شرمندگی و خجالت کی تصویر بنا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ میں نومبر کے پہلے منگل کو ہونے والے انتخابات سے 20 جنوری کو حلف برداری تک کے وقت کو عبوری دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں اختیارات نو منتخب صدر کو منتقل کرنے کے علاوہ انتخابی عمل کے دیگر مراحل بھی مکمل ہوتے ہیں۔ امریکی قانون میں اس عرصے کے دوران ہونے والے انتقال اقتدار کی تیاریوں کا طریقۂ کار نہایت پیچیدہ اور مختلف مراحل پر مشتمل ہے لہذا اس عمل کی تفصیل یہاں بیان کرنا ضروری نہیں۔

تاہم چھ جنوری کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ اس روز کانگریس میں الیکٹورل ووٹس کی گنتی ہوتی ہے جس کے بعد باضابطہ طور پر کامیاب امیدوار کا اعلان کیا جاتا ہے۔ قانونی طور پر کامیاب امیدوار کو 270 ووٹ حاصل کرنے ہوتے ہیں وگرنہ ایوان نمائندگان میں ووٹنگ کے ذریعے صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے اور یہ طریقۂ کار امریکی قانون کی 12 ویں ترمیم میں درج ہے۔ ٹرمپ جو صدارتی انتخابات کے نتائج پر معترض تھے انہوں نے اپنے حامیوں کو اکسا کر اس تاریخ کو کانگریس پر حملہ کرا دیا تاکہ جو بائیڈن کی جیت کے اس روایتی اعلان میں رکاوٹ ڈالی جا سکے اور کچھ وقت کے لیے شر پسندوں نے کیپیٹل ہل پر قبضہ کر کے کانگریس کی کارروائی ملتوی بھی کرادی تاہم بعد ازاں یہ عمل کر لیا گیا۔ جس کے بعد نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی جیت کی توثیق کرنے کی پاداش میں سابق نائب صدر مائیک پینس کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ صدر ٹرمپ کے حامی انتہا پسندوں نے دیں۔

اگلا مرحلہ ہوتا ہے نو منتخب صدر کی تقریب حلف برداری کا۔ قانون کے مطابق بیس جنوری کے روز دوپہر تک نئے امریکی صدر کی مدت صدارت کا باضابطہ آغاز ہو جاتا ہے اور وہ حلف اٹھا لیتا ہے لیکن چھ جنوری کے نا خوشگوار واقعے کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ اس موقع پر کہیں امریکا میں خانہ جنگی یا بڑے پیمانے پر فسادات نہ ہو جائیں۔ اسی خدشے کے پیش نظر امریکا کی تقریباً تمام ریاستوں کا کنٹرول فوج کے ہاتھ میں دے دیا گیا تھا۔ جو مناظر ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دکھائے جا رہے تھے ان کے مطابق واشنگٹن کسی فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کر رہا تھا اور یہ حفاظتی اقدامات یونہی محض چھ جنوری والے واقعے کے ردعمل میں ہی نہیں اٹھائے گئے تھے بلکہ اس کی ٹھوس وجوہات بھی تھیں۔ فسادات کے خطرے کے بارے ٹھوس معلومات امریکی انٹیلی جنس ایجنسیز کو موصول ہو رہی تھیں۔ کیپیٹل ہل کے قریب سے مشکوک شخص اسلحے کے ساتھ پکڑا گیا تھا اور پولیس کی جعلی وردیوں میں ملبوس لوگ بھی پکڑے گئے اسی وجہ سے امریکا کی مقتدرہ اس قدر پریشان تھی۔ امریکا میں ٹرمپ کی طرف سے بھڑکائی گئی نفرت کی آگ کا خطرناک پہلو یہ تھا کہ اس کی وجہ سے امریکی فوج میں بھی بغاوت اور تقسیم کا خطرہ پیدا ہو چکا تھا اور واشنگٹن پوسٹ کی خبر کے مطابق نو منتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں ڈیوٹی دینے والے نیشنل گارڈرز کی اسکروٹنی بھی ایف بی آئی کی طرف سے کی گئی کہ کہیں ان میں سے ہی کوئی گڑبڑ کا مرتکب نہ ہو جائے۔

اب یہاں پر دو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا امریکا کی جمہوریت اس نقصان کے بعد سنبھل جائے گی اور امریکا اپنی پیشانی پر لگے اس داغ کو دھونے میں کامیاب ہو جائے گا؟ میرا خیال ہے اس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔ کیپیٹل ہل کی عمارت کو شر پسندوں سے جس طرح خالی کرایا گیا اور انتقال اقتدار کا آخری مرحلہ جس خوش اسلوبی سے طے ہوا یہ امریکی جمہوریت اور اداروں کی اب تک مضبوطی کا ثبوت ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ امریکہ میں برداشت، رواداری اور مساوات کا جس طرح جنازہ نکلا ہے کیا اس کے بعد امریکا اپنی عالمی عظمت برقرار رکھ پائے گا؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے امریکا کی موجودہ حالت کے اسباب کا جائزہ لینا پڑے گا۔ امریکا میں قدامت پسند اور لبرلز کی درمیان حالیہ دنوں نظر آنے والی تقسیم کی بنیادی وجہ یہ خوف تھا کہ سیاہ فام اور تارکین وطن امریکا کے ”اصل باشندوں“ کا حق مار رہے ہیں۔ اس خوف کو ہتھیار بناکر نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کے منصب تک پہنچے بلکہ اس کے بعد بھی وہ امریکی ریاستی پالیسیوں کی باگ بتدریج انہی خطوط پر موڑتے رہے جس سے قدامت پسند امریکی طبقے کی نفسیات کو تسکین ملے۔ اسی لیے انہوں نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، ورلڈ ہیلتھ، اقوام متحدہ، پیرس کے ماحولیاتی معاہدوں پر تنقید کی اور امریکا فرسٹ کا نعرہ لگا کر چین کے خلاف تجارتی جنگ بڑھکائی۔ اس میں شک نہیں کہ اس بدولت روزگار میں اضافہ ہوا اور کئی نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں تاہم اس کے نتیجے میں امریکا کے عالمی اثر و رسوخ کو بھی دھچکا پہنچا۔

یہی نکتہ ہے جس کی وجہ سے میرے خیال میں دوسرے سوال کا جواب بھی ہاں میں ہے۔ اگرچہ امریکا میں نسلی تعصب میں اضافہ ہوا ہے اور بہت سے لوگ ٹرمپ کی امریکا فرسٹ پالیسی کے اندھے حامی ہیں تاہم امریکی سماج میں اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو امریکا کی عالمی حیثیت میں کمی کے بارے سوچنے کا تصور بھی نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے اس وقت بھی جب امریکا کی داخلی صورتحال اتنی کشیدہ ہے وہاں کے میڈیا میں برطانیہ کی طرف سے بریگزٹ ڈیل کے بعد چین کے ساتھ نئے سرے سے معاہدے کرنے کی خبروں پر بھی بحث جاری ہے۔ اسی طرح جرمنی اور فرانس جیسے دیگر اہم یورپی ممالک جس طرح امریکا کے حلقہ ارادت سے نکل کر چین کے ساتھ تعلقات کو بڑھاوا دے رہے ہیں، اس عمل پر بھی امریکا میں تشویش پائی جاتی ہے اور جو بائیڈن نے اپنے پہلے خطاب میں اتحادیوں سے تعلقات میں بہتری لانے کی ضرورت کا اشارہ بھی دیا ہے۔ امریکا اب بھی متنوع خیالات کا حامل ہے اور وہاں کے عوام کی اکثریت کبھی اس کی عالمی سطح پر اولین حیثیت پر سمجھوتا کرنے پر تیار نہیں ہوں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ امریکا کو جو چیز باہم مربوط مضبوط و مستحکم رکھے ہوئے وہ جمہوری روایات مساوات اور آزادی اظہار ہی ہے۔ لہذا اس امر میں کوئی شک نہیں کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن دوبارہ امریکا کو اس کی پرانی روایات کی طرف لانے کی کوشش کریں گے تاہم ان کے لیے یہ چیلنج ہو گا کہ وہ کس طرح قدامت پسند امریکی شہریوں کو مطمئن رکھنے کے ساتھ اپنے ملک کی عالمی پوزیشن برقرار رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).