گرو نانک جی کے ننکانہ سے ناصر تک


زمین نام کے سیارے پر گزرے دنوں کی کھوج کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر لکھنے والوں کا خوش حالی اور خوش بختی سے کم ہی واسطہ رہا ہے۔ عالمی ادب کی تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو اکثر بڑے بڑے ادیب در بدر بھٹکتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ خستہ حالی اور تنگدستی سدا ان کے ساتھ رہی ان کی دانش اور فکر کے دائرے پھیلتے رہے مگر برے حالات نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا سقراط، روسو، میر ، غالب، دوستوفسکی، گوگول، ہرمن میلول سدا تنگ دستی کا گلہ کرتے رہے۔

دوسری جانب دنیائے ادب کی تاریخ میں چند ایسے خوش قسمت ادیب بھی گزرے ہیں جن کے ہاتھوں میں سونے کاچمچ رہا اور مفلسی دور کھڑی ان کا منہ تکتی رہی۔ ہوریس، ورجل، وکٹر ہیوگو، ٹالسٹائی اور ترگنیف ایسے ہی ادیب تھے۔ ورجل، ہوریس محلات میں رہے شاعری کی، نام کمایا، زندۂ جاوید ہو گئے۔ ٹالسٹائی اپنی جاگیر میں ٹھاٹھ باٹ سے رہا، چیخوف اور گورکی جیسے نامور ادیب اس کے حضور نیاز مندی سے حاضری دینے جاتے رہے۔ ترگنیف ایک رئیس آدمی ، جاگیر کا مالک اور بڑا ادیب تھا۔اس نے روس اور پیرس میں ہنسی خوشی دن گزارے۔

دنیائے ادب کی تاریخ میں ایک ایسا ہی مقدر والا دانش ور، فلسفی اور مصنف گرو نانک جی کی دھرتی ننکانہ صاحب سے پانچ میل دور اپنی جاگیر میں رہتا ہے۔ دور اور نزدیک سے لوگ اسے ملنے آتے ہیں۔ علم و دانش کے موتی اس کے ہونٹوں سے گرتے رہتے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے کتابی شکل اختیار کرتے رہتے ہیں ۔ دنیائے ادب میں اس کے نام کی گونج ہے۔ شاعر، ادیب، دانشور، فلسفی جس کا پورا نام رائے محمد خان ناصر ہے۔

وہ ساندل بار کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوا۔ یہ گاؤں گرونانک جی کی جائے پیدائش ننکانہ صاحب سے پانچ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ جن کی کتاب۔ ”ہرکھ“ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے باپ دادا ساندل بار کے مشہور آدمی تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم چیف کالج (ایچی سن) سے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایچی سن ان کی طبعیت پہ کوئی اثر نہیں ڈال سکا ، نواب گھرانے میں آنکھ کھولنے والے ناصر نے درویشانہ زندگی گزاری ہے۔ جنگ و جدل، خون خرابے کی بجائے بقائے باہمی اور امن کا گیت گایا ہے۔ ان کی پہلی کتاب ”ہرکھ“ تھی۔ جس میں انہوں نے محل مینارے چھوڑ کر عام سماج کے دکھوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ایک شعر ملاحظہ ہو۔

میں مڑھکے نال غربت پالی۔ ۔ میں غربت دی شان کھلوتا

ان کی دوسری کتاب ”ہڈک“ پنجابی نظموں کی کتاب ہے جس میں مٹی سے محبت، عزت، غیرت، آزادی اور انصاف کے حصول کی جدوجہد ہے۔ ٹھیٹھ پنجابی اور ساندل بار کا لہجہ ان کی ادبی شہرت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جس نے دیوتاؤں کی تعریف و توصیف کی بجائے اپنے گرد و پیش بسنے والے انسانوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی شاعری آنے والے عہد کی بشارت دیتی ہے ایک نظم ملاحظہ ہو:

ساہکدے انکھی۔
ساہکدے انکھی میرے اندر
ویکھ لا انکھے تیری پاروں
مڑ اج ڈھڈھ نوں دھوکہ دتا
مڑ اج اج پانی چتھ کے کھادا
ہن مر جانیے مر نہ جاویں

ان کی تیسری کتاب ”ہونگ“ ہے۔ اکیسویں صدی کے اکیسویں سال میں پنجابی زبان و ادب کو نئی جہت دینے والے مہان نے اس کتاب میں نہ صرف مرتی ہوئی اصناف ماہیہ، ٹپہ، بولی، دوھے، اشلوک کو زندہ کیا ہے بلکہ دنیا کو یہ باور کروایا ہے کہ حقیقت میں اپنے رہتل اور وسیب سے پیار ہی انسان کو بڑا ادب تخلیق کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ایک بولی ملاحظہ ہو:

راتیں آساں دے بنا کے آہلنے
تے چڑیاں نے رات بھوگ لئی
ایک ٹپہ ملاحظہ ہو۔
ڈولی، ڈولی، ڈولی
اودوں جا وسیب مر دا، مر جاوے جدوں اوہندی بولی
اودوں جا وسیب مر دا
ایک اشلوک ملاحظہ ہو
ڈھوڈھ نہ یار مسیتڑا اتے ککروں اتوں بیر
سن اوس چڑی دا چوہکنا، جہندی جبھ دے ہیٹھ سویر

ان کی شاعری سے دھواں نہیں بلکہ روشنی حاصل ہوتی ہے جو اپنے وسیب کو روشن کر رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ کہن تو ”کہانی“ اور نویلہ سے ”ناول“ بنا تو اب کے بار ان کی کہانیوں کی کتاب ”مورتاں“ پنجابی ادبی بورڈ سے چھپ کے داد وصول کر رہی ہے۔ جس میں کل اٹھارہ کہانیاں ہیں جو کہنے کو تو کہانیاں ہیں لیکن علم و دانش کا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ جن کا مقصد پڑھے لکھے لوگوں کے ذہن اور دماغ کو روشن کرنا تنگ دلی اور تنگ نظری سے نجات دلا کر کہانی کہانی میں ایسی معلومات بہم پہنچانا جس سے قاری کی نگاہیں وسعت اور ذہن و قلب میں کشادگی پیدا ہو۔ مورتاں سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو مورتاں کا مطلب تصویریں ہے۔

”بچیا بندہ سارے دا سارا مٹی اے تے ہے وی بھوئیں کولوں لئی ہوئی۔ بھوئیں کول دوئیں مٹیاں ہائیاں، ہک لین آلی تے ہک دین آلی، رب ایہنوں لین آلی مٹی دا ای بنایا اے“ جس میں بتایا گیا ہے کہ مٹی پہ بصورت مورت انسان موجود ہیں تو پھر مٹی میں مٹی ہونے سے پہلے دھرتی پر انسانیت نظر آنی چاہیے نہیں تو بہت سارے جانور بھی دھرتی پر پیدا ہوتے ہیں ، دھرتی ماں کو جہنم نہیں بلکہ جنت کا گماں ہو اگر آپ انسان ہو۔

کہانی ”ہونگ“ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو ، ہونگ کا مطلب کراہنا ہے۔

”او ویہندا پیا ہا ہک ککڑی دی مگر اٹھ، واہ چوچے جیہڑے ویہندیاں نال تاں اونوں انج لگا جویں روں دے گوڑھے گو کھڑواں وچوں نکل کے بھوئیں تے ٹرے واندے نیں تے ککڑی کک کک کر دی بھوئیں الے چنجھ کر کے دسدی پئی اے ڈھڈ دے روگ دا داروب ھوئیں کول اے“

اس میں ہمارے خطے سے پیدا ہونے والی کپاس انسانی ضرورت کے طور استعمال ہوتی ہے اور صدیوں تک ہوتی رہے گی ، اس کپاس کو انگریز یہاں سے لے جا کے ترقی کر سکتے ہیں تو پھر ہم اپنی زمین پہ اپنی کپاس پیدا کر کے کچھ بھی کرنے سے کیوں قاصر ہیں۔ زمین پہ سب کچھ بہتر ہو سکتا ہے اگر ہم کرنا چاہیں مگر ہم ایسا کیوں نہیں سوچتے یہ سوچنے والی بات ہے۔

کہانی ”ٹھڈا“ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو ۔ ٹھڈا کا مطلب ٹھوکر کے ہیں۔

” کدی کدائیں تے ہک ٹھڈے تے پدھ مک جاندے نیں تے کدی کئیں ٹھڈے رل کے وی ٹورے نوں پدھ تے پدھ نوں منزل نہیں کر سکدے“

اس میں بتایا ہے کہ جو معاشرے ٹھوکر کھا کے سنبھل جاتے ہیں وہ آگے بڑھتے ہیں ، ٹھوکر ان کے لئے راستہ متعین کرتی ہے، حوصلہ دیتی ہے ، ہمت بندھاتی ہے لیکن جو انسان، معاشرے، خطے ٹھڈے سے کوئی سبق نہیں لیتے وہ ساری زندگی ٹھڈوں کی زد میں رہتے ہیں۔

کہانی ”برل“ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔ برل کا مطلب لالچ کی آخری سٹیج ہے۔

” مڑ کاواں دے نال چڑیاں، لالیاں، کوئی قلیل گھوگھی تے ہک ادھی بلبل وی اودی چھت تے آ باہنا۔ اوس بورے سٹنے تے ساریاں آپو اپنا چگن لگ پونا تے اوس سوچن۔

جے ایہناں پکھواں دی تھاں تے بندے ہندے، تے کی ہندا۔ ؟

جس میں ہے کہ انسان کو حسد، لالچ، دھوکہ اور فریب کی بجائے ایک دوسرے سے محبت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ قدرت نے سیکھنے کے لئے ہر سو کچھ نہ کچھ رکھا ہے۔ لڑائی جھگڑے فساد اور شر کی بجائے بقائے باہمی اور امن ہی انسان کو آگے لے کے جا سکتے ہیں۔

کہانی ”بے بے“ سے اقتباس ملاحظہ ہو۔ بے بےکا مطلب ماں ہے۔
” جیہڑے دینہہ بھوئیں کولوں وڈے رکھ تے ویہڑے کولوں ماں مکنا ایں اوسے دینہہ چھاں تے سکھ مر جانا ایں“

اس میں ماں اور چھاں کا استعارہ پوری تہذیب کی آبیاری کرتا ہے جس میں ہزاروں سال کے ارتقائی عمل کو ایک جملے میں پیش کیا ہے۔ کتاب کی ایک ایک سطر اور جملہ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے جو پڑھنے والے سے شعور و آگہی کا تقاضا کرتا ہے۔

انسانی جذبات کو شاعری اور کہانی میں ڈھال کر سمندر جیسی گہرائی دینے والے محمد خان نے ننکانہ سے پنجابی زبان و ادب کو نئی جہت ہی نہیں دی بلکہ دنیا کو باور کروایا ہے کہ بڑا ادب زبان کا مسئلہ نہیں ہے۔ بڑا ادب انسان کا مسئلہ ہے۔ جس زبان کے پاس بڑا انسان ہو گا وہاں بڑا ادب تخلیق ہو گا۔

گرو نانک جی کی دھرتی نے ایک بڑے شاعر، ادیب اور مصنف کو جنم دیا ہے جو آنے والے وقت میں زمین نام کے سیارے پر دھرتی ماں کا حوالہ ہوگا۔ وہ ادیب، دانشور، روشن ضمیر مبلغ اور انسانی حقوق کے پرچارک ہیں۔ ناصر کی پنجابی شاعری کو ادب میں وہی اہمیت حاصل ہے جو یونانی زبان و ادب میں ہومر کی ایلیڈ اور اوڈیسی کو حاصل ہے۔

سلیم اشرف
Latest posts by سلیم اشرف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).