سال نو کی آمد پر گاؤں کی سیر


سال نو کی آمد کے ساتھ ہی ہم سب بہن بھائیوں کا پروگرام بنا کہ گاؤں چلتے ہیں اور وہاں تین چار دن رہتے ہیں۔ سب کو فون پر مطلع کر دیا گیا۔ کافی عرصے سے یہ موضوع زیر بحث تھا کہ کبھی اکٹھے جا کے رہیں۔ امی جان کے انتقال کے بعد موقع ہی نہ مل سکا۔ ہر دفعہ کوئی نہ کوئی مجبوری آڑے آ جاتی۔ ہم نے میاں صاحب کو بھی تیار کر لیا اور فٹافٹ سامان باندھنے لگ گئے۔ ہمارے گاؤں پہنچنے سے پہلے بھائی، بھابھی اور بہن بچوں کے ساتھ گاؤں پہنچ چکے تھے۔

ہم ابھی رستے میں ہی تھے تو شدید دھند پڑنا شروع ہو گئی تھی جس کی وجہ سفر اور خوبصورت ہو گیا تھا۔ گاؤں پہنچے تو گھر کی صفائی وغیرہ ہو چکی تھی، ہر کمرے میں بستر لگ چکے تھے، لاؤنج میں دو گیس کے ہیٹر لگنے کی وجہ سے سردی کافی حد تک قابل برداشت تھی۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں گاؤں میں سردی کی شدت بہت زیادہ تھی۔ اس وقت شدید دھند میں لپٹی گاؤں کی یہ شام بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ سوچا چائے پی جائے، سب نے مل کر چائے پی۔

بچے گھر میں نظر نہیں آرہے تھے تو پوچھنے پر پتہ چلا، وہ تو کہیں باہر نکل گئے ہیں۔ کافی دیر بعد بچے واپس آئے تو پتہ چلا وہ امی جان اور بابا جان کو ملنے قبرستان چلے گئے تھے۔ سب بچے دادا، دادی یا نانا نانو کہنے کی بجائے امی جان اور بابا جان ہی کہتے ہیں، یہ سن کر دل کو خوشی اور سکون محسوس ہوا کہ بچوں کے دلوں میں بھی اپنے بزرگوں کی محبت کی جڑیں اتنی ہی مضبوط ہیں، جتنی ہمارے دلوں میں ہیں اور اللہ کرے ہمیشہ ایسے ہی رہیں۔ آمین۔

رات کے کھانے میں دال چاول اور فرائی مچھلی تھی، جو خوب ذوق و شوق سے کھایا گیا۔ اس کے ساتھ ہمارے رشتے داروں کے گھر سے ساگ، چاولوں کا آٹا آ چکا تھا جو صبح کے ناشتے کے لیے رکھ دیا گیا۔ گاؤں میں آٹھ بجے بھی لگتا ہے آدھی رات گزر گئی ہے۔ اب سب کی مرضی تھی کہ باہر آگ جلا کر قہوہ پیا جائے۔ میاں صاحب کو کھانے پکانے کا کچھ شوق ہے، انہوں نے جھٹ پیشکش کی کہ میں سوجی کا حلوہ بناؤں گا، ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ ہنسی مذاق میں حلوہ تیار ہو گیا جسے آگ کے پاس بیٹھ کر قہوے کے ساتھ انجوائے کیا گیا۔ رات گئے سب اپنے اپنے بستروں میں دبک گئے۔

صبح جب آنکھ کھلی تو دس بجے تک بھی باہر دھند کا راج تھا۔ فوراً چائے کی طلب ہوئی، جو بھی جاگا ہوا تھا تھا، اس نے چائے نوش کی۔ سب کے اٹھنے تک گیارہ بج چکے تھے۔ ملازموں نے فٹافٹ ناشتہ تیار کیا، جو ساگ، سادہ پراٹھا اور چاول کے آٹے کے پراٹھے پر مشتمل تھا، جس کو جو پسند تھا کھایا اور ساتھ چاٹی کی لسی نے مزہ دوبالا کر دیا۔

ایک پارٹی لاہور سے آ رہی تھی، وہ بھی نکل پڑے تھے اور امید تھی دو بجے تک پہنچ جائیں جائیں گے۔ ہم نے سوچا ان کے آنے تک کچھ گھروں میں مل آتے ہیں، کسی کے گھر کوئی فوتگی ہو گئی تھی تو کسی کے گھر شادی کی مبارکباد دینی تھی، ویسے بھی اگر گاؤں جائیں تو کوشش ہوتی ہے سب کو ملیں۔ ورنہ جونہی لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ سب آئے ہوئے ہیں تو وہ خود ہی ملنے آ جاتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں دو ہی برادریاں زیادہ ہیں، جاٹ اور کشمیری، ہمارے والدین کا شروع سے کشمیری خاندان کے ساتھ زیادہ میل ملاپ تھا، ہر وقت کا آنا جانا رہتا اور کبھی محسوس نہ ہوا کہ یہ دو الگ خاندان ہیں۔ ابھی تک ملنا جلنا ویسا ہی ہے۔ بھلے ہم برسوں بعد ملیں، پیار اور خلوص کی شدت ویسی ہی ہوتی ہے۔

سب سے پہلے ان کے گھر گئے، ان کی بڑی بہن کا کچھ دن پہلے انتقال ہو گیا تھا جس کا ہمیں گاؤں جانے پر ہی پتہ چلا تھا۔ بہت پیار سے ملے، بور پھر ابلے ہوئے انڈوں کے ساتھ پر تکلف چائے پلائی گئی۔ دو تین اور گھروں میں گئے، سب بے انتہا خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ وہ خوشی ان کے چہروں سے عیاں تھی۔ ہمارے اتنی دیر بعد گاؤں آنے پر شکوہ کناں تھے، اور یہ سب کچھ دیکھ کر دل کو ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہو رہا تھا۔

آخر میں اپنے ایک رشتہ داروں کے گھر گئے، جن کا بیٹا چھوٹے بھائی کا بچپن کا دوست ہے۔ اور وہی لوگ ہمیں چاٹی کی لسی، مکھن اور صبح شام دودھ بھیج رہے تھے۔ کوئی گھنٹے بعد وہ بھی بسکٹ، نمکو اور ابلے ہوئے انڈے لے آئے اور ایک دوسرے کی طرف کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ خیر بچوں نے جو ہم سے پہلے ادھر پہنچ چکے تھے، ہمیں مزید انڈے کھانے سے بچا لیا۔ دوسرے دن جب ہم گاؤں سے باہر کسی کے گھر جا رہے تھے، تو ہمارے خاندانی ہر فن مولا ملازم نے پوچھا، کتنی دیر لگے گی، تو میری بہن نے برجستہ کہا جتنی دیر انڈے ابلنے میں لگے گی۔

ہم سب ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو گئے اور واقعی ایسا ہوا۔ جب کوئی پونے گھنٹے بعد چائے آئی تو ساتھ ابلے ہوئے انڈے بھی تھے۔ سردیوں میں ابلے ہوئے انڈوں سے تواضع کرنا گاؤں میں بہت اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اسی دوران لاہور سے باقی لوگ بھی آ چکے تھے۔ گھر واپس آ کر ان کے لیے چائے تیار کی گئی، ویسے وہ بھی ایک گھر سے ابلے انڈوں کے ساتھ چائے پی کے آ چکے تھے۔ خوب ہنسی مذاق ہو رہا تھا، بچے پھر غائب ہو چکے تھے۔ رات کا کھانا مٹن اور دال ماش تیار ہو چکا تھا۔

کھانے سے فارغ ہوئے ہی تھے، کچھ لوگ ملنے چلے آئے، وہ بھی گزرے خوبصورت دنوں کی یادیں تازہ کر رہے تھے۔ اپنے والدین اور ہمارے والدین کے آپس میں گہرے روابط کے قصے محبت سے سنا رہے تھے۔ ہمارے بچپن کی یادوں کو پرت در پرت کھول رہے تھے۔ بس آنکھوں کے سامنے ایک فلم چل رہی تھی اور وہ گزرا ہوا زمانہ دل و دماغ کو تروتازہ کر رہا تھا۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے : زندہ رہنے کے بہانے ڈھونڈیں / آؤ دوست پرانے ڈھونڈیں۔ مرد حضرات باہر لکڑیاں جلا کر بیٹھ گئے اور ہم عورتیں اندر بیٹھ کر گپ شپ کرتی رہیں۔ رات گئے وہ لوگ گھر چلے گئے اور ہم لوگوں نے بستر سنبھال لیے۔ اس طرح یہ دن بھی خوبصورت یادیں سمیٹتے گزر گیا۔

رات کو تاخیر سونے کی وجہ سے صبح سب دیر سے اٹھے، کوئی ساڑھے گیارہ بجے کے قریب ناشتہ آملیٹ، پراٹھے، دال ماش اور اچار کے ساتھ کیا گیا۔ پھر ہم سب بڑے تیار ہو کر امی جان اور ابا جی کو ملنے چل پڑے، بچے صبح ایک چکر لگا چکے تھے اور قبروں کی صفائی کر چکے تھے۔ ہم لوگوں نے جا کر فاتحہ پڑھی اور ادھر ہی بیٹھ گئے، دل کو بہت سکون محسوس ہوا

جن کے جانے سے جان جاتی تھی
ہم نے ان کو بھی جاتے دیکھا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).