وائٹ ہاؤس کا نیا مکین


امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ری پبلی کنزپارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کاکانٹے دار مقابلہ ڈیموکریٹک پارٹی کے جو بائیڈن سے ہوا جس میں ڈیموکریٹس کے امیدوار جو بائیڈن کامیات ہوئے اس طرح 20 جنوری 2021 ء امیریکہ کے وائٹ ہاؤس کا مکین بدل گیا۔ ٹرمپ جس نے چار سال قبل صدارتی امیدوار کے انتخابات میں ڈیموکریٹ کی امیدوار ہیلری کلنٹن کو شکست دے کر امریکہ کے صدر کا تاج اپنے سر سجایا تھا، ڈیموکریٹس نے ٹرمپ سے اپنا بدلہ اچھی طرح لے لیا۔

باوجود اس کے کہ ٹرمپ نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں، خوب واویلا کرتا رہا، ہنگامہ آرائی کی، امیریکیوں کو اکسایا، کالے گورے میں تفریق کی، میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھی، یہاں تک کے کیپٹل ہل پر حملہ بھی کر دیا لیکن اس کاکوئی ایک ہربہ بھی کارگر نہیں ہوا اور 78 سالہ جو بائیڈن نے امریکہ کے 46 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ واشنگٹن میں احتجاج کا دفاع کرنے پر ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک بھی کردیے گئے، جس دن امریکی ایوان جو بائیڈن کو امریکہ کا صدر بنانے کی توثیق کرنے جا رہی تھی ٹرمپ کے اکسائے ہوئے بلوائیوں نے کانگریس پر حملہ کر دیا، ہنگاموں میں چار ہلاک اور درجنوں رخمی ہوئے۔

جو بائیڈ ن نے پارلیمنٹ پر حملے کو جمہوریت پر حملہ اور اس دن کو سیاہ ترین دن قرار دیا۔ ٹرمپ کی کوئی ترکیب کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ جب وقت نئے وائٹ ہاؤس کے نئے مکین جو بائیڈن اور امریکی نائب صدر کمالاہیرس کے حلف اٹھانے کا وقت آیا تو ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس کو بادل ناخواستہ الوداع کہنا ہی پڑا۔ جاتے جاتے کہہ کر گئے کہ ”جلد پھر ملیں گے“ ۔ ا اس جملے سے کیا مراد تھی کیا وہ کوئی ایسا قدم اٹھائے گا جس سے اسے امید ہے کہ جو بائیڈن کی حکومت کو وہ گرا دے گا، یا پھر اس کا یہ بھی خیال ہو سکتا ہے کہ آئندہ چار سال بعد جب صدارت کے انتخابات ہو ں گے تو وہ ری پبلی کنز کی جانب سے صدارت کا امیدوار ہوگا اور امریکہ کا پھر سے صدر بن جائے گا۔ چار سال بعد کیا ہوگا، زندگی کا پتہ نہیں، حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، جو بائیڈن معمر شخص ہیں اپنی زندگی کی 78 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ سیاست داں نہیں تھا۔ اس نے جب ہلری کلنٹن کو شکست دی تھی اس وقت میں نے اپنے ایک کالم میں ہلری کلنٹن اور ٹرمپ کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”ہیلری کلنٹن شائستہ، ملنسار، خوش اطوار، خوش مزاج، خوش خلق، خوش بیان، مؤدب، مہذب، سیاسی سوچ، سیاسی فکر اور سیاسی سمجھ بوجھ کی مالک ہیں، امریکی سیاست اور علمی تعلقات کا ادراک رکھتی ہیں، سیاسی خاندان کی بہو یعنی سابق امریکی صدر کی شریک حیات ہیں، امریکی حکومت میں اہم عہدوں پر خدمات انجام دے چکی ہیں کا مقابلہ امریکہ کے ایک ارب پتی شخص ڈونالڈ ٹرمپ سے ہوا جسے پیسے بنانیکی مشین کہا جاتا ہے ، وہ بزنس کوترقی دینے کے گر تو جانتا ہے لیکن سیاست میں کوراہے، اس کے اثاثوں کی مالیت 3.7 ارب ڈالر بتائی جا رہی ہے، دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں اس کا نمبر 324 واں ہے جب کہ امریکہ میں امارت کے اعتبار سے وہ 156 ویں نمبر پر ہے۔

عادات و اطوار کے اعتبار سے وہ بد تہذیب، بد اطوار، اوچھے پن کا مالک، فحش کلامی کرنے والا، دشنام طراز، دریدہ دہن، کثیف الطبع، کرخت، اجڈ، شیخی خورا اورچھچورا قسم کا انسان ہے، عمر 71 ہو چکی ہے، غیر امریکیوں کو پسند نہیں کرتا حتیٰ کہ اس نے انتخابی مہم کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے گورے اور کالے امریکیوں میں نفرت کی دیوارکھڑی کرنے جیسا حربہ بھی استعمال کر ڈالا، گویا متعصب ذہنیت کا حامل بھی ہے۔ اس کی رائے میں امریکہ میں موجود اقلیتی عوام امریکہ پر بوجھ ہیں اور مسلمان دہشت گرد۔

گزشتہ تین دہائیوں میں وہ 3500 مقدمات میں ملوث ہوا، یہ مقدمات اس کے کاروبار کے حوالے سے ہوئے۔ اس کی آمدنی کا کوئی ٹھکانا نہیں 2015 میں ٹرمپ نے اپنے آپ کو کوئی 38 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا مالک ظاہر کیا۔ ان کی اچھی عادتوں میں ایک اچھی عادت یہ ہے کہ وہ کسی بھی قسم کا نشہ نہیں کرتے۔ نیویارک میں پیدا ہوئے، ٹرمپ کا باپ جرمن اور ماں اسکاٹش تھی، ٹرمپ نے تین شادیاں کیں تینوں کا تعلق شوبیز سے ہے، وہ خود بھی شوبیز کا آدمی ہے، موصوف ٹی وی نیٹ ورک میں پروڈیوسر اور میزبان بھی رہ چکے ہیں۔

تعلیم کوئی خاص نہیں 1968 میں معاشیات میں گریجویشن کیا تھا۔ اپنے والد کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے جانشین ہو گئے۔ ٹرپ کی زندگی کی کہانی میں بہت کھوج لگایا کہ کہیں اس کا تعلق سیاسی معاملات، حکومتی مشینری سے وابستگی، فلاحی اور عوام کی بہتری کے لیے اس کا کوئی کام سامنے آئے لیکن کہیں بھی ایساکچھ نہیں ملا۔ ہیلری کلنٹن ایک پڑھی لکھی، سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، کہنے کوتو ان کے والد بھی بزنس مین تھے۔ Wellesley Collegeسے گریجویشن کیا اور Vale Law Schoolسے J۔

D کی ڈگری حاصل کی، عملی زند گی کا آغاز قانون کے پیشے سے کیا، 1975 میں بل کلنٹن سے شادی ہوئی، وہ 1993 سے 2001 تک امریکہ کی خاتون اول رہیں، اس دوران انہوں نے اپنے شوہر بل کلنٹن کے ساتھ مختلف سیاسی، غیر سیاسی، فلاحی اور صحت و طب کے مختلف کاموں میں عملی حصہ لیا، یہ ان کی سیاسی تربیت کا دور تھا، صدر اوباما صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے ہیلری میں سیاسی سوجھ بوجھ دیکھتے ہوئے انہیں سیکریٹری آف اسٹیٹ کے عہدے کی پیش کش کی جو انہوں نے قبول کر لی اور وہ 2009 سے 2013 تک اس اہم امریکی عہدے پر کام کرتی رہیں۔

اس اعتبار سے ہیلری امریکہ کی سیاست، عالمی سیاست، مسائل اور انتظامی امور میں مہارت کے درجہ پر پہنچ چکی تھیں۔ ہیلری اور ٹرمپ کی شخصیت کاتقابلی موازنہ کرنے کے بعد اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ری پبلکنز پارٹی نے ہیلری کے مقابلے میں ٹرمپ کا انتخاب کیوں کیا؟ سیاست کے میدان میں ہیلری کا ٹرمپ سے کوئی مقابلہ بنتا ہی نہیں۔ اس کے باوجود ری پبلی کنزپارٹی نے ٹرمپ کو اپنا صدارتی امیدوار بنایا، سیاست کے حوالے سے ٹرمپ میں وہ تمام خصوصیات نہیں تھیں جو ہیلری میں تھیں، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ’ری پبلیکنز پارٹی‘ کے پاس ہیلری کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی سیاسی شخصیت نہیں تھی؟

ٹرمپ نے امریکی اور غیر امریکی، کالے اور گورے کی بات کر کے دونوں میں نفرت و تعصب کا بیج بویا۔ مسلمانوں کے خلاف بات کی، امریکہ میں موجود اقلیتوں کے خلاف بات کی، اس قسم کی متعصبانہ فضاء نے گورے امریکیوں کے اندر ایک خاص سوچ پیدا کردی جس کا اظہار ووٹ کے ذریعہ سامنے آ گیا۔ ہیلری کی شکست کی دیگروجوہات کے ساتھ ساتھ اہم وجہ یہی رہی کہ ٹرمپ نے گورے امریکیوں کو اکسایا، دیگر اقوام حتی کے کالے امریکیوں سے نفرت دلائی، مسلمانوں کو خاص کر نشانہ بنایا۔

صدارتی انتخاب کا آغاز ہوا، ری پبلیکنز کی جانب سے جب ٹرمپ کا نام سامنے آیا تو بے شمار لوگ یہ سمجھے کے ٹرمپ مذاق کر رہا ہے کیونکہ اس کا انداز ہی مزاحیہ اور غیر سنجیدگی لیے ہوئے تھا۔ خیال یہی تھا کہ ڈیموکریٹ کی نمائندہ ہیلری کے مقابلے میں ری پبلیکنز پارٹی کسی قابل سیاست دان کو سامنے لائے گئی لیکن ٹرمپ سنجیدہ ہوتا چلا گیا اور ری پبلیکنز نے اسے ہی اپنا نمائندہ نامزد کر دیا۔ دنیا بھر میں حتیٰ کہ امریکہ میں ہیلری کے صدر بننے کی باتیں ہو رہی تھیں، ٹرمپ کا تو کوئی سوچ بھی نہیں رہا تھا۔ میرا یہ کالم 16 نومبر 2016 ء کو منظر عا م پر آیا تھا۔

یہ تو تھا ٹرمپ اور ہیلری کا موازنہ۔ یہاں ٹرمپ کی تمام خصوصیات سامنے آچکیں ہیں۔ چار سالا حکمرانی کو دیکھتے ہوئے بھی ری پبلی کنزنے اس بار بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی اپنا امیدوار بنایا۔ جب کہ ڈیموکریٹس نے جو بائیڈن کا انتخاب کیا۔ اس بار بھی جو بائیڈن ٹرمپ کے مقابلے میں ہر اعتبار سے منجھے ہوئے سیاست دان تھے، پڑھے لکھے تھے، دو بار نائب صدر، تین بار سینیٹر رہ چکے تھے۔ کئی اہم عہدوں پر کام کرچکے تھے۔ دوسری جانب ٹرمپ کے بعض اقدامات نے لوگوں میں ٹرمپ کے لیے مخالفت پیدا کردی خاص طور پر کالوں کے ساتھ ٹرمپ حکومت کا رویہ متعصبانہ تھا۔

مسلمانوں کے ساتھ بھی ٹرمپ کی سوچ مثبت نہ تھی اور بھی کئی عوامل تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کے ٹرمپ نے 232 اور جو بائیڈن نے 306 ووٹ لیے جب کہ جیت کے لیے 270 ووٹ کی ضرورت تھی۔ بائیڈن کی فتح واضح تھی، ٹرمپ گھر چلے گئے اور وائٹ ہاؤس کے نئے مکین جو بائیڈن ٹھہرے۔ جو بائیڈن ایک سمجھدار سیاست دان ہیں لگتا ہے کہ ان کی پالیسیوں میں ٹرمپ دکھائی نہیں دیں گے، انہوں نے اپنی اولین تقریر میں جو دعوے کیے امید کی جانی چاہیے کہ وہ ان پر عمل کریں گے۔ ٹرمپ نے بائیڈ ن کی حلف برداری تقریب میں شرکت نہ کر کے امریکہ کی ڈیڑھ سالہ تاریخ میں نئی روایت قائم کی۔ ( 22 جنوری 2021 ء)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).