مفتی عبدالقوی معصوم نہیں، ”انتہائی معصوم‘‘ ہیں


نشتر ہسپتال ملتان کے عقب میں نشتر روڈ پر پرانی طرز کے کچھ کوارٹرز ہیں جن کے مالک مفتی عبدالقوی تھے۔ یہ سال 2003 کا واقعہ ہے۔ میں ملتان میں ایک قومی روزنامے میں بطور رپورٹر فرائض سرانجام دے رہا تھا ایک روز اطلاع موصول ہوئی کہ ان کوارٹرز میں جھگڑا ہو رہا ہے۔ میں فوٹو گرافر کے ہمراہ موقع پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ کوارٹرز کی رہائشی خاتون نے ایک شخص کو کمرے میں بند کر رکھا ہے اس خاتون کا دعوی تھا کہ کمرے میں بند شخص مفتی عبدالقوی کا منشی ہے جو اس کی بچیوں سے زیادتی کرنے آیا تھا۔

خاتون نے اپنا نام سائرہ نسیم بتایا جو کہ سائرہ نسیم عرف ٹھنڈی ہوا کے نام سے بھی مشہور تھی۔ اس خاتون نے بتایا کہ اس کا کاروبار جسم فروشی ہے اور وہ طویل عرصہ سے اس کوارٹر میں رہائش پذیر ہے‘ خاتون نے یہ بھی بتایا کہ مفتی عبدالقوی کے ان کوارٹرز کے رہائشی بیشتر افراد جسم فروش ہی ہیں اور اس امر کی تصدیق موقع پر موجود مکینوں نے بھی کی کہ وہ جسم فروشی کے کاروبار سے منسلک ہیں اور عرصہ دراز سے ان کوارٹرز میں رہائش پذیر ہیں۔ خاتون سائرہ نسیم کو جب علم ہوا کہ ہمارا تعلق اخبار سے ہے تو اس نے اور بھی سنگین نوعیت کے الزامات لگانے شروع کردیے‘ خاتون کا کہنا تھا کہ منشی کے ذریعے انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کرایہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب کو خوش کرنے کا بندوبست بھی کریں اس کے ثبوت کے طور پر اس خاتون نے کمرے میں بند منشی کو ہمارے سامنے لا کھڑا کیا۔

خاتون کا کہنا تھا کہ منشی اس کے پاس آئی ہوئی بچیوں سے زیادتی کی کوشش کر رہا تھا جب میں موقع پر پہنچی تو یہ الٹی شلوار پہن کے باہر بھاگ آیا۔ میں نے لوگوں کی مدد سے اسے پکڑ کر اس کے ہاتھ باندھے اور اسے کمرے میں بند کر دیا ہے‘ اس بارے میں منشی سے جب استفسار کیا گیا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ منشی کا موقف تھا کہ وہ کرایہ وصولی کے لئے آیا تھا مگر اسے پکڑ کر زبردستی کمرے میں بند کر دیا گیا ہے‘ اس دوران خاتون سائرہ نسیم نے منشی سے جب اس کی پہنی ہوئی الٹی شلوار کے بارے میں پوچھا تو وہ اس بارے میں کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔

یہ خبر میرے لئے حیران کن تھی کہ ایک خاتون از خود یہ کہہ رہی ہے کہ وہ جسم فروش ہے اور اس کی خبر شائع کی جائے‘ دستیاب حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے مکمل جانچ پڑتال کے بعد میں نے دفتر آ کر خبر فائل کردی۔ خبر میں سائرہ نسیم نے جو کچھ کہا تھا ہو بہو لکھا گیا جبکہ مفتی عبدالقوی کے منشی کا موقف بھی من و عن بیان کیا گیا تھا‘ اگلے روز اخبار میں یہ خبر نمایاں طور پر اس سرخی کے ساتھ شائع ہوئی کہ ”مفتی عبدالقوی کے کرایہ دار جسم فروش نکلے“ خبر کی ذیلی سرخوں میں درج تھا کہ سائرہ نسیم اور کوارٹرز کے دیگر مکینوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ جسم فروشی کے کاروبار سے منسلک ہیں اور مفتی عبدالقوی کا منشی ان سے ناجائز تقاضے کرتا ہے۔

خبر کا شائع ہونا ہی تھا کہ ہلچل مچ گئی۔ دفتر پہنچتے ہی کئی سینئر ساتھیوں نے مجھے کہا کہ بھائی خبر فائل کرنے سے پہلے تم مشورہ تو کر لیتے، تمہیں معلوم نہیں کہ ہے کہ مفتی عبدالقوی کون ہے۔ اور مجھے یہ کہنے میں قطعاً عار محسوس نہیں ہوتی کہ اس وقت مجھے حقیقت میں علم نہیں تھا کہ مفتی عبدالقوی کون ہے‘ سمجھ لیں کہ یہ صحافت میں انٹری کے میرے ابتدائی دن تھے۔ اگر مجھے مفتی عبدالقوی کے قد کاٹھ اور اثر و رسوخ کے بارے میں پتہ ہوتا تو میں شاید یہ خبر کسی اور انداز میں فائل کرتا‘ بہر صورت سارا دن دفتر میں کالوں کا سلسلہ چلتا رہا جن کے ذریعے مفتی صاحب کا نام خبر میں آنے میں اعتراض کیا جاتا رہا۔

حالات و واقعات سے مجھے عمل ہو گیا تھا خبر کے حوالے سے شام کو پیشی ضرور ہو گی اور پھروہی ہوا شام کے وقت مفتی صاحب کئی اور ”شرفاء“ کے ہمراہ دفتر تشریف لے آئے‘ مفتی صاحب اور ان کے رفقا کو دیکھ کر دفتر میں ہنگامی میٹنگ کال کی گئی جس میں مجھے مفتی صاحب کے سامنے خبر کے حوالے سے حقائق بلکہ کسی حد تک صفائی پیش کرنے کا کہا گیا۔ میں نے مفتی صاحب کو بتایا کہ ’جناب والا! میں نے موقع پر جو دیکھا ہے خبر میں وہی بیان کیا گیا ہے۔ کوئی ایک لفظ بھی اپنے طرف سے نہیں ڈالا گیا۔ خاتون سائرہ نسیم کا بیان، آپ منشی کی تصاویر اور موقع پر موجود افراد کی باتیں ثبوت کے طور پر موجود ہیں اگر آپ دیکھنا چاہیے تو دیکھ سکتے ہیں‘۔

مفتی صاحب اور ان کے رفقاء جو کہ پہلے خاصے طیش میں نظر آ رہے تھے میرا موقف سننے کے بعد قدرے دھیمے پڑ گئے ’تیز و تند باتوں‘ وضاحتوں دلیلوں کے بعد مفتی صاحب نے عینک میں سے دیکھتے ہوئے کہا ’میاں لگتا ہے تم نئے آئے ہو۔ ہمیں نہیں جانتے‘ میں نے برملا کہا حضور آپ درست فرما رہے ہیں میں نیا آیا ہو اور یہ میرے بدنصیبی ہے کہ مجھے آپ کی شخصیت سے پوری طرح آگہی نہیں ہے۔ اس پر مفتی صاحب نے نہایت دھیمے مزاج میں کہا کہ میاں اچھا ہوتا آپ کسی سے پوچھ لیتے‘ چلو ہماری تو خیر ہے آپ نے تو دیگر ”شرفا“ کا بھی لحاظ نہیں کیا اور انہیں جسم فروش لکھ دیا یہ تو اچھی بات نہیں ہے۔ یہ بات کرتے ہوئے مفتی صاحب کی تمام تر معصومیت ان کے چہرے پر آ گئی۔ مفتی عبدالقوی یہ بات کرتے ہوئے مجھے ایک ایسے معصوم شخص لگ رہے تھے جنہیں اپنی نہیں دوسروں کی عزت کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔

یہ واقعہ ذہن کے کسی گوشے میں محو ہو چکا تھا مگر حریم شاہ کے تھپڑ نے مفتی عبدالقوی کی یادیں پھر سے تازہ کر دی ہیں حریم شاہ ہر چینل پر اپنے تھپڑ کو جائز قرار دینے اور مفتی صاحب کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے جبکہ مفتی صاحب جواب میں یہی کہتے نظر آرہے ہیں کہ حریم شاہ نے جو کیا غلط کیا ہے، تاہم پھر بھی اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو میں اس کے لئے معافی کا طلب گار ہوں۔ سچی بات ہے کہ مفتی عبد القوی معصوم نہیں، انتہائی معصوم ہیں۔ ایسے معصوم کہ اب بھی انہیں اپنی نہیں، حریم شاہ کی عزت کی زیادہ فکر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).