پاکستان پر مسلط ہونے والی اشرافیہ کی کہانی (آخری قسط)



اب ہم سیاسی جماعتوں کے کردار اور اس کے طریق کار کو زیربحث لاتے ہیں۔ انگریز دور میں جیسا کہ ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ کس طرح انگریزوں نے اپنے وفاداروں میں بڑی بڑی جاگیریں تقسیم کیں جو کہ مغلوں کے برعکس موروثی طرز پر استوار کی گئیں تھیں جبکہ نہری نظام متعارف کروا کر ہندوستانی معاشرے کو خالص جاگیرداری طرز پر استوار کیا گیا۔ ان جاگیرداروں کو بھاری بھرکم خطابات سے نوازا گیا اور انہوں نے انگریزوں کے پروردہ اور مصاحبین کی شکل اختیار کر لی جن کے ذریعے انگریزوں نے اپنی وسیع سلطنت کو انتہائی کامیابی سے چلایا۔

اسی دور میں ہندوستان میں سیاسی پارٹیاں وجود میں لائیں گئیں جن میں بڑی تو ایک انڈین نیشنل کانگریس تھی اور دوسری مسلم لیگ تھی۔ یہ دونوں جماعتیں کسی بھی صورت میں کوئی انقلابی جماعتیں نہیں تھیں بلکہ انگریز کے دیے گئے نظام کہ اندر ہی کام کرنے کی متمنی تھیں۔ کانگریس چونکہ سیاسی نظام کا زیادہ تر حصہ رہی اس لیے اس کے اندر بڑے طبقات کے علاوہ مڈل کلاس کی بھی ترجمانی رہی لیکن بالکل نچلا طبقہ اس کی لیڈرشپ میں کبھی نہیں آیا بلکہ وہ صرف کارکنان کی حد تک رہے جبکہ مسلم لیگ تو تھی ہی نوابان کی جماعت لیکن جب جناح صاحب نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تو اس جماعت میں اپر مڈل کلاس کے لیے بھی دروازے کھلے لیکن نچلے درمیانے طبقے یعنی لوئر مڈل کلاس اور نچلے طبقے کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی جناح صاحب کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ پوری مسلم لیگ ان کے اردگرد ہی گھومتی رہی اور کبھی بھی ایک حقیقی عوامی سیاسی جماعت کے طور پر نہ تو اس کی تنظیم بن سکی اور نہ ہی اس کا اسٹرکچر بن سکا۔

یہ دونوں جماعتیں مکمل طور پر قوم پرستی کا شکار تھیں کانگریس علاقائی قوم پرستی کی ترجمان تھی تو مسلم لیگ مذہبی قوم پرستی کا شکار تھی لیکن دونوں موجودہ نظام کو برقرار رکھنے پر متفق تھیں کسی بھی جماعت نے کبھی بھی کسی متبادل نظام کی بات نہیں کی صرف بھگت سنگھ نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا گورے انگریز کے جانے کے بعد کالے انگریز ہم پر حکمرانی کریں گے اور اگر ایسا ہے تو پھر یہ آزادی بے کار ہے۔ اس کے بعد جہازیوں کی بغاوت نے انگریز حکمرانوں کو خبردار کیا بھگت سنگھ کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کر کے تو پہلے ہی پھانسی دے دی گئی تھی (بدقسمتی سے یہ دونوں ابواب ہماری مطالعہ پاکستان سے حذف شدہ ہیں ) اور یہ سب کچھ اسی بیوروکریٹک نظام کے تحت ہی ہوا تھا جس کا اوپر تذکرہ ہو چکا ہے۔

وہ ہندوستان جس کے بارے میں سرکار انگلشیہ یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ آزادی 1948 ء میں ہو گی وہ 1947 ء میں نہایت عجلت میں دی گئی تاکہ کہیں یہ بیانیہ زور نہ پکڑ لے اورعوام خود اپنے مستقبل کے فیصلے کرنے نہ شروع کر دے۔ یاد رہے کہ بھگت سنگھ کی پھانسی پر ان دونوں جماعتوں کی طرف سے کوئی احتجاجی کال نہیں آئی تھی کیونکہ سیاست کو عوام تک لے کر جانا قطعی طور پر ناقابل قبول تھا اور سیاست و سیاسی فیصلے صرف ڈرائینگ روموں میں ہی ہونے تھے اور عوام نے صرف ان کے حق میں نعرے ہی مارنے تھے۔

پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ اپنی نامکمل تنظیم کے ساتھ حکومت میں آئی جس کو اس سے پیشتر حکومت سازی کا قطعی کوئی تجربہ نہیں تھا اس لیے عملاً حکومت بیوروکریٹوں نے چلانی شروع کر دی جبکہ ہندوستان میں کانگریس کو اس سے پہلے حکومت کا تجربہ تھا اس لیے انہوں نے بیوروکریسی کو بہت حد تک اپنے تابع رکھا۔ کانگریس میں نہرو خاندان چھایا ہوا تھا اور مسلم لیگ میں قائداعظم مکمل طور پر حاوی تھے۔ نہرو کی موت کے بعد اس کی بیٹی اندرا گاندھی اقتدار میں آئی اور اسنے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے سنجے کو اپنے جانشین کے طور پر تیار کرنا شروع کیا لیکن اس کی ناگہانی موت کے بعد اپنے دوسرے بیٹے راجیو گاندھی جو سیاست میں آنا نہیں چاہتے تھے اپنی ماں کے قتل کے بعد نہ صرف کانگریس کے سربراہ بنے بلکہ ہندوستان کے وزیراعظم بھی بنے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ راجیو کے قتل کے بعد اس کی اطالوی بیوی کانگریس کی سربراہ بنی اور اجکل راجیو گاندھی کا بیٹا کانگریس کا سربراہ ہے۔ یہ اس جماعت میں موروثیت کی کہانی ہے جس کی ایک تاریخ، تنظیم اور سیاسی و حکومتی تجربہ موجود تھا چہ جایکہ ہم پاکستان کی نام نہاد سیاسی جماعتوں سے امید لگا کر بیٹھے ہیں کہ یہاں موروثیت کا خاتمہ ہو جائے۔

پاکستان میں قائداعظم کے بعد تو مسلم لیگ میں نوابان کا کنٹرول تھا یہ وہ لوگ تھے جن کو انگریزوں نے بڑی بڑی جاگیروں سے نوازا ہوا تھا اور ان لوگوں کو کسی بھی قسم کا حکومتی تجربہ نہیں تھا اور جو مکمل طور پر انگوٹھا چھاپ تھے۔ اس صورتحال کو پاکستانی بیوروکریسی اور فوج نے بہترین طور پر اپنے حق میں استعمال کیا۔ 1947 ء میں جب پاکستان وجود میں آیا تو یہ شروع ہی سے محلاتی سازشوں کا شکار رہا۔ قایداعظم کی ایمبولینس کا پٹرول ختم ہونے سے لے کر لیاقت علی خان کے قتل تک اور پھر ان کے قاتل کی موت سے لے کر شواہد کے خاتمے تک کے تمام پراسرار واقعات اور پھر آنے والے دنوں میں جو کچھ فاطمہ جناح کے ساتھ ہوا یہ تمام بہرحال کسی طرف اشارہ تو ضرور کرتے ہیں۔

لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد تو بیوروکریسی مکمل طور پر سیاست میں آ گئی اس لیے بھی کہ لیاقت علی کے بعد مسلم لیگ میں کوئی لیڈرشپ موجود ہی نہیں تھی اور اس کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ بھی موجود نہیں تھا اور نہ ہی ان کا عوام سے کوئی براہ راست تنظیمی تعلق تھا کیونکہ وہ سب تو جاگیردار تھے جبکہ سیاست دان تو تھے ہی نہیں اور عوام تو ان کی رعایا تھی۔ غلام محمد، چوہدری محمد علی وغیرہ کا تعلق بیوروکریسی سے تھا پھر سکندر مرزا تشریف لائے جن کا تعلق بیوروکریسی سے بھی تھا اور فوج سے بھی تھا وہ اقتدار میں آئے اورپہلی دفعہ حاضر سروس جنرل کو وزارت بخشی گئی اور فوج پہلی بار بنفس نفیس براہ راست خود سیاست میں آئی پھر سکندر مرزا کا تختہ الٹ کرمسند اقتدار سنبھال لیا۔

ایوب خان نے آتے ہی اصلاحات کے نام پر عوام کو لالی پاپ دیا اور اس کی آڑ میں اپنے اقتدار کو طول دینے کا کھیل شروع کیا۔ سب سے پہلے تو اعلان آیا کہ عوام کو جمہوریت کا بالکل شعورنہیں ہے حلانکہ اس وقت تک کبھی عام انتخابات ہی نہیں ہوئے تھے کہ عوام کے شعور کا اندازہ ہوتا بہرحال ایک نئی چیز بنیادی جمہوریت کے نام پر متعارف کروائی گئی اور پہلے سے موجود سیاست دانوں کو کرپشن کے الزامات میں سیاست سے نا اہل قرار دیا گیا اور نئے سیاست دان متعارف کروائے گئے جوپہلے کی طرح عوامی بالکل نہیں تھے بلکہ وہ اسی اشرافیہ کا ہی حصہ تھے۔

ان تمام مراحل میں جمہور بالکل شامل نہیں تھی اور یہ سب ایوان کے بالا خانوں میں جمہوریت کے نام پر ہو رہا تھا۔ ایوب خان کی معاشی اصلاحات کے نام پر بائیس خاندانوں کو مسلط کیا گیاجنہوں نے معاشی ترقی کے نام پر عوام کا خون نچوڑ لیا اور اس کا ردعمل یہ ہوا کہ پہلی بار عوام نے پرزور احتجاج کیا اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے مغربی پاکستان میں سوشلسٹ نظریات پر ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان نے قومی جمہوری بنیادوں پر عوامی حمایت حاصل کی۔

جنرل یحییٰ خان نے یہ حالات دیکھتے ہوئے ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹا اور اقتدار میں آ کر پہلی بار ملک میں عام انتخابات کا وعدہ کیا۔ عوام خوش تھی کہ شاید اب ان کی جان ان سازشوں سے چھوٹ جائے اور وہ خود مسند اقتدار پر براجمان ہوں جیسا کہ جمہوریت میں گمان ہے کہ ایسا ہوتا ہے لیکن عام انتخابات کے نتیجہ کی برعکس اقتدار فاتح جماعت جو کہ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ تھی کو نہیں دیا بلکہ جب ذوالفقار علی بھٹو ڈھاکہ میں شیخ مجیب کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے تو مشرقی پاکستان میں یحییٰ خان نے فوجی آپریشن کا حکم دے دیا۔

جب جمہوریت میں عوامی منشاء کو اہمیت نہ دی جائے تو اس کے نتائج بڑے بھیانک نکلتے ہیں اور پھر وہی ہوا یعنی کہ جن اداروں کی تربیت عوام میں اٹھنے والی لہر کوختم کرنے کی تھی انہوں نے ان کی حفاظت کرنے کے بجائے پوری سختی کے ساتھ اس کو کچلا تو پھر وہاں کی عوام نے اپنے فیصلہ کی توثیق کی اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا دنیا کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے جب اکثریت اقلیت سے الگ ہوئی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے باقیماندہ پاکستان میں اپنے منشور کے مطابق کسی حد تک اس کا نفاذ کیا جیسا کہ انہوں نے فیکٹریاں، کارخانے اور بینک تو قامیائے لیکن روس اور چین کی نقل کرتے ہوئے ان کو بیوروکریسی کے حوالے کر دیا گیا جو کہ سوشلزم اور مارکس کے نقطہ نظر سے بالکل متصادم تھا کیونکہ مارکس نے کہا تھا کہ سوشلزم میں یہ فیکٹریاں اور کارخانے وہاں کے کام کرنے والوں کے جمہوری کنٹرول میں ہوں گے اور اس کا نتیجہ ان فیکٹریوں کی مکمل ابتری کی صورت میں برآمد ہوا کیونکہ نا اہل بیوروکریسی چیزوں کو بہتر کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی اور یہ سب ہم اوپر زیر بحث لا چکے ہیں۔

اس میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں سوشلزم کی ناکامی کو اس بات سے تعبیرکیا جاتا ہے کہ ریاست کارخانے چلانے میں ناکام رہی ہے جو کہ اس کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے حالانکہ مارکس اس بات کا دعویدار تھا کہ ریاستی ڈھانچہ ختم ہو گا اور بیوروکریسی کی جگہ پر عوام چارج لے لیں گے جس سے نا اہلی کا خاتمہ ہوگا جو کہ بدقسمتی سے دنیا بھر میں ان نام نہاد سوشلسٹ ممالک نے سوشلزم کے نام پر اس کے بالکل برخلاف کیا۔

بھٹو صاحب نے بہرحال نظام کو نہیں چھیڑا۔ بیوروکریسی کو قومیائے گئے اداروں پر بیٹھا کر ان کو بلکہ مضبوط ہی کیا جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں پر بالکل ہی ہاتھ نہیں ڈالا اور شکست خوردہ فوج پر حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کے برعکس ان پر جنگی جرائم کے مقدمات نہیں بنائے گئے بلکہ۔ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے جیسے جنگی جنون والی باتوں سے ان کو مضبوط ہی کیا۔ اس کے علاوہ سیاسی مخالفین کو پولیس اور ایجنسیوں کے ذریعے دلائی کیمپوں میں ڈالا گیا پھر بلوچستان میں فوجی آپریشن کیا گیا۔

کیا یہ آپریشن بلوچ عوام کے حق کے لئے تھا؟ 1977 ء کے انتخابات میں تو بھٹو صاحب نے 70 ءکے برعکس ٹکٹیں عوام کو دینے کے بجائے وڈیروں اور اشرافیہ میں تقسیم کیں ان تمام اقدامات سے پرانے بوسیدہ نظام کو تقویت ملی اور اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوئی جس نے مضبوط ہو کر بالآخر خود بھٹو صاحب ہی کے گریبان میں ہاتھ ڈالا اور ان کی گردن پکڑ لی۔

ضیا الحق کا دور بھٹو دور حکومت کی مکمل ضد تھا جیسا کہ پاکستانی قوم پرستی کے بجائے مذہب پرستی، نیشنلائزیشن کے بجائے پرائیویٹائزیشن، پارلیمنٹ کے بجائے مجلس شوراء عوام کی مرضی اور منشاء کے بجائے جبراً ان پر مسلط کی گئی۔ سیاست میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا انعقاد اور سب سے بڑھ کر ذوالفقارعلی بھٹو جیسے سندھی وڈیرے کے مقابلے پر نواز شریف جیسا پنجابی صنعت کار کو سیاست کے میدان میں اتارا گیا۔ ایک شخص کے اردگرد پوری سیاسی جماعت تشکیل دی گئی صرف اس کی ذات کے وفاداروں کو بیوروکریسی میں کلیدی عہدے دیے گئے ہر حلقہ انتخاب میں وہاں کے ہر گھر سے کم از کم ایک شخص کو واپڈا، واسا، پولیس اور ایل ڈی اے میں نوکری ضرور دی گئی جس سے معاشرے میں بگاڑ اور سیاست مزید کرپٹ ہوئی اور ذاتی مفاد قومی مفاد سے بالاتر ہوا۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ غیر جماعتی انتخابات نے ذات برادری کو جو 1970 ء کے انتخابات میں بہت کمزور ہو گئے تھے ان کو دوبارہ پھر سے مضبوط کیا گیا۔ ان تمام اقدامات سے قومی مفاد پس پشت چلا گیا دولت اور ذاتی مفاد آگے آ گیا جس نے معاشرے کی سیاسی اور سماجی اقدار کی چولیں ہلا کر رکھدیں۔

پرائیویٹائزیشن سے اب حکمران طبقے میں ایک اور عنصر شامل ہو گیا اور وہ کاروباری طبقہ تھا۔ یہ وہ غیر فطری کاروباری طبقہ تھا جو مغربی ممالک کی طرح اپنی محنت سے آگے نہیں آیا تھا بلکہ سرکاری فیکٹریوں اور کارخانوں کو خرید کر اس نے دنوں میں اپنی دولت میں انتہائی ہوشربا اضافہ کر لیا اس سے معاشرے میں راتوں رات امیر ہونے کے رجحان نے تقویت پکڑی اس سے پہلے افغان جنگ کی وجہ سے منشیات جیسے ہیروین وغیرہ ہے اس کی وجہ سے بھی ملک میں راتوں رات امیر ہونے کی مثال تو موجود ہی تھی۔

جلد امیر ہونے کی روش کی وجہ سے پیداواری صنعت پیچھے کی طرف گئی اور غیر پیداواری صنعت میں اضافہ ہوا جیسے موٹر گاڑیوں کی بلیک جسے on کا نام دیا گیا اسی طرح انعامی بانڈز کی بلیک پھر اجناس کی ذخیرہ اندوزی، اسٹاک مارکیٹ کی سٹہ بازی کے ساتھ ساتھ مختلف اشیاء کی درآمدات کا ایک نیا کاروبار شروع ہوا جس سے امپورٹ لائسنس کے حصول نے ایم این اے حضرات کو بغیر کسی محنت کے مزید امیر کرنا شروع کر دیا۔ اب ایم این اے اور ایم پی اے بننا ایک انتہائی منافع بخش رجحان بن گیا۔

اس کے بعد نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی وجہ سے زمینوں کی خریدوفروخت تو تابوت کا آخری کیل ثابت ہوئی اور تقریباً پورا ملک ہی پراپرٹی ڈیلر بن گیا جس کے ساتھ ہی ایک سہل قسم کے دولت مندوں کا گروپ وجود میں آ گیا اور اس نے نہ صرف سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا بلکہ اسمبلیوں کے ممبران کو اسپانسر بھی کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے بڑے بڑے سرکاری افسران کو درپردہ اپنے ساتھ کاروبار میں شریک کر کے خوب کاروباری مراعات حاصل کیں اور فوج جو پہلے ہی بہت طاقتور تھی اور ملک کو درحقیقت اپنے تابع کیا ہوا تھا اسنے اس تمام صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ فوج نے نہ صرف ذاتی کاروبار شروع کیے بلکہ بحیثیت ایک محکمہ کے اپنی ایک کاروباری ایمپائرکھڑی کر دئی۔

اسکے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا ظلم اور بھی ہوا اور وہ یہ کہ تعلیم کو بہت گہرا طبقاتی بنایا گیا گو کہ عام سرکاری اسکول اور مشنری و پبلک اسکول تو پہلے ہی سے موجود تھے اب او لیول اور اے لیول اسکولوں کے آ جانے سے ایک بہت بڑی طبقاتی تقسیم وجود میں آ گئی اور وہ یہ تھی کہ اب تمام بیوروکریسی اور تمام کلیدی عہدوں پر صرف یہاں کے فارغ التحصیل ہی فائز ہوں گے جبکہ دیگر تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل ان کے معاون اور کلرک ہی ہوں گے ۔

ان اسکولوں اور کالجوں کو اچھے تعلیمی ادارے کہا جانے لگا کیونکہ یہ مہنگے بھی بہت تھے اور ان کا سلیبس بھی بالکل غیر ملکی تھا۔ اسی طرح اچھے اسپتال وجود میں آئے جو نجی ملکیت میں تھے اور مہنگے بھی بہت تھے۔ اب صحت، تعلیم غرض ہر چیز کاروبار بن گئی اور منافع کی بالائی حد ختم ہو گئی جس سے ملک میں پیسے اور دولت کی اہمیت بہت بڑھ گئی جس سے نہ چاہتے ہوئے بھی کرپشن میں اضافہ ہوا۔ آج اگر آپ غور سے دیکھیں تو اپکو تمام کلیدی عہدوں، بیوروکریسی، عدلیہ اور میڈیا میں اینکرز سے لے کر نام نہاد دانشوروں اور تجزیہ نگاروں تک آپ کو صرف اپر مڈل کلاس کے بے شعور لوگ ہی نظر آینگے جن کوعام آدمی کے مسائل کا ادراک ہی نہیں ہے اور ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور شرکاء کی سب سے بڑی خوبی ان کی بدتمیزی اور لاحاصل گفتگو ہوتی ہے۔

سیاست، سماج اور معیشت آپس میں گتھی ہوتی ہے اور اس کو چلانے والی چیز آلات پیداوار ہوتے ہیں جو معیشت کو بدلتی ہے اور اس کی بدولت ہی سماج اور سیاست بدلتی ہے۔ وڈیرہ شاہی پورے معاشرے کی سوچ پر اثر انداز ہوتی ہے اور وہ شخص جس کا کوئی تعلق زمینداری سے نہ بھی ہو پھر بھی اس پر اس کی چھاپ موجود ہوتی ہے۔ اس لیے جب صنعتی نظام آیا تو اسنے سب سے پہلے زمینداری کا ہی خاتمہ کیا کیونکہ اس کے بغیر صنعت تو شاید لگ جاتی مگر صنعتی سوچ جو عقل، دلیل، سائنس اور مادیت پر مبنی ہوتی ہے کبھی پروان نہ چڑھتی جس سے ان کا سماج آگے کو بڑھا اور بے پناہ ایجادات نے لوگوں کی زندگیاں ہی بدل کر رکھ دیں اور اس کے ساتھ ہی سیاست بھی تبدیل ہوتی گئی۔

جبکہ ایسا کچھ بھی یہاں نہیں ہوا جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ انگریز سرکار بلکہ تمام سامراجی ممالک کی بھی یہی پالیسی تھی کہ ان کے ماتحت ممالک ان کی صارف منڈیاں بنیں جس کے لیے انہوں نے یہ موجودہ نظام مرتب کیا اور جسے ہم آج تک سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ اس کے تحت چاہے کوئی بھی سول حکومت ہو، ٹیکنوکریٹ ہوں یا کوئی فوجی ڈکٹیٹر ہو کبھی بھی کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔ یاد رہے جب تک کہ معاشی نظام تبدیل نہ ہو جو سماجی نظام بدلتا ہے اور جو بالآخر سیاسی نظام کو بھی تبدیل کرتا ہی اور اس کو بدلے بغیر اگر کسی قسم کی سیاسی تبدیلی کی جائے تو وہ کبھی بھی دیرپا ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر کسی بھی معاشرے میں سیاسی، سماجی اور معاشی نظام آپس میں مربوط نہ ہوں تو یہ آپس میں ٹکرا خود ہی تباہ ہو جاتے ہیں۔

اس لیے 1947 سے اب تک ہم اپنے تمام تر تبدیلی کے نعروں کے باوجود کچھ بھی تبدیل نہ کر سکے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بنیاد کو نہیں بدل سکے۔ مولانا روم اپنی ایک مثنوئی میں فرماتے ہیں کی اگر کسی پرانی جگہ میں ہمیں خود کو آباد کرنا ہو تو لازم ہے کہ اس کی بنیاد میں جو اینٹ ہے آسکو نئے سرے سے رکھا جائے اور اس نئے سرے کو ہم انتخابات اور نئے چہروں میں تلاش کرتے ہیں جبکہ یہ کبھی بھی انتخابات سے ممکن ہی نہیں ہے اور اس تبدیلی کو صرف اور صرف عوامی انقلابات سے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).