امریکی اشارے اور پاکستان کے ارادے


وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے لئے نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی نامزد کردہ دونوں شخصیات نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ سینیٹ میں انٹرویو کے دوران نامزد وزیر دفاع جنرل لائڈ آسٹن اور نامزد وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے افغان امن معاہدہ کے علاوہ علاقے میں دہشت گرد گروہوں پر قابو پانے کے لئے پاکستان کی اہمیت پر زور دیا۔

جنرل لائڈ آسٹن نے جنوبی ایشیا میں حکمت عملی کے متعلق سینیٹ پوچھ گچھ کے دوران سوالوں کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دفاعی مراسم بحال کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’پاکستان ایک خود مختار ملک ہے تاہم اس کی فوج کے ساتھ مراسم استوار کر کے امریکہ افغانستان میں قیام امن کے علاوہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائیوں کو بھی موثر بنا سکتا ہے۔ پاکستانی فوج کے ساتھ تعلقات کے ذریعے امریکہ اور پاکستان باہمی دلچسپی کے بعض اہم شعبوں میں تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں۔ میں ایسی علاقائی پالیسی پر عمل کرنا چاہوں گا جس میں افغانستان کا پاکستان جیسا ہمسایہ قیام امن میں کردار ادا کرے اور امن کی راہ میں روڑے اٹکانے والے عناصر کی حوصلہ شکنی ہو سکے‘ ۔

نامزد امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کی درخواست پر افغان امن عمل میں تعمیری کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے خلاف سرگرم دہشت گرد گروہ مثلاً لشکر طیبہ اور جیش محمد کے خلاف بھی اقدامات کیے ہیں۔ اگرچہ یہ کام ابھی نامکمل ہے۔ انہوں نے سینیٹ کمیٹی پر واضح کیا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات استور کرنا اور اعتماد کی فضا پیدا کرنا بے حد اہم ہے۔ اسی طرح علاقے میں امریکی مفادات کا تحفظ ہو سکے گا اور دہشت گردی کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی امید کی جاسکے گی۔

اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے نامزد وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے بھی پاکستان کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’ہم افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس لئے ہمیں افغانستان میں کسی نہ کسی قسم کی فوجی موجودگی یقینی بنانا ہوگی۔ تاکہ اس ملک میں دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ منظم ہونے سے روکا جاسکے۔ ہمیں طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر از سر نو غور کرنا ہوگا تاکہ دیکھا جاسکے کہ کن پہلوؤں پر اتفاق کیا گیا ہے اور کس پہلو سے بہتری لائی جا سکتی ہے‘ ۔ البتہ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ قابل عمل نہیں ہو سکتا جس میں افغان خواتین ان حقوق سے محروم کردی جائیں جو بمشکل انہوں نے حاصل کیے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن اور اس علاقے سے امریکی مفادات کو لاحق خطروں کے حوالے سے صدر جو بائیڈن بھی انتخابی مہم کے دوران ایک مباحثہ میں کہہ چکے ہیں کہ ’افغانستان سے امریکہ پر دہشت گرد حملوں کی روک تھام کے لئے فوجی اڈوں کی ضرورت ہوگی۔ اس سلسلہ میں پاکستان سے تعاون کے لئے کہا جاسکتا ہے‘ ۔

امریکہ کی نئی حکومت کے اہم ترین نمائندوں کی طرف سے آنے والے ان اشاروں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت صدر بائیڈن اور ان کے ساتھیوں کی پوری توجہ امریکہ میں پیدا ہونے والے انتشار پر قابو پانے اور کورونا سے ہونے والی تباہ کاری سے نمٹنے کی طرف مبذول ہے۔ البتہ دنیا کی بڑی طاقت ہونے کے ناتے کوئی بھی امریکی حکومت عالمی سطح پر اپنے مفادات اور علاقائی ساتھیوں کے ساتھ تعلقات کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ اس حوالے سے افغان امن معاہدہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرح بائیڈن انتظامیہ کی توجہ کا اہم ترین نکتہ ہوگا۔ تاہم یہ دونوں حکومتیں انسانی حقوق کے معاملات کو مختلف طریقے سے دیکھتی ہیں۔ ٹرمپ حکومت نے طالبان سے معاہدہ کرتے ہوئے خواتین کے حقوق اور فوری جنگ بندی پر زور دینا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ البتہ بائیڈن کے نامزدگان ان دونوں پہلوؤں کو اہم قرار دیتے ہیں۔

نامزد وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے خاص طور سے اس پہلو پر زور دیا ہے۔ ایک طرف وہ افغانستان میں مکمل جنگ بندی کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف افغان خواتین کے حقوق پر بظاہر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اسی لئے بائیڈن انتظامیہ افغان امن معاہدہ کو تسلیم کرنے کے باوجود اس پر نظر ثانی کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس حوالے سے چونکہ بعض ایسے معاملات پر دو ٹوک بات کی جائے گی جو طالبان کے لئے بھی اصولی مسئلہ ہیں، اس لئے مذاکرات کا اگلا دور زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہو سکتا ہے۔ طالبان کے ساتھ پیدا ہونے والی مشکلات میں نئی امریکی حکومت پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کے لئے پر امید ہے۔ اس حوالے سے وہ سہولتیں بحال کرنے کا اشارہ بھی دیا جا رہا ہے جو ٹرمپ حکومت نے بند کر دی تھیں۔ ٹرمپ نے دوحہ مذاکرات میں پاکستان کا کردار تسلیم کرنے اور اس حوالے سے تعریف کے پل باندھنے کے باوجود پاکستان کی امداد اور دفاعی تعاون بحال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ بائیڈن حکومت اس امکان کو مسترد نہیں کرتی۔

پاکستان اور اس کی فوج کو البتہ یہ دیکھنا ہوگا کہ امداد اور تعاون بحال کرنے کے بدلے میں امریکہ پاکستان سے کیا تعاون چاہتا ہے اور وہ کس حد تک اس کے اپنے دیگر علاقائی مفادات اور ضرورتوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ پہلو بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ سینیٹ کمیٹی میں بات چیت کے دوران نامزد امریکی وزیر دفاع نے پاکستانی حکومت کی بجائے پاک فوج کے ساتھ تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس اظہار سے یہ تو واضح ہوتا ہے کہ بیرونی طاقتیں پاکستان میں کسے طاقت کا سرچشمہ سمجھتی ہیں۔ یہ صورت حال اس حد تک تو قابل قبول کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت پاکستان کی معروضی سیاسی حقیقت یہی ہے۔ لیکن پاکستان میں پی ڈی ایم کے سیاسی احتجاج کا بنیادی نکتہ بھی یہی ہے کہ سیاست میں عسکری اداروں کی مداخلت بند کی جائے۔ یہ احتجاج جلسوں اور مظاہروں کی سطح پر ہی ہے اور ابھی تک باقاعدہ بات چیت کے ذریعے بنیادی اختلافات اور ان کے ممکنہ حل پر غور کی نوبت نہیں آئی ہے۔ لیکن امریکہ سے آنے والے اشاروں سے معاملہ کی سنگینی، نزاکت اور اہمیت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس پر پاک فوج کی قیادت کے علاوہ حکمران جماعت سمیت پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پاک فوج اور حکومت کو امریکہ میں نئی حکومت کے قیام اور پاکستان سے تعاون کے اشاروں پر مسرور ہونے سے پہلے اس کے درپردہ عزائم، تقاضوں اور ضرورتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان میں شہری آزادیوں کی صورت حال سول انتظام موجود ہونے کے باوجود خراب ہوئی ہے۔ میڈیا پر قدغن ہے اور رائے کی آزادی کو ففتھ جنریشن وار کی بیڑیاں پہنائی گئی ہیں۔ امریکہ میں دہشتگرد گروہوں کے خلاف پاکستان کے اقدامات کو سراہنے کے باوجود کہا گیا ہے کہ کام ابھی مکمل نہیں ہوا۔ ٹونی بلنکن نے اپنی گفتگو میں بھارت کے ساتھ دفاعی اور سفارتی تعلقات کو مستحکم کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ جبکہ جنرل لائڈ آسٹن کی یہ بات بھی پاکستانی نقطہ نظر سے دلچسپی کا باعث ہے کہ نئی امریکی حکومت افغانستان میں دہشت گردی ختم کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے والے عناصر کے خلاف بھی کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پاکستان اس حوالے سے مودی حکومت کی طرف سے افغانستان میں پاکستان دشمن عناصر کی سرپرستی اور داعش خراسان سے تعاون کا حوالہ دے سکتا ہے۔ بائیڈن حکومت پاکستان میں شہری آزادیوں کی بات ایجنڈے پر لائے تو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال کو بھی اس بحث کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوگا اگر پاکستانی حکومت اور تمام ذمہ دار ادارے واشنگٹن سے موصول ہونے والے اشاروں کی روشنی میں لائحہ عمل تیار کریں اور پاک امریکہ تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کرنے پر تیار ہوں۔ امریکہ افغانستان میں امن اور دہشت گرد گروہوں کے مکمل خاتمہ کے لئے تعاون کا خواہاں ہے۔ نئی امریکی حکومت ٹرمپ کے مقابلے میں پاکستان میں شہری آزادیوں کی بحالی کا مطالبہ بھی ضرور کرے گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کیا جائے۔ تاکہ تعلقات کی تجدید میں نئی غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں اور الزام تراشیوں کا نیا سلسلہ نہ شروع ہو جائے۔

سابق صدر باراک اوباما کے دور میں پاکستان کے حقانی نیٹ ورک سے مراسم، بھارت دشمن گروہوں کی مسلسل سرپرستی اور اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہوئے تھے۔ پاکستان نے کسی حد تک ان مسائل پر قابو پا لیا ہے۔ افغان امن معاہدہ اور طالبان کی بات چیت پر رضامندی سے واشنگٹن میں پاکستان کے لئے خیر سگالی کے جذبات پیدا ہوئے ہیں۔ نئی حکومت کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے اس خیر سگالی سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ البتہ اس کے لئے پاکستان کو ہوم ورک پر سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی۔ جو بائیڈن نے اپنی افتتاحی تقریر میں جمہوری اقدار کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک نیا موقع دینے کے اشارے دیے گئے ہیں۔

پاکستان کو طے کرنا ہے کہ کیا یہ پیشکش اس کے اپنے اصولوں اور مفادات کے مطابق ہے۔ اگر پاکستان شہری حقوق، میڈیا کی آزادی، جمہوری اقدار کی بحالی، مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے اور اقلیتوں کے خلاف رجحانات کچلنے کو اپنے قومی مفاد کے لئے بھی ضروری سمجھتا ہے تو اس کام کا آغاز امریکہ کے ساتھ بات چیت سے پہلے داخلی اقدامات سے کرنا ہوگا۔ اسی طرح پاکستان، بھارت کی زیادتیوں کے خلاف امریکی حکومت سے تعاون کی امید بھی کرسکے گا۔ اور سی پیک اور چین سے وابستہ قومی مفادات پر امریکہ کو سخت گیر رویہ تبدیل کرنے پر بھی آمادہ کرسکے گا۔ اس بار بھی اگر ماضی کی طرح پاکستان کے قول و فعل میں تضاد برقرار رہا تو اس کا نتیجہ بھی مایوسی اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali