سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو تاریخ میں کیسے یاد رکھا جائے گا؟


ٹرمپ
20 جنوری 2021 کو صدر ٹرمپ کا دور صدارت اختتام کو پہنچا۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ امریکہ کے لیے یہ چار سال طوفانی رہے۔ تو صدر ٹرمپ جیسے تاریخ ساز صدر کی میراث کیا ہو سکتی ہے؟

یہ سوال اتنا آسان بھی نہیں، اس لیے ہم نے کچھ ماہرین سے وضاحت طلب کی۔

’دائیں بازو کے سخت گیر عناصر کے ساتھ رشتہ‘

میتھیو کونٹینیٹی امیریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ کے ساتھ منسلک ہیں، جہاں وہ ریپبلیکن پارٹی کے ارتقا اور امریکہ کی کنزرویٹیو تحریک پر کام کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کی کلیدی میراث کیا ہے؟

ڈونلڈ ٹرمپ کو اس صدر کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جن کا ایک نہیں بلکہ دو بار مواخذہ کیا گیا۔ انھوں نے صدر بائیڈن کے انتخاب کی تصدیق کے موقع پر اپنے حامیوں کو احتجاج کرنے کے لیے واشنگٹن طلب کیا، ان سے کہا کہ وہ صرف زور بازو پر اپنے ملک پر کنٹرول حاصل کر سکیں گے اور جب ان کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولا تو وہ کھڑے دیکھتے رہے اور امریکہ کی آئینی حکومت کے کام میں مداخلت کی۔

جب تاریخ دان اس صدارت کے بارے میں لکھیں گے تو وہ واشنگٹن میں ہونے والے فساد کے زاویے سے لکھیں گے۔ وہ آلٹ رائٹ کے ساتھ ٹرمپ کے رشتے، سنہ 2017 میں شارلٹسول میں ہونے والے احتجاج، دائیں بازو کی پر تشدد شدت پسندی میں اضافے اور سازشی بیانیے کے پھیلاؤ پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے

’صدر ٹرمپ مغرور اور خطرناک ہیں‘

امریکہ: متعدد شہروں میں ٹرمپ کے حامیوں، مخالفین میں تصادم

ڈونلڈ ٹرمپ کون ہیں؟

امریکہ

اور کون سی بات یاد رہے گی؟

اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماضی کے صدور کی طرح عزت اور فراخ دلی کے ساتھ اور پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کو یقینی بنایا ہوتا تو شاید انھیں ایک خلل ڈالنے والے لیکن اہم عوامی لیڈر کے طور پر یاد کیا جاتا۔

ایک ایسا صدر جس نے وبا سے پہلے اقتصادی بہتری کے دن دکھائے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تعلق کو نئی سمت دی۔ دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی۔ امریکہ کے خلائی پروگرام میں جدت لائے۔ امریکی سپریم کورٹ کی سمت کا تعین کیا اور آپریشن وارپ سپیڈ کی سربراہی کی تاکہ کووڈ کے خلاف ویکسین ریکارڈ وقت میں تیار ہو سکے۔

’عالمی قیادت سے دستبرداری‘

لارا بیلمونٹ ورجنیا تاریخ کی پروفیسر اور ٹیک کالج آف لبرل آرٹس اینڈ ہیومن سائنسس کی سربراہ ہیں۔ وہ ثقافتی سفارتکاری سے متعلق کتابوں کی مصنف بھی ہیں۔

ٹرمپ کی کلیدی میراث کیا ہے؟

ان کی کلیدی میراث امریکہ کی عالمی قیادت سے دستبرداری کی کوشش اور اس کی جگہ اندر کی طرف دیکھنے والی ذہنیت تھی۔ مجھے نہیں لگتا وہ اس میں کامیاب ہوئے لیکن سوال یہ ہے کہ اس رویے سے امریکہ کی بین الاقوامی ساکھ کس حد تک متاثر ہوئی ہے۔

اس کا جواب وقت کے ساتھ ہی واضح ہو گا۔

میرے لیے سب سے حیران کن لمحہ وہ تھا جب ٹرمپ نے سنہ 2018 میں ہلسِنکی میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں امریکی انتخاب میں روسی مداخلت کے سوال پر امریکی خفیہ اداروں کی جگہ روسی صدر کے مؤقف کی حمایت کی۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

مجھے نہیں لگتا ماضی کے کسی بھی صدر نے ایسا کیا ہو گا۔

یہ اس حملے کا حصہ تھا جو صدر ٹرمپ نے کئی دیگر اداروں اور معاہدوں پر بھی کیا، جیسے کہ ماحول کے تحفظ کے لیے ہونے والے پیرس معاہدے اور ایران جوہری معاہدے سے علیحدگی۔

اور کون سی بات یاد رہے گی؟

جس طرح ٹرمپ نے ترک صدر اردوغان، برازیل کے صدر بالسانارو کی تعریفیں کیں، شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان سے ملاقات کی اور ایسی حکومتوں کے ساتھ امریکہ کو جوڑنے کی کوشش کی جو روایتی طور پر امریکی اقدار کی نفی کرتی رہی ہیں۔ میرے خیال میں یہ کافی منفرد تھا۔

’جمہوریت کا امتحان‘

کیتھرن برونیل پرڈیو یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر ہیں اور میڈیا، سیاست اور پاپولر کلچر کے درمیان تعلقات اور امریکی صدارت پر فوکس کرتی ہیں۔

ٹرمپ

ٹرمپ کی کلیدی میراث کیا ہے؟

صدر ٹرمپ، ریپبلیکن پارٹی میں ان کے حامیوں اورقدامت پسند میڈیا نے امریکی جمہوریت کو ایسے امتحان میں ڈال دیا ہے، جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔

میں ایک مؤرخ ہوں اور میں صدارت اور میڈیا کے درمیان تعلق کا مطالعہ کرتی ہوں۔ جس طرح سے صدر ٹرمپ نے لاکھوں لوگوں کو اس بات کا یقین دلا دیا ہے کہ ان کا جعلی بیانیہ ہی دراصل سچ ہے، وہ نہایت ہی حیران کن ہے۔

چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر جو ہوا وہ پچھلے چار سال کے واقعات کا نتیجہ تھا، جس دوران صدر ٹرمپ نے فعال انداز میں غلط بیانی اور غلط معلومات کو فروغ دیا۔

اور کون سی بات یاد رہے گی؟

جب ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے چند ہی دن بعد کیلی این کانوے نے اوباما اور ٹرمپ کی حلف برداری پر آنے والے لوگوں کی تعداد کی بات کرتے ہوئے ’متبادل حقائق‘ کا ذکر کیا۔

بیسویں صدی میں صدر نے پالیسیوں اور واقعات کو مثبت انداز میں پیش کرنے کے لیے کئی حربے استعمال کیے اور میڈیا کی طرف سے جاری ہونے والے بیانیے کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کہنا کہ حکومت کو ’متبادل حقائق‘ پیش کرنے کا حق ہے اس سے کہیں آگے جاتا ہے۔ اور یہ اس بات کا بھی اشارہ تھا کہ صدر ٹرمپ غلط بیانی کے ذریعے ہی حکومت کرنے والے تھے۔

ٹرمپ نے سوشل میڈیا کی طاقت کا بھی مؤثر انداز میں اس طرح استعمال کیا کہ سیاست اور تفریح کے درمیان فرق دھندلا پڑ گیا اور وہ براہ راست اپنے حامیوں سے مخاطب ہو سکے۔

امریکہ

’چین کے سامنے کھڑا ہونا‘

سائی کرشنا پرکاش یونیورسٹی آف ورجینیا لا سکول میں قانون کے پروفیسر ہیں جو آئینی قانون، خارجہ امور کے قانون اور صدارتی اختیارات پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔

ٹرمپ کی کلیدی میراث کیا ہے؟

ٹرمپ کی صدارت کے آخری لمحات سب سے اہم ہیں کیونکہ وہ اب بھی اپنے حامیوں پر کنٹرول رکھتے ہیں اور وہ ایک بار پھر صدارت کی دوڑ میں شامل ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ صدارت کے عہدے کا مطلب کیا بن گیا، جو کہ بش یا اوبامہ کے دور میں نہیں ہو سکا تھا۔

اگر دیکھا جائے تو مواخذے اور پچیسویں ترمیم کے بارے میں کلنٹن کے بعد تو بات بھی نہیں ہوئی تھی۔

ٹرمپ

ہو سکتا ہے کہ لوگوں کا صدارت کے بارے میں سوچنے کا انداز تبدیل ہو جائے کیونکہ اب سب جانتے ہیں کہ مستقبل میں بھی ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ جیسا کوئی صدر بن جائے۔ ہو سکتا ہے کہ کانگریس صدر کے اختیارات میں کمی بھی کرے۔

اور کون سی بات یاد رہے گی؟

صدر ٹرمپ کی وجہ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ملک میں ایک طبقہ ہے جو کئی تجارتی معاہدوں کے خلاف ہے اور بہت سے لوگ ایسے امیدواروں کو ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں جو انھیں ان معاہدوں سے نکلنے یا پھر ان معاہدوں کو ’بہتر‘ بنانے کی بات کرتے ہیں۔

صدر نے یہ بھی کہا تھا کہ چین امریکہ سے فائدہ اٹھاتا رہا ہے، جس سے ملک کی معاشی اور قومی سکیورٹی اور سالمیت کو خطرہ ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اس بات سے تقریباً سب ہی متفق ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اس پر چین کے سامنے نرم پڑنے کا الزام لگے۔ یعنی آپ کا رویہ کینیڈا کے ساتھ تو ’نرم‘ ہو سکتا ہے لیکن چین کے ساتھ نہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ سب ہی یہ دعویٰ کریں گے کہ وہ چین کے سامنے سختی سے کھڑے ہیں یا کم سے کم یہ کہ وہ چین کے ساتھ سختی کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp