قازقستان روسی اثر سے نکلنے کو تیار: ’آزادی سب سے قیمتی شے ہے‘


قازقستان کے صدر قاسم جومارٹ توکایوف کا ایک مضمون 5 جنوری کو اس وقت شائع ہوا، جب ملک میں روسی سیاستدانوں کے ان دعوؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر ردِ عمل سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ قازق علاقے کے کچھ حصے روس کا ’تحفہ‘ ہیں جنھیں اب واپس کیا جانا چاہیے۔

توکایوف کا مضمون 10 جنوری کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے کچھ ہی دن پہلے آیا۔ سخت طریقے سے کنٹرول شدہ انتخابات نے پارلیمنٹ میں حکمران نور-اوتان کی جماعت کے تسلط کو یقینی بھی بنایا، سو اس طرح سابق تجربہ کار رہنما نورسلطان نذر بائیف سے اقتدار کی منتقلی کو مکمل کیا۔ انھوں نے مارچ 2019 میں اقتدار چھوڑا تھا۔

کیونکہ اب توکایوف کی صدارت مستحکم ہو چکی ہے اس لیے ان کے مضمون کو ایک کلیدی پالیسی بیان کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جو روس کی خارجہ پالیسیوں میں بڑھتی ہوئی جارحیت پر قازقستان کی تشویش کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ قوم پرستی کی طرف عوامی جذبات میں تبدیلی اور سوویت ماضی اور روس سے بڑی نظریاتی اور ثقافتی علیحدگی کی بھی عکاسی کرتا ہے۔

اہم پیغامات

توکایوف کے مضمون کا عنوان تھا ’آزادی سب سے قیمتی شے ہے۔‘ اسے قازقستان کے سرکاری اخبار اگیمین قازقستان میں شائع کیا گیا۔ روسی زبان کے سرکاری اخبار قازقستانسکایا پراودا میں اسے اگلے دن شائع کیا گیا۔

’توکایوف کے مضمون میں کہا گیا کہ ’(سوویت) استبدادی دور میں ہم اپنی روایتی اقدار، اپنی زبان، ثقافت اور مذہب کو کھونے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ آزادی کی بدولت ہم نے یہ سب کچھ حاصل کیا ہے۔ تاہم، بحیثیت ایک قوم اور ریاست کے اپنے آپ کو بچانے کے لیے، موجودہ اور آنے والی نسلوں کو نئے چیلنجوں کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔‘

مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’کچھ غیر ملکی شہریوں کی اشتعال انگیزی کو، جس کا مقصد ہماری علاقائی سالمیت پر سوال اٹھانا اور ہمارے اچھے ہمسایہ تعلقات کو نقصان پہنچانا تھا، سرکاری طور پر اور ہمارا معاشرہ دونوں ناکام بنا دیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

روس اور چین قازقستان کو دوبارہ اپنا حصہ کیوں بنانا چاہتے ہیں؟

قازقستان نے ’ناپسندیدہ کردار‘ بورات کا مشہور فقرہ ’بہت اچھا‘ کیوں اپنایا؟

سرد جنگ کے دوران جب پاکستانی فضائی اڈہ امریکہ کے زیراستعمال ہونے کا راز کھلامضمون میں مزید کہا گیا کہ ’ہمیں پر امن طریقے سے اور طاقت کے ذریعے اپنے قومی مفادات کے دفاع کے لیے تیار رہنا ہے۔ جو زمین ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں حاصل کی ہے وہ ہماری اصل دولت ہے۔ باہر سے کسی نے بھی ہمیں یہ زمین نھیں دی ہے۔‘

توکایوف نے ملک کے مورخین پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر قازقستان کی نئی مختصر تاریخ لکھیں جو کہ ’دنیا کو قازقستان کے لوگوں کی صدیوں پرانی حقیقی تاریخ بتانے کا واحد راستہ ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہر قوم کو اپنی تاریخ لکھنے کا حق ہے۔ ہم کسی اور کے نظریے کے سائے میں نھیں رہ سکتے۔‘

قازق فوجی الماتی کے علاقے میں تربیتی مشکوں کے دوران

قازق فوجی الماتی کے علاقے میں تربیتی مشکوں کے دوران

توکایوف کے مضمون میں قومی قازق زبان کی ساکھ کو مستحکم کرنے کے حق میں بھی بات کی گئی اور کہا گیا کہ قازق زبان جاننا ہر شہری کا ’فرض‘ ہے۔ روسی زبان کے بڑے پیمانے پر بولے جانے پر بھی قازق بولنے والی آبادی میں ایک لمبے عرصے سے عدم اطمینان رہا ہے۔

سیاسی اصلاحات کے بارے میں توکایوف کا کہنا تھا کہ ’سوال ہی پیدا نھیں ہوتا کہ ان میں مزید تاخیر ہو۔ لیکن یہ ’ایک دن، یا ایک سال کا کام‘ نھیں ہے، ’انارکی اور کھلی چھٹی دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہمیں ان (اصلاحات) کو اتحاد کو نقصان پہنچائے، سمجھدار اور درجہ بدرجہ لانا ہے۔‘

نئی ’نظریاتی ترجیحات‘

پارلیمنٹ کے ایوان بالا، سینیٹ کے سپیکر مولن عاصم بائیف نے کہا کہ توکایوف کے مضمون نے ’نظریاتی ترجیحات‘ کی وضاحت کی ہے جس کا مقصد قازقستان کی ریاستی حیثیت کو مستحکم کرنا ہے اور ان سوالوں کے ٹھوس جوابات دینا ہے جن کے متعلق حال ہی میں ہمارے معاشرے میں خاص طور پر تشویش پائی جاتی ہے۔‘

انفورم بیورو نیوز ایجنسی کی ویب سائٹ کے مطابق عاصم بائیف نے کہا کہ ’خصوصاً وہ پوزیشن جو انھوں نے ہماری علاقائی سالمیت کے متعلق لی ہے اور جسے مکمل عوامی پذیرائی ملی ہے۔۔۔ یہ ہمارے آباؤ اجداد کی سرزمین ہے، ان کے خوابوں کا وطن ہے۔‘ایک ویب سائٹ Abai.kz (ابائی۔کے ذیڈ) نے 5 جنوری کو لکھا کہ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں، مجلس، کے سپیکر نورلان نگمتولین نے اس مضمون کو ’ہر شہری کے لیے ایک واضح سمت قرار دیا جو اپنی قوم اور زمین سے پیار کرتا ہے اور جو ہماری آزادی کے دفاع اور تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

نگمتولن نے یہ بھی کہا کہ یہ ’تاریخی دستاویز‘ ہے جس کا مقصد معاشرے کو مستحکم کرنا اور قومی اتحاد کو فروغ دینا ہے۔

توکایوف کے مشیر یرلان کارین نے کہا کہ توکایوف کے مضمون نے قازقستان کی آزادی کے پہلے 30 سالوں کا احاطہ کیا ہے اور اگلی دہائی کے لیے ’ترقیاتی ترجیحات‘ متعین کی ہیں۔

نومنتخب ممبر پارلیمنٹ ایڈوس ساریم نے، جو ماضی میں حزب اختلاف سے تعلق رکھتے تھے، کہا کہ توکایوف کے مضمون نے ’ہمارے ناقابل اعتماد پڑوسی (روس) کے حالیہ (سیاسی) مزاج کو دھیان میں رکھا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس مضمون میں ’ہماری چار اقدار: ہماری خوبصورت زبان، وسیع تاریخ، مقدس فطرت اور انتھک محنت‘ کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جنھوں نے ’ہمیشہ ہماری پوری تاریخ میں ہمیں محفوظ بنایا اور بچایا ہے۔‘

’سطحی‘ نظریاتی پیغام

مشہور سیاسی مبصر ڈوسم ساتپایف نے کہا کہ ’نظریاتی کام‘ کے حوالے سے توکایوف کا پیغام بالکل ’سطحی‘ قسم کا ہے۔

پلاٹون ڈاٹ ایشیا ویب سائٹ کے مطابق انھوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل کا مقصد سیاسی لبرلائزیشن جیسے ’انتہائی گہرے اور انتہائی حساس امور پر کو چھوئے بغیر حالیہ واقعات کا جواب دینا تھا۔ ’مضمون میں کوئی نئی بات نھیں تھی۔‘

حقوق انسانی کے سرکردہ کارکن یوجینی زووتس نے پلاٹون ڈاٹ ایشیا کو بتایا کہ توکایوف کے مضمون میں ’بنیادی چیزوں‘ کی کمی تھی، جیسا کہ اس میں ’جمہوریت‘ اور ’انسانی حقوق‘ جیسے الفاظ شامل نھیں ہیں، جو کہ بہت عجیب بات ہے اگر ہم ایک جمہوری ریاست ہیں۔’اچھے الفاظ‘ لیکن خاص کوشش‘ نھیں

تاہم، قازق بولنے والے مبصرین کا رد عمل کوئی اتنا مثبت نہیں تھا۔

معروف صحافی کلٹیگین بیگ نے ایک نجی اخبار زاس الاش میں لکھا کہ ہر شہری کے لیے قازق زبان جاننا کوئی ’فرض‘ نھیں ہونا چاہیے جیسا کہ توکایوف نے مضمون میں لکھا ہے، بلکہ یہ ’ایک ذمہ داری‘ ہونی چاہیے۔

بیگ نے کہا کہ ’ریاستی زبان اب بھی ایک دوسرے درجے کی زبان کی طرح بھٹک رہی ہے۔ اس سے کوئی بھی انکار نھیں کر سکتا۔ کیا کریں؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ صاحبِ اقتدار لوگ ریاستی زبان بولنا شروع کریں۔‘

بیگ نے یہ بھی کہا کہ روسی قوم پرست سیاستدانوں کے قازقستان کی علاقائی سالمیت کے متعلق دعوؤں کا جواب توکایوف نے ذرا ’دیر‘ سے دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ صرف صدر کے فوری ردعمل سے ہی ’بک بک کرنے والے روسی سیاست دانوں کے منہ بند ہو سکتے تھے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp