بھارتی کشمیر میں سردی کے ڈیرے، کانگڑی کا استعمال بھی جوبن پر


فائل فوٹو
سرینگر — بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالیہ شدید برف باری کے نتیجے میں جہاں معمولاتِ زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہیں محکمۂ موسمیات نے مزید بارشوں اور برف باری کی پیش گوئی ہے۔

بھارتی کشمیر میں دو ہفتے قبل پڑنے والی شدید برف باری کی وجہ سے کئی علاقوں اور صدر مقامات کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا اور راستے اب تک پوری طرح سے بحال نہیں ہو سکے۔

برف باری کے باعث مواصلاتی نظام اور بجلی کی فراہمی میں پیدا ہونے والا خلل اب بھی کئی جگہوں پر روزمرہ کی زندگی میں رکاوٹ کا باعث بنا ہوا ہے۔

درجہ حرارت کے نقطۂ انجماد سے بھی چھ سے چوبیس ڈگری تک گرنے سے سری نگر کی مشہور ڈل جھیل کے ساتھ ساتھ وادی اور لداخ خطے کی بیشتر جھیلیں اور دیگر آبی ذخائر منجمد ہو گئے ہیں۔

برف باری کی وجہ سے وادیٔ کشمیر کو جموں اور بھارتی پنجاب سے ملانے والی واحد سری نگر۔جموں شاہراہ کئی روز تک بند رہی اور نتیجتاً کھانے پینے کی اشیا اور ایندھن کی فراہمی بھی متاثر رہی۔

وادی میں اس قدر ٹھنڈ ہے کہ لوگوں کے گھروں میں پانی کی پائپ لائنوں میں بھی برف جم چکی ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مزید برف باری کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مزید برف باری کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

مزید ​برف باری کی پیش گوئی

​محکمۂ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ 22 جنوری سے وادیٔ کشمیر میں بارشوں اور برف باری کا ایک اور سلسلہ شروع ہو گا جو کم سے کم چار دن تک جاری رہے گا۔

اس پیش گوئی نے پہلے سے پریشانیوں کے شکار وادی کے باسیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

محکمۂ موسمیات کے ایک اعلیٰ عہدیدار صونم لوٹس نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ مغربی ہواوٴں کے دباوٴ کے نتیجے میں رواں ہفتے کے آخر میں ممکنہ طور پر ہونے والی بارشوں اور برف باری کا زور اتنا زیادہ نہیں ہو گا جتنا دو ہفتے قبل تھا۔

اُن کے بقول 22 سے 24 جنوری تک بالائی اور میدانی علاقوں میں ہلکی بارشوں کے ساتھ معمولی برف پڑنے کا بھی امکان ہے۔

یاد رہے کہ بلند و بالا برف پوش پہاڑوں اور گھنے جنگلات سے گھری وادیٔ کشمیر کا موسمِ سرما کے دوران سخت سردی کی لپیٹ میں آنا کوئی نئی بات نہیں۔

تاہم ماہرینِ موسمیات کا کہنا ہے کہ حالیہ برف و باراں کے بعد وادی میں شدید سردی کی لہر برقرار ہے اور اس دوران ریکارڈ ہونے والا درجہ حرارت گزشتہ 28 برس میں جنوری میں ریکارڈ درجہ حرارت میں سب سے کم ہے۔

کشمیر کا اپنا موسمیاتی کلینڈر

کشمیر میں موسمِ سرما کی سخت ترین مدت کے پہلے دور کو روایتی طور پر چلہ کلان’ کہا جاتا ہے۔ چالیس دنوں پر محیط اس ‘چلہ کلان’ کا آغاز 21 اور 22 دسمبر کی درمیانی شب کو ہوتا ہے۔

اکتیس جنوری کو چلہ کلان کے اختتام پر موسمِ سرما کے شدید ترین ایام کا دوسرا مرحلہ ‘چلہ خورد’ شروع ہوتا ہے جس کی مدت 20 روز ہے۔

رواں ماہ کے آغاز میں پڑنے والی برف باری کے باعث مختلف علاقوں میں بند ہونے والی رابطہ سڑکوں کو اب بھی مکمل طور پر کھولا نہیں جا سکا۔
رواں ماہ کے آغاز میں پڑنے والی برف باری کے باعث مختلف علاقوں میں بند ہونے والی رابطہ سڑکوں کو اب بھی مکمل طور پر کھولا نہیں جا سکا۔

سخت سردی کے اگلے دس دن ‘چلہ بچہ’ کے نام سے موسوم ہیں۔ مارچ کی پہلی تاریخ کو اگرچہ تینوں چلے ختم ہوجاتے ہیں لیکن سردی کا زور کبھی مارچ کے وسط تک اور اگر برف باری اور بارشوں کا سلسلہ جاری رہا تو اپریل تک جاری رہتا ہے۔

وادی کے میدانی علاقوں میں اپریل اور مئی میں بھی برف باری ہونے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔ گزشتہ پچاس برسوں کے دوران کم سے کم تین مرتبہ بہار اور گرمی کے موسموں کے درمیان بھی سری نگر اور وادی کے دیگر میدانی علاقوں میں برف باری ہو چکی ہے۔

​کشمیری ‘چلہ کلان’ میں شب و روز کیسے گزارتے ہیں؟

چلہ کلان میں شب و روز گزارنے کی تیاری لوگ موسمِ سرما کے آغاز سے تین چار ماہ قبل ہی شروع کر دیتے ہیں۔

موسمِ سرما کی آمد سے قبل ہی سبزیوں کو سوکھا کر محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ یہ سوکھی سبزیاں کشمیری اصطلاح میں ‘ہوکھہ سیون’ کہلاتی ہیں۔ ان میں سب سے پسندیدہ ‘الہ ہچہ’ یعنی سکھائے گئے کدو ہے جسے عام طور پر گوشت کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔

سخت سردی کے موسم میں گوشت اور سوکھی سبزیوں کے ساتھ ساتھ تازہ اور سکھائی گئی مچھلی، دالوں، خشک میوہ جات، اچار، پھرہ (سموکڈ فش) اور شہد وغیرہ کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔

گھر پر پکائے گئے یا روایتی ہریسہ خانوں پر دستیاب زعفرانی ہریسے کو ناشتے میں کھانے کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ کشمیری اس پکوان کو بے حد پسند کرتے ہیں لیکن یہ ان کی روزانہ خوراک میں شامل نہیں۔ بلکہ اسے جابجا ہی کھایا جاتا ہے۔ تاہم ‘نونہ چائے’ یا نمکین چائے اور تندوری روٹی کشمیریوں کے ناشتے کا اہم جز ہے۔

گرمی حاصل کرنے کا روایتی آلہ ‘کانگڑی’

اگرچہ ٹیکنالوجی کی انقلابی تبدیلیوں کے طفیل نئے نئے الیکٹرانک آلات اور قسم قسم کے گیس ہیٹر بازار میں دستیاب ہیں۔ لیکن کشمیری آج بھی روایتی ‘کانگڑی’ کے استعمال کو حدت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں۔

کانگڑی یا کانگئر کمہار کی طرف سے تیار کیا گیا مٹی کا ایک بڑا سا پیالہ نما برتن ہوتا ہے جس پر بید کی مختلف قسم کی پتلی چھڑیاں چڑھائی جاتی ہیں۔ اس پیالے میں سلگائے ہوئے کوئلے ڈال کر اسے روایتی قمیض کے اندر پکڑ لیا جاتا ہے۔ جس سے گرمی حاصل کی جاتی ہے۔

موسمِ سرما کی آمد کے ساتھ ہی اونی اور گرم ملبوسات، کپڑے، کمبلوں اور رضائیوں کی خرید و فروخت بڑھ جاتی ہے۔ لوگ اناج بالخصوص چاول، لکڑی، تیل اور ایندھن کی دیگر مصنوعات کا ذخیرہ بھی کرتے ہیں۔ بلکہ یہ ایسا عمل ہے جو وادیٔ کشمیر میں صدیوں سے جاری ہے۔

معروف کشمیری شاعر اور مورخ ظریف احمد ظریف کہتے ہیں “ماضی بعید میں وادیٔ کشمیر میں موسم سرما خاص طور پر چلہ کلان، چلہ خورد اور چلہ بچہ کے ایام اس سے کہیں زیادہ سخت ہوا کرتے تھے اور برفباری اس قدر شدید ہوا کرتی تھی کہ زندگی مکمل طور پر تھم جاتی تھی۔ اس صورتِ حال میں جب لوگوں کے لیے گھروں سے نکلنا بھی مشکل بلکہ ناممکن بن جاتا تھا، وہ سوکھی سبزیوں اور مہینوں پہلے جمع کیے گئے چاول اور ایندھن سے کام چلاتے تھے۔”

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa