کنولی سسٹرز کی شرمندگی


ان دنوں ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہوئی ہے جس میں دو نہایت پڑھی لکھی خواتین کہ نام ان کا دیا اور عظمیٰ ہے، بیٹھی بور ہو رہی تھیں۔ اپنی سہولت کے لیے ہم انہیں کنولی سسٹرز کہہ لیتے ہیں۔ اچانک ان کو خیال آیا کہ کچھ تفریح ہونی چاہیے اور ساتھ ساتھ سٹاف چیکنگ اور اس کی استعداد کا امتحان بھی ہو جائے۔ سو انہوں نے نو برس سے اپنے پاس کام کرنے والے ملازم کو بلا کر اس کا جاب انٹرویو شروع کر دیا۔ کہنے لگیں کہ اپنے بارے میں کچھ بتائیں۔ بندے نے بتا دیا۔ یہ ہنسنے لگیں کہ دیکھو اتنے مہینے اس نے انگریزی پڑھی ہے پھر بھی غلط بول رہا ہے۔

اس پر بلاوجہ ہی سوشل میڈیا پر طوفان اٹھ گیا اور ان کے بائیکاٹ کی مہم چل پڑی۔ لوگ کہنے لگے کہ کنولی کا مطلب ہے کالونیل۔ ایک میم چلی کہ ایک خاتون کہہ رہی ہیں کہ کوئی انگریز دکھاؤ، سامنے تصویر میں اصلی انگریز دکھا دیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ نہیں سستے والے دکھاؤ۔ آگے کنولی سسٹرز کی تصویر دکھا دی جاتی ہے۔ یعنی اسی قسم کی بیہودگیاں۔

کنولی سسٹرز نے سوشل میڈیا پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کا ردعمل دیکھ کر وہ نہایت ملول اور مایوس ہو گئی ہیں، ایک ٹیم ممبر کے ساتھ ان کے ہنسی مذاق کو لوگوں نے بھلا کس طرح غلط معنی پہنا دیے ہیں۔ نیز اس ویڈیو میں تو ٹیم سے گپ شپ ہو رہی تھی اور یہ کسی بھی طرح منفی یا جذبات کو مجروح کرنے والی نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی اگر کسی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں یا اس کی توہین ہوئی ہے تو وہ معافی مانگتی ہیں، بہرحال یہ ان کی نیت نہیں تھی۔ کنولی سسٹرز نے اپنا دفاع کرتے ہوئے مزید کہا کہ انہیں خود کو ایک مہربان مالک ثابت کرنے یا اپنا دفاع کرنے کی ضرورت نہیں، ان کی ٹیم ایک دہائی سے ان کے ساتھ ہے اور یہی ثبوت بہت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستانی ہونے اور اپنی زبان اور تہذیب پر فخر کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ انہوں نے انگریزی زبان میں بتایا۔

دیکھیں ہم تو اس معاملے میں کنولی سسٹرز کے ساتھ ہیں۔ ٹھنڈے دل سے آپ خود سوچیں کہ آپ نے کوئی زبان کیسے سیکھی؟ جو لوگ آپ کے آس پاس ہوتے ہیں، ان سے سن سن کر اور بات کر کے ہی بندہ زبان سیکھتا ہے۔ اب اگر یہ صاحب ایک دہائی سے کنولی سسٹرز سے انگریزی سیکھ رہے ہیں اور ان کی انگریزی ایسی ہے جو کنولی سسٹرز کے حلقے میں ہنسی ٹھٹھے کا باعث بنتی ہے، تو خود سوچیں کہ کنولی سسٹرز کے دوست احباب اور اعزا ان دونوں کی زبان کا کتنا مذاق اڑاتے ہوں گے۔ وہ اکثر سنتی ہوں گی ”دیکھو دونوں ہمارے سامنے بنتی کتنا انگریز ہیں لیکن اصل میں ان کی جو زبان ہے وہ ان کے ملازم سے پتہ چل جاتی ہے۔“ شرمندگی سے غرق ہو جاتی ہوں گی دونوں کہ ہائے کس ترکیب سے ظالموں نے ہماری اصلیت پکڑی ہے اور انہیں پتہ چل گیا ہے کہ ہم انگریز نہیں بلکہ بدتمیز اردو میڈیم ہیں۔

چلیں ہر شے میں کوئی بھلائی ہوتی ہے۔ اب اور کچھ ہو نہ ہو، کنولی سسٹرز کی بوریت تو دور ہوئی، بلکہ اندازہ ہے کہ ایک طویل عرصے تک بوریت ان کے قریب نہیں پھٹکے گی۔ بلکہ بوریت کیا، بائیکاٹ کامیاب ہو گیا تو ہو سکتا ہے کہ گاہک بھی ان کے پاس نہ پھٹکے۔

بہرحال اگر وہ چاہتی ہیں کہ ہمارے علاوہ باقی قوم بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو، تو ہمارے ذہن میں ایک تجویز ہے۔ آج کل ہمارے محبوب رائٹر خلیل الرحمان قمر صاحب ٹی وی پر کوئی پروگرام شروع کرنے والے ہیں۔ اگر کنولی سسٹرز کسی طرح اس پروگرام میں شامل ہو جائیں اور خلیل صاحب کی عنایت ان پر بھی ہو جائے تو عین ممکن ہے کہ قوم کنولی سسٹرز کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔ بس ایک اندیشہ ہے اس میں، کہیں ان کا برگر ڈیڑھ ہزار روپے سے گر کر دو ٹکے کا نہ ہو جائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar