’گھسی پٹی محبت‘ پر سوشل میڈیا رد عمل: ایک ایسی لڑکی کی کہانی جسے چار مردوں کے بعد احساس ہوا کے اپنے لیے آسمان سے تارے وہ خود لاسکتی ہے


کیا لڑکیوں کو شادی اور گھر گرہستی سنبھالنے تک محدود رکھا جائے، کیا پہلی یا دوسری ناکام شادی کے بعد خاتون کا شادی کرنا معیوب ہے، کیا شوہر کے جسم سے ناگوار بو پر احتجاج کرنا بیوی کے لیے نامناسب ہے اور کیا مرد خواتین کو اپنی ہوس کی تسکین کا سامان ہی سمجھتے ہیں؟

یہ ایسے سوالات ہیں جو اکثر کہیں نہ کہیں کیے جاتے ہیں یا یہ اس معاشرے کے ایسے دقیانوسی تصورات ہیں جو کہیں نہ کہیں رائج ہیں۔

ان سوالات کا جواب دینا اور ان مسائل پر آواز اٹھانا ایک بڑا معرکہ سمجھا جاتا ہے لیکن جمعرات کو ایک ٹی وی ڈرامے گھسی پٹی محبت کی آخری قسط مکمل ہوئی اور اس ڈرامے میں ان تمام اور اس کے علاوہ اس معاشرے میں پائی جانے والے دیگر ایسی رسموں اور خیالات پر تنقید کی گئی ہے جو کسی بھی خاتون کو آگِے بڑھنے اسے خود مختار بنانے یا اس کی زندگی کو مشکل بنانے کے لیے رائج ہیں۔

گھسی پٹی محبت ہے کیا؟

یہ کہانی ایک اوسط درجے کے معاشرے میں ان گھرانوں کے بارے میں ہے جہاں لڑکیوں کی شادی کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے اور انھیں یہی کہا جاتا ہے کہ وہیں گزارہ کرو۔

گھسی پٹی محبت فصیح باری خان نے تحریر کیا ہے اور اے آر وائی ڈیجٹل پر عبداللہ سیجا نے پیش کیا ہے۔ اس میں رمشا خان نے اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ ان کے ساتھ وہاج علی، شہود علوی اور علی عباس جیسے اہم اداکاروں نے کام کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’عورت چھ فٹ کے آدمی سے عقل لے‘

’سالی سالی ہوتی ہے اور گھر والی گھر والی ہوتی ہے‘

جنھوں نے ’ثبات‘ ڈرامہ نہیں دیکھا ’کیا وہ واقعی پاکستانی ہیں؟‘

’کوئی اور ڈرامہ کِیا بھی تو وہ ‘میرے پاس تم ہو’ نہیں ہو سکتا‘

یہ ایسے گھرانے کی کہانی ہے جس میں میاں بیوی اور ان کی تین بیٹیاں ہیں اور ایک میاں بہن جو لڑکیوں کی پھوپھی ہیں۔ ان میں رمشا خان جن کا نام سامعہ ہے، اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ ایک ویٹرس کا کام کرتی ہیں اور پہلی شادی وہاج علی کے کردار سے کرتی ہیں لیکن وہ ان کے ساتھ وفا نہیں کرتے اور سامعہ طلاق لے کر گھر واپس آ جاتی ہیں۔

اس دوران بڑی عمر کے ایک شادی شدہ شخص (شہود علوی) ان پر ڈورے ڈالتے ہیں اور رشتہ بھیج دیتے ہیں۔ ان کی شادی ہوتی ہے لیکن شادی کی پہلی رات پہلی بیوی انھیں زہر دے کر مار دیتی ہے۔

اس کے بعد رمشا خان کی شادی ایک اور شخص (علی عباس) سے ہوتی ہے جن کی ایک بیوہ بھابھی ہوتی ہیں۔ رمشا خان کو وہاں سے بھی طلاق ہو جاتی ہے کیونکہ علی عباس اپنی بیوہ بھابھی سے شادی کر لیتے ہیں۔

اس دوران ایک نیا کردار محلے میں آتا ہے وہ بھی سامعہ سے شادی کی پیشکش کرتا ہے لیکن پھر ایک اداکارہ کے چکر میں ایسا پھنستا ہے کہ سامعہ کو انکار کر دیتا ہے۔ سامعہ پھر والد سے مشورے کے بعد اپنی چھوٹی بہن کو دیکھتے ہوئے اپنا ریستوران شروع کرتی ہیں اور اس میں وہ کامیاب ہوتی ہیں۔

یہ کہانی مسلسل دشواریوں کے بعد کامیاب ہونے والی ایک خاتون کے بارے میں ہے اور اس میں انتہائی بولڈ مکالمے بھی شامل کیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ سامعہ کی ایک بہن کی شادی ہوتی ہے جن کے شوہر گوبھی کے پراٹھے کھاتے ہیں اور ان کے جسم سے ناگوار بو آتی ہے لیکن وہ اس مخمصے کا شکار ہوجاتی ہیں کہ اس پر اُنھیں کوئی احتجاج کرنا چاہیے یا نہیں۔

باالآخر وہ اس پر احتجاج کرتی ہیں جس پر پہلے تو اُن کے لیے مسئلے بنتے ہیں، لیکن بالآخر وہ اس میں کامیاب ہوتی ہیں، شوہر اپنا علاج کرواتے ہیں اور گوبھی کے پراٹھے بھی کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔

ڈرامہ کس نے اور کیوں لکھا ہے؟

یہ ڈرامہ فصیح باری خان نے لکھا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ سامعہ کی کہانی ایک جیتی جاگتی لڑکی کی کہانی ہے جو انھیں اسلام آباد سے کراچی کے سفر کے دوران ملی تھیں۔ اس لڑکی کی کہانی نے انھیں لکھنے پر اکسایا اور اس کہانی کا خاکہ انھیں اس خاتون سے ملا جسے پھر انھوں نے مکالموں اور باقی ڈرامے کی شکل دی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ڈراموں میں ڈائیلاگز کتابی نہیں بلکہ سادہ ہونے چاہییں۔ ’اکثر ہمارے ڈراموں میں بناوٹی قسم کے ڈائیلاگز ہوتے ہیں اس لیے انھوں نے کوشش کی کہ عام زندگی کی باتیں لکھیں اور فلسفہ بھی عام سا ہونا چاہیے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس پر تنقید بھی ہوئی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ بہت تنقید ہوئی ہے کیونکہ جب آپ کسی خاتون کی تین یا چار شادیاں دکھائیں تو لوگوں کے لیے بہت بڑی بات ہوتی ہے۔

فصیح باری خان نے کہا کہ وہ تنقید سے نہیں گھبراتے۔ ’میرے ڈرامے قدوسی صاحب کی بیوہ پر بھی تنقید ہوئی تھی اور لوگوں نے کہا تھا کہ کیا بیہودہ کامیڈی ہے اور یہ کہ رشتوں کا مذاق اڑایا گیا ہے لیکن جو حقیقت ہوتی ہے کوشش کرتے ہیں کہ وہ دکھائی جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ اکثر جب وہ یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں تو لڑکے اور لڑکیاں کہتے ہیں کہ ان کے ڈرامے ان سے ریلیٹ نہیں کرتے، لیکن سامعہ کا کردار ایسا رہا ہے جس کو سب نے سراہا ہے۔

سوشل میڈیا پر کیا بحث ہو رہی ہے؟

سوشل میڈیا پر زیادہ تر اس ڈرامے کی تعریف کی جا رہی ہے اور اس کہانی کو روایتی کہانیوں سے یکسر مختلف قرار دیا جا رہا ہے۔

ڈرامے کا یہ ڈائیلاگ سوشل میڈیا پر زیادہ شہرت حاصل کر گیا ہے جس میں کہا گیا کہ ’آسمان کو چھونے کے لیے تارے توڑنے والے کی تلاش ہی کیوں، کوئی ہوتا تب بھی اس کھوج کو کیوں رکنا چاہیے تھا، یہ آسمان تو میرا تھا اسے مجھے ہی چھونا ہے، چھونے جا رہی ہوں آہستہ آہستہ، ایک ایک قدم بڑھا کر۔‘

ٹوئٹر پر بیشتر افراد جن میں خواتین کی تعداد کہیں زیادہ ہے اس عزم کو سراہتے نظر آئے ہیں۔

حورین نے اس ڈرامے میں ملازمت پیشہ ٹرانس جینڈرز کو دکھانے پر تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں اس ڈرامے میں دیا گیا پیغام بہت پسند آیا۔ ‘ہم اپنے معاشرے میں ٹرانس جینڈرز کا کام کرنا معمول کی بات کیوں نہیں بنا سکتے؟’

اس ڈائلاگ کو بھی پذیرائی حاصل ہوئی ہے جس میں سامعہ اپنے چوتھے دوست کو کہتی ہیں کہ ’اقبال کے شاہین مسرت شاہین بنے بیٹھے ہیں۔‘ یہ ڈائلاگ اس وقت پیش کیا جاتا ہے جب سامعہ سے شادی کا خواہشمند چوتھا کردار بے وفائی کرتا ہے لیکن سچ بولنے سے ڈرتا ہے۔

اپنے لیے ستارے خود لانے کی اس کوشش کو سراہا گیا ہے کیونکہ عام طور پر مرد یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ میں تمھارے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لا سکتا ہوں لیکن یہاں لڑکی اپنے لیے خود تارے لانے کی بات کر رہی ہے۔

صارف حنا خان نے لکھا کہ اس ڈرامے کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جتنی کا یہ مستحق تھا۔ انھوں نے لکھا کہ یہ خواتین کو واقعی بااختیار بنانے کے بارے میں تھا اور اس کی کہانی بہت منفرد تھی، جبکہ اختتامی پیغام بھی بہت مضبوط تھا۔

صارف حمزہ اسرار نے کہا ہے کہ گھسی پٹی محبت ہماری نسل کے لیے اسباق سے بھرا ہوا ہے۔

صارف روحا نے لکھا کہ یہ ڈرامہ خود کو بااختیار بنانے کے بارے میں ہے۔ ناکام شادی کا مطلب ناکام زندگی نہیں بلکہ زندگی کے پاس آپ کے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتا ہے، آپ کو صرف اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp