اردو، انگریزی اور جاہل بیچارے


اسلام آباد کے ایک ریسٹورانٹ کے مالکان کی اپنے مینیجر کے ساتھ گفتگو دیکھی تو کچھ عرصہ پہلے گزرا ایک واقعہ یاد آ گیا۔

پہلے تو میں اس قسم کے ویڈیو انٹرویو کا مقصد سمجھنے سے قاصر ہوں، دوسرا مجھے ایسے لوگوں پہ بہت ترس آتا ہے۔ ایسے لوگوں سے مراد وہ منیجر نہیں جو اپنی نوکری اور عزت بچانے کی خاطر دو لوگوں کی تحقیر کا نشانہ بن رہا ہے بلکہ ان بے چاروں پہ جن کا تعلیم، تربیت، مقام اور دولت بھی کچھ نہیں بگاڑ پاتی۔

بات صرف زبان کی نہیں بلکہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ عزت کرنا اور بدلے میں عزت کروانے کے لیے سلیقہ اور ظرف چاہیے ہوتا ہے اور یہ بیچارے اس سے قطعاً نابلد ہوتے ہیں اور اس وجہ سے اپنا مقام اور عزت بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔

ایسے لوگ آپ کو ہر جگہ ملیں گے اور اس جہالت کے لیے پڑھا لکھا ہونا، اچھے خاندان سے تعلق رکھنا، کسی اعلیٰ عہدے پہ تعینات ہونا اور کسی اور ملک میں اچھا طرز زندگی اپنا کے رہنا بھی ضروری نہیں۔

میں ان دو خواتین کو تو اس ایک ویڈیو سے زیادہ نہیں جانتی لیکن کچھ عرصہ پہلے ایک ایسا ہی کردار ہم سے بھی آن ٹکرایا۔

ہوا کچھ یوں کہ جب یو ٹیوب پہ ویڈیوز بنانی شروع کیں تو ایک ویڈیو نیٹ فلکس کی ڈاکیومنٹری ”دا سوشل ڈیلیما“ پہ بنائی، مقصد یہ تھا کہ جو معلومات انگریزی میں موجود ہیں، انہیں اردو سمجھنے والوں کے لئے بیان کیا جائے کیونکہ انگریزی میں ہر طرح کی معلومات ہر جگہ موجود ہیں۔

ویڈیو کے ٹائٹل میں سب کچھ ٹھیک تھا، جب یو ٹیوب کا لیبل لکھا تو اس میں ڈیلیما کی اسپیلنگ میں ای کی جگہ آئی ہو گیا جو ایک دوست کی نشاندہی پہ ٹھیک کر دی گئی لیکن کیونکہ یوٹیوب اسے ٹھیک کرنے میں کچھ منٹ لگاتا ہے تو آپ اس کا لنک کہیں پوسٹ بھی کریں تو وہ پرانا ٹائٹل ہی دکھا رہا ہوتا ہے۔

گروپ ہماری انجینئرنگ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل لوگوں کا تھا جو کہ کینیڈا میں آباد تھے اور سب ہی سمجھ دار عمر کے تھے، یہ میں نے اس لیے لکھا کہ اکثر جذباتی عمر حماقتیں زیادہ کرواتی ہے اور ایک عام تاثر ہے کہ عمر کے ساتھ انسان میں تحمل آتا جاتا ہے۔

ویڈیو پوسٹ کرتے ہی ایک صاحب کا بدتمیزی سے بھرپور تمسخر بھرا میسج آیا جس میں ڈیلیما میں ای کی جگہ آئی لکھا نظر آنے پہ مذاق اڑایا گیا تھا، ابھی میں نے ان کو نرمی سے اس کا جواب لکھا ہی تھا مگر شاید اس دن جلد بازی نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا یا ان کا اپنے ہاتھوں اپنی بے عزتی کروانا لکھ دیا گیا تھا۔ انہوں نے انگریزی میں اس قسم کا کمنٹ لکھا کہ ”آپ نے یہ ویڈیو اردو میں کیوں بنائی ہے، آپ کینیڈا میں رہتی ہیں جوڑیا بازار میں نہیں“ ، اس کے بعد کیا ہوا یہ ایک الگ کہانی ہے۔ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، میرے کہنے پہ تو نہیں لیکن کسی اور کے ساتھ لڑائی پھر بدتمیزی اور گالم گلوچ کرنے پر وہ اس گروپ سے نکال دیے گئے۔

سچ کہوں تو اسکرین کے پیچھے بیٹھ کر کسی پبلک فورم یا پوسٹ پہ اول فول بکنا یا گالم گلوچ کرنا ایک آسان عمل ہے جو دراصل بیش تر لوگ سوشل میڈیا پہ کرتے ہوئے دکھائی بھی دیتے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ ہمیں کون دیکھ رہا ہے حالانکہ سامنے بٹھا کے بات کی جائے تو کسی کی باریک سے آواز بھی نہ نکلے لیکن سو دو سو لوگوں کے محدود گروپ میں یوں بد تمیزی کرنے کے لیے کلیجہ چاہیے ہوتا ہے کیونکہ آدمی کی اپنی عزت داؤ پہ لگی ہوتی ہے اور یہی وہ بیچارگی اور بے خبری کا مقام ہے۔

سوچو تو عجیب لگتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی ایسی سوچ رکھتے ہیں۔ اپنی زبان سے ایسا سلوک اور جوڑیا بازار میں کیا انسان نہیں رہتے؟ یہ ایک قسم کا خناس ہے۔ چلو تعلیم کچھ نہ بگاڑ سکی لیکن کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر است، جب انسان اپنی جگہ سے نکل کر دنیا دیکھتا ہے تو اس کا زاویہ نظر وسیع ہوتا ہے، اسے نئے لوگ ملتے ہیں اور مشاہدوں اور تجربوں کی بنیاد پہ بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے لیکن کہیں نہ کہیں کچھ ایسا ضرور ہے جو بدقسمتی سے دماغ کے اس خلل کا علاج نہیں کر پاتا۔

اردو میری زبان، میری محبت اور میرا فخر ہے بلکہ میرا ہی کیوں جو بھی ہماری سر زمین سے اٹھا، جس نے پہلی زبان یہی سنی، جس نے پہلا لفظ اسی میں سیکھا اور بولا یہ ہر اس بندے کا فخر ہونا چاہیے اور اگر نہیں ہے یا آپ اس سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں تو جان لیجیے آپ کے اندر کہیں نہ کہیں ایک کم مائیگی، ایک کمتری کا احساس چھپا ہے۔

بدقسمتی سے تعلیمی نظام، طبقاتی فرق، رنگ برنگے اسکولوں نے کوئی زبان نہیں پنپنے دی، نتیجتاً بیشتر لوگ اچھی اردو جانتے ہیں اور نہ انگریزی۔ آپ دنیا کے کسی بھی خطے میں چلے جائیں، اسے اپنا لیں لیکن آپ اپنی رنگت بدل سکتے ہیں نہ پہچان۔ آپ امریکن ہوں، کینیڈین ہوں، جرمن ہوں یا کوئی بھی ہوں آپ کہلائیں گے پاکستانی نژاد کینیڈین، پاکستانی نژاد امریکن تو بھئی پھر شرمندگی کیسی؟ فخر کیوں نہیں؟

دوسری وجہ یہ ہے کہ پڑھنے لکھنے کے باوجود اگر ہماری سوچیں محدود رہتی ہیں اور ہم سے یہ انگریزی کی شودے بازی قسم کی حماقتیں کرواتی ہے تو وہ اس لیے کہ لوگ کورس کی کتابیں سولہ سال پڑھ کے ڈگری تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان کا زاویہ نظر محدود رہتا ہے کیونکہ تعلیم، امتحان دینے، پاس کرنے، نوکری کرنے اور پیسہ کمانے کا مقصد لے کر حاصل کی جاتی ہے اور ساری زندگی کولہو کے بیل کی طرح زندگی گول گول چکر کاٹ کر گزار دی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ اپنی شخصیت کی تعمیر پر زور دیا جاتا ہے اور نہ ہی روز مرہ کے کاموں سے ہٹ کر کچھ سیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کتابوں کا تو وہ حال ہے کہ بقول گلزار صاحب کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے، بڑی حسرت سے تکتی ہیں۔

کتاب پڑھنے کا رواج ختم ہو چلا ہے، ، لوگ ڈاکیومنٹری فلمیں بھی شوق سے نہیں دیکھتے، گاڑی چلاتے ہوئے روز مرہ کے کاموں کے دوران معلوماتی پوڈکاسٹ، انٹرویو اور آڈیو کتابیں سنی جا سکتی ہیں مگر اب یہ کون کرے؟ سوشل میڈیا نے وقت کی رفتار اس قدر بڑھا دی ہے کہ تھوڑی دیر بھی کسی چیز پہ فوکس کرنا مشکل ترین ہو گیا ہے، نتیجتاً ہمارے اطراف بس میمز ہیں، ٹک ٹاک کی بے ہنگم ویڈیوز ہیں اور مستقل اسکرول ڈاؤن کرتی انگلیوں کے تلے گزرنے والے تیسرے درجے کے لطیفے ہیں، ہماری محفلیں بامقصد گفتگو سے خالی، مذہب اور سیاست کا میدان جنگ بنی ہوتی ہیں اور عام حالات میں جو انگریزی بول لے وہ پڑھا لکھا ہے اور جو انگریزی نہ بول سکے وہ بے عزتی کے لائق ہے۔

یہاں میں وضاحت کرتی چلوں کہ اچھے لب و لہجے کے ساتھ کوئی بھی زبان بولنا بہت خوبصورت لگتا ہے اور ہر زبان اپنا حسن اور اہمیت رکھتی ہے لیکن اگر معاشرے اور سوچ کو بہتر بنانا ہے تو ذہنوں کو کھولنے، اپنی شخصی تربیت کرنے اور اپنی پہچان اور اپنے آپ کو عزت دینے اور اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).