جب یوسف اپنی محبوبہ سے ملنے آیا


’میں تمہارے حسن کا اسیر ہوں اس لیے میں سیکڑوں میل کا سفر کر کے تمہارے پاس آیا ہوں۔‘ یوسف بہت بے قراری سے اسے پکار رہا تھا۔

’لیکن مجھے تم لوگوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔‘ یوسف کو محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے کان میں سرگوشی کر رہا ہے۔

’لیکن کیوں؟ یہاں تو کوئی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ تم یہاں محفوظ ہو اور مجھے یقین ہے کہ تم یہاں ہمیشہ ایسے ہی رہو گی۔ بھلا اتنی دور کوئی آئے گا تو وہ تمہارا قدر دان ہی ہو گا۔‘ یوسف کا چہرہ اس سے ہم کلام ہو کر چمک رہا تھا۔

’میں نے بھی یہی سمجھا تھا کہ میں یہاں ہمیشہ کے لئے امر ہوں لیکن کچھ دن پہلے تمہارے لوگوں نے یہاں آ کر بہت ہلڑ بازی کی۔ بہت شور مچایا اور مجھے مجروح کر دیا ، شاید وہ اندھے اور بہرے تھے جو میرے وجود کو محسوس نہیں کر سکتے تھے اور میرے حسن سے بے نیاز تھے۔ وہ میری اس رہائش گاہ کا سروے کر رہے تھے مجھ سے پوچھے بغیر۔‘ یہ کہہ کر وہ کتنی اداس ہو گئی۔

’لیکن میں ایسا نہیں ہوں۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں، تمہیں سن سکتا ہوں، تمہیں دیکھ سکتا ہوں، اور میں تمہیں سمجھتا ہوں۔‘

اس نے ایک لمبا سانس لیا۔ ’اچھا بتاؤ تم مجھ سے اتنی محبت کیوں کرتے ہو؟‘

یوسف پھر مسکرایا ایسی مسکراہٹ جس میں دنیا کی ہر خوشی پنہاں تھی۔ ’تم مجھے ہر دل عزیز ہو۔ جب میں تمہارے پاس ہوتا ہوں تو تم میرے جسم اور روح میں سرایت کر جاتی ہو۔ میرے ذہن کے دریچوں کو کھول دیتی ہو۔ تمہارا پیغام منبرپہ بیٹھے ہوئے عالم کی تقریر سے کئی درجے بہتر ہے۔ تمہارا درس استاد کے سبق سے کہیں زیادہ موثر، تمہارا نغمہ دنیا کی ہر گلوکارہ سے زیادہ شیریں ہے اور تمہارا حسن بے نظیر۔ تم میری کائنات ہو۔‘

وہ ہچکچا کر خوشی سے بولی۔ ’بہت خوب! اور تم کیا جانتے ہو میرے بارے میں؟‘

یوسف دور وادی کے پار دیکھنے لگ گیا جیسے وہاں الفاظ ڈھونڈ رہا ہو۔ ’میں تمہاری ذات میں خدا کے وجود کو پا سکتا ہوں۔ قدرت کے سارے رموز و اسرار تم میں چھپے ہوئے ہیں۔ اور مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں تم سے مل کر شعور کے اگلے مقام پر پہنچ کر لا شعور میں چلا گیا ہوں۔‘ پھر وہ جیسے کھو گیا لیکن بولتا رہا۔ ’تم کتنی پراسرار ہو۔ کائنات کی گہرائی، اور اس کی وسعت کی طرح۔ شاید خدا بھی خاموشی سے ہی حکم دیتا ہے اور فرشتے کتنی خاموشی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں! تم ماضی بھی ہو، حال بھی اور مستقبل بھی۔‘

اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ ’نہیں! شاید مستقبل نہیں!‘
یوسف ایک دم سٹپٹا گیا۔ ’کیوں نہیں؟ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا!‘

’میرا مستقبل تمہارے ہاتھ میں ہے۔ تم لوگ مجھے کنوارا ہی رہنے دو۔ میرے حسن کی تعریف کرو لیکن چھوئے بغیر۔ مجھ سے ہمکلام ہو تو کسی آواز کے بغیر۔ میں تم لوگوں سے بہت خوفزدہ ہو گئی ہوں۔‘

’نہیں نہیں، تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ مجھ جیسے کچھ اور بھی دیوانے ہیں جو تمہاری بقا کے لئے خود کو فنا کر دیں گے۔‘

’تم میرے عشق میں گرفتار ہو لیکن تم اور تمہارے ساتھی تو چند ہی ہیں۔ وہ تو بہت سارے ہیں، وہ ایک نہ ایک دن یہاں آ کر خوب شور شرابا اور اکھاڑ پچھاڑ کریں گے اور مجھے ہمیشہ کے لئے نیست و نابود کر دیں گے۔‘

یوسف بے اختیار بولا۔ ’تمہیں کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ پیغمبر اور مفکر تمہارے متلاشی رہے ہیں۔ انہوں نے تم کو غاروں اور جنگلات میں پا لیا۔ تم نے ان کو پناہ دی اور انہوں نے تم کو ہمراز بنا لیا، تمہارے ساتھ کئی کئی مہینے گزار دیے۔ سدھارتھا تو کئی سالوں تک تم سے جدا نہیں ہوا اور نروان حاصل کر لیا۔ ہم تمہارے بہت احسان مند ہیں۔ تم دانائی کی سہیلی ہو۔‘

بہت دھیمی آواز میں اس نے جواب دیا۔ ’ہاں، ایسا ہی ہوا لیکن وہ سب ماضی کی باتیں ہیں۔‘
یوسف اب اپنا کیمپ نصب کر چکا تھا، اس نے یوسف کو اپنی آغوش میں لے کر سلا دیا۔

صبح سویرے وہ اور یوسف پرندوں کی چہچہاہٹ اور سورج کی ناچتی ہوئی پہلی کرن سے محظوظ ہو رہے تھے کہ دفعتاً عجیب و غریب آوازوں نے اس جادوانی سکوت کو توڑ دیا۔ یوسف نے دُوربین نکالی اور آوازوں کی آنے والی سمت میں دیکھنے لگ گیا۔ کئی بلڈوزر اور ٹرک اس کی طرف آ رہے تھے۔ اس کے چہرے پر یاسیت چھا گئی اور اس کے لبوں کو ایک ہلکی سی جنبش ہوئی۔ ’خاموشی، تمہارے قاتل آ رہے ہیں!‘

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).