کیا عقیدے کی عینک سے حقیقت کی کھوج ممکن ہے؟


انسان کا کسی ایک وطن، مذہب، تہذیب، عقیدہ اور کسی مخصوص رنگ و نسل کی شناخت کے ساتھ پیدا ہونا محض ایک حادثہ اور اتفاق ہوتا ہے ، ان سارے مراحل میں اس کے اختیار اور خواہش کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ، اسی لیے اتفاق سے جس عقیدہ میں آپ کی پرورش ہوتی ہے وہی آپ کے لیے سچ اور صحیح ہوتا ہے جبکہ دوسرے عقائد اور مذاہب ہیچ اور جھوٹ ہوتے ہیں۔

لوگوں کے تصور و عقائد کی محض اتنی سی کہانی ہے اور اسی کہانی کی بنیاد پر انسان اتنی فرضی لکیریں کھینچ ڈالتا ہے کہ اس کو اپنے سچ کے آگے تمام سچ غلط اور فضول نظر آتے ہیں، وہ اسی ذہنی روش کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان نفرت کی فصل کاشت کرتا رہتا ہے جبکہ حقائق اور علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور سچائی کو کسی ایک مخصوص خانے میں بند نہیں کیا جاسکتا ، یہ تمام مخصوص دائروں سے ماورا ہوتی ہے۔

عقائد و تصورات انسانی ورثہ ہوتے ہیں اور یہ ہر دور میں تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ انسانی سوچ ارتقائی مراحل طے کر کے ہی آج کے جدید دور میں داخل ہوئی ہے۔ اس سے پہلے انسانی سوچ مختلف ادوار میں سے گزری ہے ، یہ سفر ڈارک ایج سے شروع ہوا ، پھر مڈل ایج میں داخل ہوا ، اس کے بعد نشاۃ ثانیہ سے ہوتا ہوا ، آج کی جدید ترین ایج میں داخل ہو چکا ہے۔ ان تمام ادوار میں انسانی سوچ نے بہت سے موڑ لیے ہیں مگریہ بات طے ہے کہ ہر دور میں انسانی سوچ ہمیشہ برتری اور ترقی کی طرف ہی گئی ہے اور یہ ارتقا ہی ایک خوبصورت انسانی مستقبل کا ضامن ہے۔

ہمیشہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ قرون وسطیٰ میں پادریوں کا راج تھا ، حکومتی معاملات میں بھی چرچ کی بہت زیادہ مداخلت تھی لوگ اپنی پریشانیوں اور بیماریوں سے شفاء کے لیے چرچ کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے۔ جب یورپ میں طاعون کی بیماری پھیلی جسے بلیک ڈیتھ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ لوگ اپنے پھوڑے زدہ جسموں کے ساتھ پادریوں سے اپنے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے التجا کیا کرتے تھے مگر ان کے تمام عقائد کے باوجود آدھا یورپ اس بیماری کی نذر ہو گیا اور گلیاں قبرستان کا منظر پیش کر رہی تھیں۔

اس صورت حال نے چرچ کے مستقبل پر ایک کاری ضرب لگائی اور لوگوں کے ذہنوں میں چرچ کی تعلیمات کے حوالے سے شکوک و شبہات جنم لینے لگے اور انہی شکوک و شبہات کی بنیاد پر یورپ میں کیتھولک کے مقابل پروٹیسٹنٹ آ گئے اور پھر آگہی کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

یورپ آج احیائے علوم کے عہد سے نکل کر ایک جدید ترین انسانی دور میں داخل ہو چکا ہے۔ جب تک وہ روایتی تصورات کے ساتھ چمٹے رہے اور مذہب کے نام سے ایک دوسرے سے گتھم گتھا رہے تو تاریکی ان کا مقدر ٹھہری اور وہ صدیوں تاریکی میں ڈوبے رہے، جیسے ہی وہاں علم کی ہوائیں چلیں تو یورپ تاریکی سے باہر نکل گیا۔

انہوں نے کاروبار ریاست سے چرچ کو نکال باہر کیا اور یہ اصول طے کر لیا کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہو گا اور ریاست کے نظام کو سیکولر بنیادوں پر چلایا جائے گا۔ یہ کڑوے نتائج انہوں نے صدیوں کی لڑائیوں اور ہنگاموں سے اخذ کیے تھے۔ اس کا بالکل یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے مذہب سے کلی کنارہ کر لیا ہے بلکہ انہوں نے مذہب کو انسان کا ذاتی مسئلہ بنا دیا۔ وہ مذہبی طور پر اپنی رسومات کو ادا کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں لیکن ریاست کا اس کے مذہب سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔

آٹھویں سے تقریباً گیارہویں صدی تک مسلمان بھی علم سے مالا مال تھے ۔ بغداد علم و ہنر کا مرکز تھا۔ ہارون الرشید کے ہاؤس آف وزڈم میں بہت سارے عالم جمع رہتے تھے ، ان میں عیسائی، پارسی اور مختلف مذاہب کے علماء شامل ہوتے تھے۔ ان کا کام یونانی علوم کا عربی زبان میں ترجمہ کرنا ہوتا تھا اور ان علما نے بڑی محنت و ریاضت کے بعد یونانی علوم کو عربی کے قالب میں ڈھالا۔ خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں معتزلہ فکر نے بہت ترقی کی۔ وہ خود بھی اس فکر سے متاثر تھا اور اس نے اس فکر سے وابستہ علما کی سرپرستی بھی کی۔

یہ دور مسلمانوں کا وہ سنہری دور تھا جس میں مذہب اور رنگ و نسل سے ماورا ہو کر علم و ہنر کو فروغ دینے کی جستجو کی جا رہی تھی۔ الرازی، بو علی سینا، الکندی اور ابن خلدون ، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے روایتی فکر پر کاری ضرب لگائی اور روایتی تعلیمات کو چیلنج کیا ۔ اسی وجہ سے ان کی زندگی میں ان کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا گیا، ان کو مارا پیٹا گیا اور کچھ کی کتابیں تک جلا دی گئیں۔ ان میں سے اکثر علما معتزلہ فکر کے پیروکار تھے اور حیرانی کی بات تو یہ تھی کہ ان کو مارنے پیٹنے والے دوسرے مذاہب کے لوگ نہیں تھے بلکہ ہمارے مسلمان بھائی تھے۔

روایتی فکر کا شروع سے ہی یہ المیہ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ جدید فکر کے راستے میں روڑے اٹکائے اور ہر نئی سوچ کو رد کر کے یہ روش اپنائی گئی کہ یہ کفریہ نظریات ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ علم ہم سے روٹھ گیا۔ آپس کے لڑائی جھگڑے اور دنگا فساد کی ہمیں بہت بھاری قیمت چکانا پڑی۔ پھر ہلاکو خان نے جو حشر کیا وہ تاریخ کے دامن میں درج ہے ۔ دریائے ٹائگرس کا پانی کتابوں کی روشنائی کی وجہ سے سیاہ ہو گیا تھا۔ صرف تیرہ دنوں میں یہ لشکر علم وہنر کے مرکز بغداد کا حلیہ بگاڑ کر چلا گیا اور المیہ یہ ہے کہ ہم آج تک تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ہمارا باہر نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

ہم بجائے دوبارہ سے کھڑے ہونے کے ،ماضی کی حسین یادوں میں کھوئے رہنے پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہیں اور آج ہم نے اپنے مذہب کے دائرے کو اتنا چھوٹا کر دیا ہے کہ کوئی مسلمان ہوتے ہوئے بھی کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا، اسے صرف اور صرف ماننا اور تسلیم کرنا ہے۔

ہم یہ کبھی نہیں سوچتے کہ انسان ہونے کے ناتے دوسرے بندے کی سوچ ہم سے بالکل مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ ہم نے اگر آج اس علم و ہنر کی دنیا میں اپنا کوئی مقام بنانا ہے تو ہمیں اپنا وہی طرز فکر اپنانا ہو گا جس کی بدولت بغداد علم و ہنر کا مرکز بنا تھا ۔ علم و ہنر کا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا تھا۔ جو وقت کے ساتھ ہم آواز ہو کر کھلے دل سے حقائق سے نظریں ملا کر آگے بڑھتے ہیں وہی دنیا کے امام بنتے ہیں۔

اب ”میں میں“ کی گردان کا وقت گزر چکا ہے اور ہمارا ماضی قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ اب ہمیں بیدار ہونا چاہیے اور آج کی جدید دنیا پر نگاہ ڈال کر اپنی منزل کا تعین کرنا چاہیے ۔ یہ کڑوی حقیقت ہے کہ یورپ آج بھی اپنے سنہری دور میں جی رہا ہے جبکہ ہم ایک طویل وقت سے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).