بالی وُڈ فلموں میں مسلمانوں کی کردار کشی


ہندوستان کی فلم انڈسٹری کا شمار دنیا کی بڑی فلم انڈسٹریز میں ہوتا ہے۔ سالانہ بہت ساری فلمیں ایسی ریلیز ہوتی ہیں جو کروڑوں کا کاروبار کرتی ہیں۔ ان فلموں میں جہاں ایک طرف اخلاقیات کا جنازہ نکالا جا رہا ہے وہیں دوسری طرف مسلمانوں کی مسخ شدہ شبیہہ دکھانا عام بات بن گئی ہے۔ سال میں دس پندرہ فلمیں ایسی ضرور ریلیز ہوتی ہیں جن میں داڑھی رکھے، ٹوپی پہنے اور کرتا پاجامہ پہنے والے اشخاص کو دہشت گرد اور ملک دشمن کا لیبل لگا کر ناظرین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔

یہ ریت آج کی نہیں بہت قدیم اور دیرینہ ہے۔ ان فلموں میں ہیرو کا کردار سچا اور پکا محب وطن اور دیش پر اپنی جان نچھاور کرنے والے کا دکھایا جاتا ہے ۔ وہ عموماً آرمی، پولیس سے وابستہ اہلکار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ولن کا کردار یا تو مسلمان نام رکھنے والا یا کوئی مسلمان نما دہشت گرد ہوتا ہے۔

ہیرو سے ولن کا ٹکراؤ اس لیے ہوگا کہ ولن نے ریلوے اسٹیشن، ائیرپورٹ، اسکول، مندر یا کسی آمدورفت کی پرہجوم جگہ پر بم رکھا ہو گا یا کسی منتری اور دیش کے وفادار کو مارنے کا منصوبہ بنایا ہو گا۔ ان فلموں میں نہ صرف مسلمانوں کی کردار کشی ملتی ہے بلکہ پڑوسی مسلم ملکوں کو بھی لتاڑا جاتا ہے۔

مسلمانوں کے خلاف فلمیں بنانا اور ان فلموں میں مسلمانوں کی اس حد تک کردار کشی کرنا کہ ہر مسلمان کو دہشت گرد اور جرائم پیشہ باور کرانا ایک خطرناک رجحان ہے جس کو روکا جانا چاہیے۔ ایسے بہت سارے واقعات ہوئے ہیں کہ جس شبیہ کا مسلمان اور جو حلیہ فلموں میں مسلمان کا دکھایا جاتا ہے ، اس جیسی حقیقی شکل و صورت رکھنے والے شخص کو پریشانوں کا سامنا رہا اور اس کو ہراساں کرنے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ مسلمانوں کے خلاف جوان ذہنوں میں زہر انڈیلنے کا یہ سلسلہ کب شروع ہوا اور یہ کب تک جاری رہے گا، یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

بالی وڈ میں نہ صرف مسلمانوں کی کردار کشی کی جا رہی ہے بلکہ ہندو مسلم فساد اور مندر مسجد کے جھگڑے کو بھی دکھایا جاتا ہے۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ مندر میں چوری کا واقعہ ہو، گائے کا قتل ہو، ہندو اور ہندوستان کے خلاف سازش ہو تو یقیناً ان سب کے پیچھے مسلمان کا ہاتھ ہو گا۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں جو کردار بالی وڈ فلمیں نبھا رہی ہیں وہ حیران کن اس لیے ہے کہ ان فلموں کو بنانے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ، ذہین اور فطین لوگ ہیں۔

جب یہ لوگ ایسی گھٹیا سوچ رکھ سکتے ہیں تو عام انسان کا قصور ہی نہیں ہے۔ جب ان پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگوں کی سوچ اتنی تنگ ہے کہ یہ لوگ منافرت پھیلانے میں اتنا انہماک اور جذبہ دکھا رہے ہیں تو عام لوگوں کی سوچ کیسی ہوگی ، یہ قیاس کیا جا سکتا ہے۔ ہزاروں ایسی فلموں کی مثال دی جا سکتی ہے جن میں مسلمانوں کو دیش دشمن، ڈون، غنڈے، چور اور دہشت گرد کے کردار میں دکھایا گیا ہے جو حقیقت کے بالکل منافی ہے۔

فلم ڈائریکٹروں کو چاہیے تھا کہ اچھی اچھی اور عمدہ فلمیں بنا کر اپنے ملک کا نام روشن کرتے اور ان فلموں کو غیر ممالک میں بننے والی فلموں کے مدمقابل رکھ کر پرکھتے۔ ایسی فلمیں جو بھائی چارہ، آگاہی، اچھے اخلاق اور جینے کا صحیح ڈھنگ سکھاتیں لیکن ان کے ذہنوں پر منافرت پھیلانے کی دھن سوار ہے۔

فلموں کو سماج کا آئینہ ہونا چاہیے تھا جو منافرت، منفی رویے، سماجی برائیاں معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں ان کو آرٹ اور فن کے روپ میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہےتاکہ ان کو دیکھ کر لوگوں کے ذہن بدل جاتے اور ان برائیوں کی روک تھام ہوتی جو معاشرے میں پنپ رہی ہیں۔

اس کے برعکس یہ فلمیں برائیوں کو فروغ دے رہی ہیں۔ چوری کرنے کے ہتھکنڈوں سے آشنا کراتی ہیں۔ ٹھگنے کے نئے نئے طریقے سکھاتی ہیں۔ جنسی خواہشات کو ابھارتی ہیں۔ اغوا کرنے، مجرمانہ سرگرمیوں کو فروغ دینے، غنڈا کلچر، ہفتہ وصولی اور بلادکار جیسے کاموں کی ترغیب دیتی ہیں۔

یہ فلمیں بے ایمانی، اسمگلنگ، قتل، چوری، لوٹ مار اور دیگر مجرمانہ حرکات اور غلط طریقوں کی کمائی پر اکساتی ہیں۔ جس کے پاس دولت ہے اس کی عزت ہے چاہے وہ دولت ناجائز طریقوں سے ہی کیوں نہ کمائی گئی ہو، یہ سب ان فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔

1913ء میں مسٹر ڈی جی پھالکے نے ہندوستان کی پہلی فلم بنائی۔ پھالکے کو کیا پتا تھا کہ بعد میں ان ہی فلموں کے ذریعے فسادات، منافرت اور مجرمانہ افعال کو فروغ ملے گا۔ یہ ہرگز ان کا خواب نہیں تھا جس کے لیے انہوں نے اپنی پتنی کے زیورات تک بیچ دیے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).