نوجوانوں میں اخلاقی زوال کی وجہ کیا ہے؟


اخلاقیات اقدار کے ایسے مجموعے کا نام ہے جو معاشرے میں بے راہ روی اور مادر پدر آزادی کی روک تھام کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اخلاقی اقدار کی موجودگی ہی کسی معاشرے کو مہذب بناتی ہے۔ اخلاقیات سے وابستگی رکھنے والی قومیں ہی تاریخ کے اوراق میں اپنی جگہ بنا پاتی ہیں اور آئندہ آنے والی نسلیں ان کے طے کردہ اخلاقی ضابطوں کو نشان راہ سمجھتی ہیں۔ یہ اخلاقی اقدار سینہ بہ سینہ چلتی ہیں اور نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔ ان کے وجود سے ہی معاشرتی ڈھانچہ اپنا وجود برقرار رکھتا ہے اور تہذیب نشوونما پاتی ہے۔

یہ صرف ہمارا خیال نہیں بلکہ قوموں کی تاریخ پر نظر رکھنے والا عظیم مسلمان عالم ابن خلدون بھی ہمارے اس نقطۂ نظر کی تائید کرتا ہے۔ وہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب مقدمہ ابن خلدون میں بتاتا ہے کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہو جاتی ہے۔

ابن خلدون نے جو بات کہی ہے آج کے حقائق بھی اسے بالکل درست ثابت کرتے ہیں۔ اخلاقیات سے دور قومیں ترقی کی دوڑ میں بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بدن اخلاقی پستی کی طرف جا رہا ہے اور ہماری نوجوان نسل اخلاقیات سے عاری ہوتی جا رہی ہے جو کہ درد دل رکھنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ آئیے اس کے محرکات پہ بحث کرتے ہیں۔

میں سمجھتی ہوں آج سے پچیس، تیس برس پہلے ہمارے بزرگوں اور اساتذہ نے خود کو اور اپنے سے کم عمر متعلقین کو مذہبی اور معاشرتی اقدار کو مضبوطی سے جوڑے رکھا لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے سائنس اور ٹیکنالوجی نے دنیا بھر میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور اقوام عالم نے اس سے بے پناہ فوائد حاصل کیے ، لیکن ہم وہ بدنصیب قوم ہیں جس نے اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کر کے نہ صرف اپنی آنے والی نسل کو تباہ کیا بلکہ اپنے مذہبی، معاشرتی اور خاندانی نظام کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا۔ رہی کسر ہمارے میڈیا نے پوری کر دی جو اغیار کے ایجنڈے پر غیر محسوس طریقے سے ہماری نوجوان نسل کی غلط کردار سازی کر رہا ہے اور اس نقصان کا ادراک صاحبان اقتدار کو تو بالکل نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے والدین اخلاقی تربیت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ سب سے پہلی ذمہ داری ماں باپ کی ہے جو اپنے دینی اور اخلاقی فرض سے ایسے بے خبر ہو چکے ہیں کہ انہیں احساس تک نہیں کہ جس بچی کی کفالت پر جنت کی بشارت ہے، اس کی تربیت کے لیے ہم نے کیا سامان مہیا کیا؟

والدین بے خبر ہیں کہ ان کی جوان اولادیں دن کا بیشتر حصہ موبائل فون اور انٹر نیٹ کی خرافات میں گزار دیتے ہیں، جہاں سب سے پہلے دوستی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے پھر حرام کاری کو محبت کا نام دے کر نوجوان ایک دوسرے کو بلیک میل کرتے ہیں اور نتائج آئے روز اخبارات میں ہماری نظروں سے گزرتے ہیں۔ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو والدین کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔

ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ قوموں کی زندگی میں زوال پیسے یا وسائل کی کمی سے نہیں بلکہ اخلاقی پستی کی وجہ سے آتا ہے۔جس معاشرے کا مرد بگڑ جائے، وہاں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں نیلام ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے قرآن میں جہاں اللہ نے عورتوں کو اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کا حکم دیا وہیں پہلے مرد کو اپنی نگاہ نیچے رکھنے کا حکم دیا۔

اس اخلاقی پستی اور زوال کی بہت بڑی وجہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت کے عنصر کی عدم موجودگی ہے۔ ہماری تعلیم یافتہ نوجوان نسل اخلاقی تربیت سے بے بہرہ رہتی ہے اور محض نوکری کا حصول ان کا مطمح نظر ہوتا ہے جس کے لیے وہ تمام اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔

اس انحطاط کی ایک اور بڑی وجہ ٹیکنالوجی کا بے دریغ، غلط اور غیر ضروری استعمال ہے۔ ٹیکنالوجی کا غلط استعمال رشتوں کی بربادی کا باعث بن رہا ہے اور ہمارا معاشرتی ڈھانچہ بتدریج تباہی کا شکار ہے۔

دنیا جتنی پُرتعیش اور پُرسہولت آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔ جو سہولتیں آج ایک عام انسان کو میسر ہیں وہ پچھلے ادوار میں بادشاہوں کو بھی میسر نہیں تھیں۔ مگر یہ دنیا بلاقیمت دستیاب نہیں ہے۔ اس کے حصول کے لئے مال و دولت درکار ہے اور اس مال و دولت کو حاصل کرنے کے لئے انسان تمام اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر حلال حرام ہر طریقے سے دولت کمانے میں لگا ہوا ہے۔ یہ صورتحال جائز نا جائز اور حلال اور حرام کے فرق کو ختم کر چکی ہے۔ اس تن آسانی اور سہولت پسندی نے معاشرے سے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے پر آج کا انسان کا واحد مقصد مال و دولت کا حصول بن چکا ہے۔

ہماری نوجوان نسل میں اخلاقی اقدار کے اس قدر زوال کی مزید وجوہات طبقاتی تقسیم، جنسی بے راہ روی، مخلوط نظام تعلیم، اخلاقی تربیت کی کمی، مناسب رہنمائی کا فقدان وغیرہ ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر ہماری نوجوان نسل کو اخلاقی اقدار سے دور لے جا رہے ہیں جو کہ پورے معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

ان سب خرابیوں کے باوجود مایوس ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آج بھی اگر ہم قرآن وسنت کا دامن تھام لیں، اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں اور اپنے اسلاف کی شان دار اخلاقی روایات پر چلیں تو اس اخلاقی زوال سے بچا جا سکتا ہے۔

اگر سنجیدگی سے اس معاملے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے کچھ اقدامات اٹھائے جائیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم دوبارہ اس اخلاقی سطح پہ پہنچ جائیں کہ جس پر ہمارے اسلاف عمل پیرا تھے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ہمارے تعلیمی اداروں میں نہ صرف اخلاقی تربیت پر بھرپور توجہ دی جائے بلکہ اس سلسلے میں نصاب کو از سرنو مرتب کیا جائے اور عوام میں آگاہی پھیلائی ہے۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو انسان ایک بار پھر انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).