ملک عبدالقادر حسن کے روشن نقوش پا



‎دائرے میں مسافر کا سفر جاری ہے اب کی بار، ‎اسے ملک عبدالقادر حسن کے روشن نقوش پا پر چلنے کا مقدس قرض ادا کرنا ہے ۔ دائیں بازو کے سرخیل عبدالقادر حسن جو وادی سون سکیر سے لاہور کے مطلع صحافت پر نمودار ہوئے تھے، چھا گئے۔ رفعت آپا نے جس وقار اور عزیمت سے ملک صاحب کا ساتھ نبھایا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وہ خود بھی بے مثل لکھاری اور ادیب ہیں لیکن انہوں نے اپنے آپ کو گھر گرہستی کے دھندوں میں ایسا الجھایا کہ اپنے خاندان اور عبدالقادرحسن کی آسائش کے لیے لکھنا محدود کر دیا اور بتدریج‎ علم و ادب کے منظر سے محو ہو گئیں۔

یہ ‎انور عزیز چودھری تھے جو مرحوم جناب عبدالقادر حسن کو ہمیشہ ملک صاحب کہتے تھے۔ ان کا اشارہ اعوانوں کے پرشکوہ قبیلے کی نسبت کی طرف ہوتا تھا، مولاعلی کی غیر فاطمی اولاد برصغیر میں اعوان اور علوی کہلاتے ہیں۔ اور ان کی پیروی میں یہ خورد بھی ہمیشہ جھک کر ملک صاحب کی قدم بوسی کرتا۔

جناب عبدالقادر حسن نے کالم نویسی کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا اور سیاسی وقائع نگاری اور تجزیہ نگاری کی بجائے اردو صحافت کو سیاسی کالم نگاری کے انوکھے اور منفرد ذائقے سے روشناس کرایا، اکل کھرے عبدالقادر حسن دائیں بازو کی نظریاتی صحافت کے علم بردار اور جری شاہسوار تھے لیکن کبھی زاہد خشک نہ بنے، بڑی خاموشی اور لگن سے دو قومی نظریے اور دفاع پاکستان کے مقدس فریضے سے جڑے رہے۔

مدتوں واپڈا ہاؤس سے ملحق پنج ستارہ ہوٹل میں مجلسیں برپا کرتے رہے، جہاں دوست احباب اکٹھے ہوتے اور دنیا جہاں کے قصے کہانیاں بیان ہوتیں، اور بڑھتی عمر کے سبب پیدا ہونے والے جسمانی مسائل کی وجہ سے گوشہ نشیں ہوتے گئے۔

‎بزرگوارم عبدالقادر حسن کے پردہ فرمانے سے دائیں بازو کی صحافت، نظریاتی صحافت کا پرشکوہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ عبدالقادر حسن پنجاب میں پاکستان، نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریے کے لشکر کے آخری سپہ سالار تھے۔ اب تو دایاں رہا نہ بایاں، سب حرص و ہوس کا شکار ہوئے۔ انحراف کے ایسے بے مہر موسموں میں ملک عبدالقادر حسن نے ہمیں الوداع کہا کہ اب کوئی رہنما ہے نہ کوئی رہبر، سوداگر اور بیوپاری رہ گئے ہیں۔

‎ملک صاحب سے پہلی ملاقات 80 کی دہائی کے وسط میں ہمدم دیرینہ امجد ظہور وڑائچ کی شادی کے موقع پر ہوئی تھی، ہم باراتی تھے اور ملک صاحب صفدر چودھری مرحوم کی صاحبزادی کو رخصت کرنے آئے تھے۔ جماعت اسلامی کے طرح دار سیکریڑی اطلاعات صفدر چودھری مرحوم کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور یہ مبتدی وہیں عبدالقادر حسن سے پہلی نظر کی محبت کا شکار ہو گیا۔

یہ مرحوم جنرل ضیا کا دور عروج تھا، ملک صاحب افغان جہاد کے تناظر اور بھٹو مرحوم کے ہاتھوں لگنے والے زخموں کا شمار کرتے، جنرل ضیا مرحوم کی عاجزی و انکساری کے تذکرے کر رہے تھے کہ طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف تحریک کے دوران پولیس کے ہاتھوں لگنے والے زخموں کی ٹیسیں جاگ اٹھیں۔

اس کالم نگار نے جنرل ضیا اور اس کے مظالم بارے نوحہ خوانی شروع کردی، ملک صاحب میرے جوش و خروش اور دیوانگی پر بڑے سہج انداز میں مسکراتے اور لطف اندوز ہوتے رہے کہ مرحوم صفدر چودھری اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ چکر لگاتے ہوئے ہمارے پاس آ گئے اور ملک صاحب کو بتانے لگے کہ یہ ہمارا ”پرنس نائف“ ہے، ذرا تندوتیز ہے ۔ اس کے مضامین ”جنگ“ میں شائع ہوتے ہیں، یہ بڑا ہو کر اخبار نویس بنے گا ۔ اس کے سرپر دست شفقت رکھیں، اسے بیعت کر لیں، اب مدتوں سے ملک صاحب بڑھتی عمر کے عوارض کی وجہ سے گوشہ نشین ہو چکے تھے اور دنیا سے ان کا ایک موثر رابطہ برادرم لطیف چودھری تھے۔

خاکسار بہت زمانوں سے ہمیشہ انور عزیز چودھری کے ہمراہ ان کے دربار عالیہ میں حاضری دیتا۔ دونوں پرانے یار گزرے زمانوں کی یادوں سے دل بہلاتے اوریہ کالم نگار خاموش بیٹھا سر دھنتا رہتا۔ برادر عزیز اطہر حسن سے شاذ ہی کبھی گھر پر ملاقات ہوئی ہو گی، اب نہ انور عزیز چودھری رہے اور عبدالقادرحسن بھی اپنے ہم دم دیرینہ انور عزیز چودھری کے پیچھے پیچھے سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔

‎2020 جاتے جاتے بری بڑی قدآور شخصیات کے سر لے گیا ۔ پرشکوہ داستان گو اعظم خلیل، مہاگرو انور عزیز چودھری، بلبل چمن شریفین روف طاہر، جناب سعود ساحر اور نجانے کیسے کیسے لوگ اس جبر و جفا کے سنگدل موسم کی نذر ہو گئے۔

‎ملک عبدالقادر حسن کیا گئے، محفلیں ویران کر گئے، ہماری تو دنیا ہی اجاڑ گئے، ‎قلم وقرطاس سے ان کا رشتہ ایسا اٹوٹ تھا کہ آخری لمحے تک نبھایا اور لکھتے لکھتے سفر آخرت کو روانہ ہوئے۔

پس تحریر عرض ہے کہ ایکسپریس گھرانے سے وقت رخصت عرض کیا تھا ”آج بھاری دل اور پرنم آنکھوں کے ساتھ رخصت ہو رہا ہوں، خدا گواہ ہے کہ اس کا کبھی سوچا بھی نہ تھا لیکن (جنت مکانی جناب مجید نظامی رح) سے وفا شعاری اور احسان نوازی نے اس پر مجبور کر دیا ہے، خدا کا شکر ہے کہ سب دوست احباب جانتے ہیں کہ کوئی مادی منعفت یا جاہ طلبی اس معاملے میں بروئے کار نہیں ہے“

چار برس کی طویل مسافت کے بعد مالیاتی بحرانوں کا شکار میڈیا انڈسٹری سے دل اوب رہا تھا، کتابوں میں کھویا تھا کہ اچانک دوستوں نے حکم سنایا کہ ملک عبدالقادر حسن کا علم بلند کر کے ان کے روشن اور مقدس نقوش پا پر چلنا ہے، اپنی خوش بختی پر نازاں ہوں کہ محاذ بدلتا ہے لیکن مقصد اور منزل نہیں بدلی

اور کہتے ہیں، کابل دے جمیاں نوں نت مہماں۔ وہی ایاز خان، وہی لطیف چودھری اور اپنے بزرگ راؤ منظر حیات اور جاوید چودھری کو کیسے بھول سکتا ہوں، وہی سب کچھ اسی طرح تو ہے کچھ بھی نہیں بدلا، یہ بے وفا واپسی کی اجازت چاہتا ہے

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).