پولیس اصلاحات کیلئے رابرٹ پیل بن کر سوچیے


1829 تک لندن کے نظم و ضبط کی ذمہ داری رضاکار پولیس اہلکاروں کے ہاتھ میں تھی۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے لندن میں خصوصی تربیت یافتہ پولیس متعارف کروانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کام لیے ذمہ داری ایک ماہر نفسیات رابرٹ پیل کو سونپی گئی۔ رابرٹ پیل نے بہت محنت کے بعد لندن میٹرو پولیس کا نظام متعارف کروایا اور سب سے زیادہ فوکس پولیس کانسٹیبل کی تربیت، مہارت اور قابلیت پر کیا۔ لندن پولیس کانسٹیبل کو ”بوبی“ کہتے ہیں۔

بوبی رابرٹ پیل کا نک نیم تھا۔ بوبی کو رابرٹ پیل نے ہتھیار نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ آج بھی بوبی کے ہاتھ میں ایک سیٹی (وسل) اور ایک چھڑی ہوتی ہے۔ جو آج سے پونے دو سو برس قبل رابرٹ پیل تھما گیا تھا۔ تب روالور ایجاد ہو چکا تھا مگر رابرٹ پیل نے بوبی کو غیر مسلح کیوں رکھا؟ اس کی چند وجوہات تھیں۔

اس کے مطابق اس سے بوبی کا خوف زدہ امیج عوام میں نہیں جائے گا۔ دوسری وجہ بہت گہری تھی۔ رابرٹ پیل نے وضاحت کی جرائم پیشہ افراد خود کو عوام اور پولیس کے پاس موجود اسلحہ کے حساب سے مسلح کرتے ہیں۔

یعنی اگر پولیس والے کے پاس بندوق ہے تو جرائم پیش افراد جرم کے ارتکاب کے لیے خود کو رائفل سے مسلح کریں گے اور اگر رائفل ہے پولیس والے کے پاس تو وہ لوگ کلاشنکوف سے مسلح ہوں گے۔ جس سے ناصرف جرائم کی کامیابی کا تناسب بڑھ جاتا ہے بلکہ جانی نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اسی لیے لندن میں زیادہ تر وارداتوں میں چھری، پیپر کٹر یا اینٹ پتھر کا استعمال ہوتا ہے اور قتل کی وارداتیں کسی بھی بڑے شہر کی نسبت بہت کم ہیں۔ پولیس تربیت یافتہ ہے۔ منظم مخبری اور گشت کا نظام ہے جس کی وجہ سے جرائم کا فالو اپ موثر ہے۔

پاکستان میں آئیے،  پولیس کے نظام میں 1930 کے بعد سے کوئی موثر اصطلاحات نہیں ہوئیں۔ اگرچہ مشرف صاحب کے دور میں بھی پولیس اصلاحات ہوئیں لیکن وہ اس قدر نامکمل تھیں کہ انہوں نے پہلے سے موجود نظام کو بھی غیر موثر کر دیا۔ پولیس کے پاس ہنر مند افراد کی شدید قلت ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے فقدان کی وجہ سے 90 فیصد کیسسز میں یا تو سزا ہی نہیں ہوتی یا پھر غلط بندے کو ہو جاتی ہے۔

ایک طرف جہاں پولیس کو مسلح کیا وہیں پہ جرائم پیشہ افراد کو اسلحہ تک رسائی کا لیگل پرمنٹ جاری کر دیا جس سے چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں جانوں کا نقصان پہلے سے بھی زیادہ ہونا شروع ہو گیا۔ تربیت کی عدم موجودگی نے پولیس کو مافیا کا روپ دھارنے میں مدد دی۔ عوام اور پولیس میں فاصلوں نے مخبری کے اس نظام کی چولیں ہلا ڈالیں جس کی بنیاد پر انگریز کامیابی سے 90 سال حکومت کر کے گیا۔

ہم نے جرم کی نفسیات کو سمجھا اور نہ اپنی پولیس کو بوبی بنایا۔ ہم نے جاگیردارانہ سوچ سے پولیس کے محکمے کی سمت کا تعین کیا جس کا مقصد خوف و ہراس پیدا کر کے تسلط قائم کرنا تھا۔ پولیس کا محکمہ ایک ذمہ دار ریاستی ادارے کی بجائے ایک نجی سیکیورٹی ایجنسی میں تبدیل ہو گیا۔ اہلیت اور مہارت کی بجائے اقربا پروری اور رشوت نے لے لی۔ رہی سہی کسر نچلے طبقے کے پولیس اہلکاروں کو سہولیات پہنچانے سے ہاتھ کھینچ کر پوری کر دی۔ جس سے کام چوری اور رشوت کے ناسور کو ہوا ملی۔ جس کی وجہ سے روزانہ زیر حراست ملزمان کا قتل، ماورائے عدالت قتل، ساہیوال میں بچوں کے سامنے ان کے والدین کا قتل، اسلام آباد میں ایک نوجوان کا ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں قتل اور موٹروے پر ہونے والی خاتون سے زیادتی پر پولیس کا غیرمناسب ردعمل جیسے واقعات جنم لیتے ہیں۔

اگر ہم نظم ونسق کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو اس ضمن میں رینجرز اور فوج کی طرف دیکھنے کی بجائے کسی رابرٹ پیل کی طرف دیکھیں جو ہمیں ایک ایسا موثر جاندار اور متحرک پولیس کا نظام دے جو جدید تقاضے پورے کرنے کے ساتھ ساتھ عوام دوست، پائیدار اور باخبر بھی ہو۔ وہ حکومتی آلہ کاربننے کی بجائے ریاستی ادارہ ہو۔ فوج کی طرز پہ پولیس کا آزاد نظام ہو جس میں روزانہ کی بنیاد پہ پیشہ ورانہ ٹرینگ کے ساتھ ساتھ ریٹائرمنٹ کے بعد دیکھ بھال کی ضمانت بھی دی جائے۔

سی ایم ایچ کی طرز پر ان کے لیے ہسپتال قائم کیے جائیں۔ ان کے بچوں کے لیے تعلیم کی بہتر سہولیات بھی مہیا کی جائیں۔ جب اتنا کر چکیں تو پھر بے رحمانہ احتساب ہو تاکہ کسی پولیس والے کے ذہن میں ذاتی مفاد کے تحفظ کے لیے اپنے عہدے کا استعمال کرنے کی سوچ بھی نہ آئے۔

دوسرے مرحلے میں سوسائٹی کو اسلحہ کے کلچر سے پاک کر دیا جائے۔ ریاست اس کام کے لیے تمام شہریوں کوپہلے سے موجود ہر قسم کے اسلحے کے لائسنس فری جاری کرے۔ جس سے اسلحے کی نوعیت اور اس کے مالک کا بائیو ڈیٹا اکٹھا کر لے۔ جیسے ہی یہ کام ہو جائے ملک میں اسلحہ رکھنے کی ممانت کر دی جائے۔ لوگوں کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنا اسلحہ حکومت کو جمع کروا دیں اور اسلحے کی مالیت حکومت سے فوری وصول کر لیں۔

جمع شدہ ڈیٹا کے مطابق جب سارا اسلحہ اکٹھا ہو جائے تو حکومت کو میڈیا کی مدد لینی چاہیے ، عوام میں اعلان کروا دیا جائے جو شخص کسی کے پاس اسلحے کی نشاندہی کرے گا ، اسے کثیر انعام دیا جائے۔ انعام کی رقم پُرکشش اور فوری ادا ہونی چاہیے۔ اسلحہ برآمد ہونے کی صورت میں اس کو ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر سزا کے طور پہ اس کی جائیداد تک ضبط کر لی جائے۔ جب معاشرہ اسلحے سے پاک ہو گا تو جانی نقصان بھی کم ہو گا اور املاک کی حفاظت بھی موثر ہو گی۔

تیسرے مرحلے میں پراسیکیوشن کے ادارے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جرم کو ثابت کر کے سزا دلوانا قانونی طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ہمارے ہاں مدعی انصاف کے حصول میں در بدر ٹھوکریں کھا کھا کر مر جاتا ہے۔ جس میں مہنگے وکیلوں کے ذریعے قانونی معاونت بھی حاصل کی جاتی ہے۔ عدالتوں میں مدعی ساری جدوجہد اپنے وکلاء کے ذریعے ہی کرتا ہے اور لوگ اپنے مقدمے میں نمٹانے کے لیے بے گناہ لوگوں کو سزا دلوا دیتے ہیں۔

سرکاری وکیل محض اپنی رائے دینے پہ ہی اکتفا کرتا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے دوران محض کیس کا فیصلہ ہی نہ کیا جائے بلکہ ماتحت عدالتوں میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا تعین بھی کیا جائے۔ جھوٹی گواہی دینے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں، تھوک کے حساب سے ماتحت عدالتوں میں دی جانے والی سزاؤں پر ججز کا احتساب ہو۔ درست تفتیش کے نتیجے میں جرم ثابت نہ ہونے پر پراسیکیوٹرز کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔

جرم کی نفسیات اور معاشرتی حالات کے پیش نظر کی جانے والی اصلاحات ہی دیرپا اور موثر ہوتی ہیں۔ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ پولیس کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کر کے اور شہریوں کو سیلف ڈیفنس کی مد میں اسلحہ رکھنے کی اجازت دے کر جان اور مال کی حفاظت کو یقینی نہیں بنا سکے تو ایک مرتبہ معاشرے کو اسلحہ سے پاک کر کے، پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ اور جدید تربیت سے آراستہ کر کے دیکھ لیں۔ یقیناً موجودہ حالات سے بہتر نتائج آپ حاصل کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).