حکومت کو ہرا ہرا کیسے دکھائی دیتا ہے؟


ہمارے وزیراعظم، صدر مملکت، پی ٹی آئی کے وزرائے اعلیٰ، گورنرز، مشیران و ترجمانان حکومت کی فوج ظفر موج پاکستان کا کوئی فورم اور پریس کانفرنسوں میں کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس میں نہایت شدت کے ساتھ یہ راگ نہ الاپا جا رہا ہو کہ پاکستان کی معیشت اس وقت تاریخ کے بلند ترین مقام پر ہے اور اب اس کو اتنا استحکام حاصل ہو چکا ہے جو پڑوس کے ممالک میں سے کسی کو حاصل نہیں۔

اگر پی ٹی آئی کی 30 ماہ سے زیادہ کی کارکردگی کو سامنے رکھا جائے اور وزیراعظم سمیت پی ٹی آئی کی حکومت میں شریک یا حکومت سے باہر تمام مشینری کا جائزہ لیا جائے تو جن جن بلند و بانگ دعووں اور وعدوں کا حکومت اعلان کرتی رہی ہے ، وہ تمام کے تمام ایک ایسا سراب ثابت ہوئے ہیں جن کے حصول کے لئے بھاگنے والوں کی زبانیں تو باہر آ چکی ہیں لیکن پانی کی ایک بوند ان کو حاصل نہیں ہو سکی ، جس سے اپنی زبان تر کر کے اپنے خشک ہوتے حلق کو گیلا کر سکیں۔

شور تو بہت ہے کہ ہم نے معیشت کو درست راستے پر ڈال دیا ہے، صنعتوں کا پہیہ چل پڑا ہے، پاکستان کی تمام ملیں، کارخانے اور فیکٹریاں اپنی پوری استعداد کار کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ برآمدات بڑھ چکی ہیں، درآمدات کم ہو گئی ہیں، ملک میں خوشحالی بڑھ چکی ہے اور غربت کا خاتمہ بالخیر ہونے والا ہے۔

جس ملک کی ائیر لائن پابندیوں کا شکار ہو، ائیر لائن کے غیر ملکی ہوٹلز عدم ادائیگی کی وجہ سے مالکان واپس لے رہے ہوں، جس ملک کے سفارت خانے سفیر بیچ کھائیں اور حکومت کو کانوں کان خبر تک نہ ہو سکے، جس ملک کی اسٹیل مل برائے فروخت ہو، ریلوے، واپڈا اور ٹی این ٹی خسارے کا شکار ہوں، جس کے اسکول اور کالجز بند پڑے ہوں، جس ملک کے سی این جی اسٹیشنز ہفتے میں پانچ پانچ اور کئی شہروں میں ساتوں دن بند رہتے ہوں، جس ملک میں صنعتوں کی گیس بند کرنے کا فیصلہ صادر کیا جا چکا ہو، جس کے پاس پورے پاکستان کو 24 گھنٹے بجلی سپلائی نہیں کی جا سکتی ہو اور جس ملک میں ہر دس پندرہ دنوں کے بعد گیس، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہو، پھر حکومت سمیت پی ٹی آئی کی پوری مشینری بار بار یہ جھوٹ پر جھوٹ بولتی رہے کہ ملک کی معیشت مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو اس پر کہنے والا تو کہنے والا، سن کر یقین کر لینے والے کا دماغی معائنہ بہت ضروری ہو جاتا ہے۔

اگر اس تمام تر صورت حال کے باوجود بھی ملک حقیقتاً معیشت کی ترقی کے اشارے دے رہا ہے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ اس ملک کو انسان نہیں جنات چلا رہے ہیں جو ہر ادارے کے تباہ و برباد ہو جانے کے باوجود اپنی غیر مرئی طاقت کے ذریعے پاکستان کو خوشحالی کی جانب لے جا رہے ہیں۔

آج کی تازہ ترین خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے گیس بحران کے باعث پاورپلانٹ کو سپلائی بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، پاورپلانٹس کو یکم فروری سے گیس سپلائی مؤخر کر دی جائے گی، سپلائی بند کرنے سے 415 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی بچت ہو گی۔ سردیوں میں گھریلو صارفین کو گیس کی سپلائی حکومت کی اولین ترجیح ہے، علاوہ ازیں 976 صنعتی یونٹس کو بھی بند کر دیا جائے گا، اسی طرح ایکسپورٹ انڈسٹری کو بھی سپلائی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

معیشت کے درست سمت اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہنے کی ایک روشن دلیل یہ بھی ہے کہ کل ہی بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ ایک روپے 95 پیسے یہ کہہ کر اضافہ کر دیا گیا کہ نواز حکومت نے اپنے دور میں پاور سیکٹر میں سارے وہ معاہدے کیے جو بجلی مہنگی پیدا کرتے تھے کیونکہ پیدا ہونے والی وہ بجلی گیس، پانی، ہوا یا شمسی توانائی کی بجائے ڈیزل سے پیدا ہوتی تھی۔

حیرت اس بات پر ہے کہ بجلی کے مہنگے داموں پیدا ہونے کے باوجود عوام کو وہ 8 روپے فی یونٹ کے حساب سے فراہم کی جا رہی تھی اور موجودہ حکومت جو اس وقت حزب اختلاف میں ہوا کرتی تھی ، بجلی کے بل یہ کہہ کر جلا رہی تھی کہ یہ عوام پر ظلم ہے۔ آج جب وہ خود حکومت میں ہیں، اسی بجلی کو 22 روپے فی یونٹ فروخت کرنے کے باوجود آنے والے دنوں میں مزید مہنگا کرنے کے اشارے دے رہے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب موجودہ حکومت پاور سیکٹر کو فراہم کی جانے والی گیس بند کر دے گی تو کیا بجلی ”جنات“ کی توانائی سے پیدا کی جائے گی۔ ویسے ایسا کرنا ناممکن بھی نہیں ، اس لیے کہ جنات پیدا ہی ”آگ“ سے کیے گئے ہیں اور جب گھر سے باہر عاملوں کی کمی نہ ہو اور گھر کے اندر پیرنی کا راج ہو تو ”عینک والا جن، سامری جادوگر، بل بتوڑی ناساں چوڑی ہو یا زکوٹا“ سب ہی ناک رگڑنے پر مجبور ہو جایا کرتے ہیں۔

ان سارے حالات کو سامنے رکھ کر یہ بات سمجھنا کہ فارن کرنسی میں کیسے اضافہ ہو رہا ہے، ہم سستی بجلی کی جانب کیسے گامزن ہیں، ملک میں توانائی اور صنعتی شعبوں کو رواں رکھنے کے لئے ایندھن کہاں سے حاصل کیا جاتا ہے، دولت کے ڈھیر کے ڈھیر کہاں سے حاصل ہو رہے ہیں اور پورے ملک کے عوام ہر وقت جشن خوشحالی مناتے کیسے نظر آتے ہیں۔؟

کوئی بہت مشکل نہیں، جب نہ نظر آنے والے جنات حکومت کے تابع ہو جائیں تو کسی میں اتنی مجال کہاں کہ وہ بھوک و افلاس کے ہاتھوں مر جانے کے قریب پہنچ کر بھی حرف شکایت اپنے لبوں پر لا سکے۔ اب یا تو ناقدین پاگل ہو چکے ہیں جن کو اپنی زندگیاں پیاری نہیں یا راقم فاتر العقل ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی خرابی یا دماغ کا فتور ضرور موجود ہے ورنہ ہر جانب ہرا ہی ہرا کیسے نظر آ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).