عمران خان حکومت کے لیے بڑا چیلنج


عمران خان حکومت کے بقول ان کو حزب اختلاف کے اتحاد ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم“ سے کوئی بڑا خطرہ نہیں اور عملی طور پر یہ اتحاد داخلی تضادات کا شکار ہے۔ اسی طرح حکومت کے حامیوں کی ایک منطق یہ بھی ہے کہ حکومت کی تبدیلی اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے جب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی بڑا ٹکراو یا بداعتمادی کی سیاست ہو۔ حکومت کے بقول اسٹیبلشمنٹ سے ان کے تعلقات مثالی ہیں اور کوئی بڑی سیاسی مہم جوئی حکومت کے خلاف ممکن نہیں۔ پی ڈی ایم کی تحریک کا بھی دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو گرانا ان کے لیے ممکن نہیں اور لگتا ایسا ہی کہ عمران خان کی حکومت بھی اپنی مدت مکمل کر سکے گی۔

لیکن بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے کے باوجود عوامی سطح پر اپنی حکمرانی کی ساکھ کو قائم کر سکے گی؟ کیونکہ اب تک اڑھائی برس کی عمران خان کی حکومت کا سیاسی، سماجی، انتظامی اور معاشی تجزیہ کیا جائے تو ان کی حکمرانی کے نظام کو سنجیدہ نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔ ان اڑھائی برسوں میں عوامی سطح پر عمران خان کی حکومت کو نہ صرف عوامی محاذ پر بلکہ خود اپنی جماعت کے پرانے اور سنجیدہ افراد سمیت اہل دانش میں ساکھ کے بحران کا سامنا ہے۔ اس بات کا اعتراف خود حکومتی سطح پر موجود کئی وفاقی و صوبائی وزرا نجی مجالس میں کرتے ہیں کہ عوام ان کی کارکردگی سے نالاں نظر آتے ہیں۔

اس لیے یقینی طور پر حکومت کے لیے بڑا چیلنج پی ڈی ایم نہیں بلکہ خود ان کی حکمرانی کا نظام ہے۔ اس حکومت کو باہر سے کسی خودکش حملے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کام میں ان کی حکمرانی کا انداز کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ کو سخت وارنگ دی گئی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کو درست کر لیں وگرنہ ان کی کابینہ سے چھٹی بھی ہو سکتی ہے۔

عمران خان کی حکومت کو حکمرانی کے نظام میں چار بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔اول۔ معیشت کی بگڑتی صورتحال بالخصوص عام آدمی کی معاشی مشکلات، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کا ہونا، دوم، تواتر کے ساتھ انتظامی معاملات پر کنٹرول نہ ہونا اور بار بار تبدیلیوں کے باعث نظام کا موثر نہ ہونا۔ سوم، اچھی حکمرانی کو موثر بنانے کے لیے مسلسل مقامی حکومتوں کے نظام سے انحراف کرنا۔ چہارم، سیاسی محاذ پر کمزور ٹیم یا غیر سیاسی افراد کی بالادستی اور ایک واضح روڈ میپ کی کمی کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔

اب جبکہ عمران خان کی حکومت اپنے اڑھائی برس کی مدت پوری کر چکی ہے تو اس کے سامنے ایک بڑا چیلنج 2023 کے نئے انتخابات ہوں گے ،اسے نئے انتخابات میں جانے سے قبل کچھ ایسا کر کے دکھانا ہو گا کہ لوگوں کو لگے کہ ان کے حالات میں کچھ بہتری پیدا ہوئی ہے۔ عام آدمی کو یہ بہتری محض سیاسی نعروں یا وعدوں کی شکل میں نہ دکھائی جائے بلکہ عملی طور پر اس کی واضح اور شفاف شکلیں عام آدمی کی زندگی میں عملاً نظر آنی چاہیے۔ اس لیے 2021 کا برس عمران خان حکومت کے پاس عوامی سیاست کے تناظر میں اعتماد کی بحالی کا برس ہو گا۔

عمران خان حکومت کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ  پی ڈی ایم کی تحریک کو جو کچھ حمایت عوامی سطح پر مل رہی ہے اس کی وجہ بھی حکومتی کارکردگی سے لوگ ناخوش نظر آتے ہیں۔ اگرچہ اس ملک میں حکمرانی کا بحران ہمیشہ سے رہا ہے۔ ماضی کی دونوں بڑی جماعتوں کی حکعمتیں بھی بحرانوں کا شکار رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی تو اس وقت تیرہ برسوں سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، لیکن وہاں کی حکمرانی کے نظام پر بھی سوالیہ نشانات ہیں۔ عمران خان جو ایک بڑی تبدیلی اور بہتر حکمرانی کے دعوے کے ساتھ آئے تھے اور انہوں نے ان دونوں بڑی جماعتوں کی حکمرانی کو چیلنج کیا تھا ،وہ بھی اب تک کوئی بڑا سیاسی فرق حکمرانی کے نظام میں قائم نہیں کر سکے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ پچھلے دو ماہ میں مجموعی طور پر ہمارے معاشی اشاریے درست ہوئے ہیں اور ہمیں کچھ کامیابی بھی ملی ہے۔ لیکن یہ سب کامیابیاں اوپر کی سطح پر ہیں۔ جب تک معاشی اشاریوں کی ترقی کا اثر عام آدمی کی زندگی پر نہیں پڑے گا لوگوں میں معاشی بے چینی یا مایوسی کا عمل کم نہیں ہو سکے گا۔ ایک اچھا کام حکومت کے بقول وہ 2022 تک پورے ملک میں ہیلتھ کارڈ کو یقینی بنا دے گی اور اگر ایسا ہوتا ہے اور واقعی لوگوں کو یا خاندان کو اس ہیلتھ کارڈ سے ریلیف ملتا ہے تو ایک بڑی تبدیلی ہو سکتی ہے۔

مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کا مہنگائی پیدا کرنے والے اور انتظامی اداروں پر جب تک مکمل کنٹرول یا ان کی جوابدہی کا تصور مضبوط نہیں ہو گا، کچھ نہیں ہو سکے گا۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر فعال بھی ہیں اور ان کو عملی طور پر استعمال بھی نہیں کیا جا رہا۔ عمران خان حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد حکمرانی کی بہتری میں کلیدی کردار صوبائی حکومتوں کا ہوتا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کی اپنی صوبائی حکومتیں ہیں اور ان کارکردگی بھی وہ کچھ نہ دکھا سکی، جو نظر آنی چاہیے تھی۔

عوامی سطح پر جو مسائل سرفہرست ہیں ، ان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، علاج یا ادوایات کی قیمتوں میں اضافہ، پٹرول، بجلی، گیس کی قیمتوں کا بڑھنا، پولیس زیادتیاں اور عدم انصاف سمیت روزگار کے مواقع نہ ہونا ہیں۔ یہی وہ بنیادی نوعیت کے مسائل ہیں جو اس وقت عوامی سطح پر ریلیف کے تناظر میں حکومت کے لیے چیلنج بھی ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے پاس اب زیادہ وقت نہیں اور ان کو واقعی اگر کچھ کر کے اپنی حکومت کی ساکھ قائم کرنا ہے تو ان کو بہت تھوڑے عرصے میں غیر معمولی اقدامات یا ہنگامی بنیادوں کچھ بڑا کام کرنا ہو گا۔

یہ کام روایتی انداز یا حکمرانی سے ممکن نہیں ، کچھ بڑے کام کرنے ہیں تو کڑوی گولیاں خود بھی کھانی ہوں گی اور دوسروں کو بھی کھلانی ہوں گی۔ عمران خان حکومت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اصل بحران پی ڈی ایم نہیں بلکہ حکمرانی کا نظام ہے جو اپنے اندر بڑی جاندار اصلاحات چاہتا ہے اور وہ اپنی روایتی یا غیر سیاسی ٹیم کی مدد سے ممکن نہیں ہو گا۔

کرپشن، بدعنوانی، احتساب کے نعرے یا سابق حکمرانوں کو قصور وار قرار دینا اپنی جگہ لیکن لوگ ان نعروں کے ساتھ ساتھ حکمرانی کے نظام میں بھی بڑی موثر اور مثبت تبدیلیاں دیکھنا چاہتے ہیں جو براہ راست عوامی مفاد سے جڑی ہوں۔ اس کے لیے موجودہ حکومت کے پاس وقت زیادہ نہیں اور چیلنجز بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے اگر وہ اپنے سیاسی مخالفین پر بڑی سیاسی برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی میں بہت کچھ کر کے عملی طور پر دکھانا ہو گا۔

ان کے سیاسی مخالفین انتخابی سیاست میں کمزور نہیں اور سیاسی مخالفین حکومتی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر دوبارہ برتری بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے وزیر اعظم عمران خان کو اپنی وفاقی، صوبائی حکومتوں اور وفاقی و صوبائی وزرا سمیت مشیروں کی فوج در فوج میں بھی بڑی سیاسی تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور بالخصوص سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد پر بھروسا کر کے حکمرانی کے اس بحران میں کچھ اچھی مثالیں قائم کرنا ہوں گی جو ان کی سیاسی بقا کے لیے ضروری ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).