امریکا اور پاکستان: اُدھر تم تیار اِدھر ہم بیکار


ادھر آپ امریکہ کو دیکھیں، انتخابی معرکہ بہت سخت تھا۔ ٹرمپ کی وجہ سے امریکہ واضح طور پر نسل پرستی کا شکار دکھائی دیا۔ زیادہ تر گورے ٹرمپ کے پیچھے کھڑے تھے۔ ڈیموکریٹس کے نسبتاً معتدل رویے اور بغض ٹرمپ میں لبرلز، ایفرو امریکی اور دوسرے ایشائی جو بائیڈن کے پیچھے کھڑے ہو گئے تھے۔

ٹرمپ اپنی ہار کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس نے پہلے بھی کہہ رکھا تھا کہ وہ اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرے گا اور نہ ہی پرامن انتقال اقتدار کی گارنٹی دے گا۔ یہی ہوا۔ ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا، جانیں ضائع ہوئیں، کرفیو لگا، سوشل میڈیا کے دو بڑوں نے ملک کے صدر کو بین کر دیا، ٹرمپ نے جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہ کی اور ملک کا واحد صدر بن گیا جس کا دو دفعہ مواخذہ ہوا،  چند دن اور ہوتے تو شاید صدارت سے معزول کر دیا جانے والا پہلا امریکی صدر بھی بن جاتا۔ انتقال اقتدار کے وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری تعداد واشنگٹن کی گلیوں میں موجود تھی۔

یہ امریکہ کے لیے غیر معمولی حالات تھے جن میں 78 سالہ جو بائیڈن نے حلف اٹھایا۔ پیچھے ٹرمپ تھا تو آگے کورونا اور معاشی مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ امریکہ کی سپرمیسی جتنی اس وقت خطرے میں ہے شاید ہی کبھی رہی ہو گی۔ پھر بھی امریکی صدر حلف کی کارروائی پوری ہوتے ہی اپنے دفتر گیا۔ فائلیں تیار تھیں ، صدر نے پہلے دن ہی 17 احکامات پر دستخط کیے۔ یہ دستخط معمولی احکامات سے متعلق نہیں تھے بلکہ ان کی بنیاد پر آئندہ چار سال میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسی کی سمت متعین کر دی گئی ہے۔ وجہ یہ کہ جو بائیڈن کی ٹیم کی تیاری مکمل تھی اور اقتدار سنبھالنے سے بہت پہلے کام شروع ہو چکا تھا، دستخط تو رسمی کارروائی تھی۔

ادھر ہم ہیں ، وزیراعظم عمران خان نے چند ہفتے پہلے فرمایا تھا کہ ان کی اقتدار میں آنے کی تیاری نہیں تھی۔ حالانکہ جناب وزیراعظم ہمیشہ انٹرویوز اور تقریروں میں اپنی بائیس سالہ جدوجہد اور پانچ سالہ کے پی کے حکومت کو اپنا تجربہ بیان کیا کرتے تھے۔ کتابوں کے اور مختلف ماڈلز کے حوالے دیا کرتے تھے اور یہ باور کرانے کی کوشش کیا کرتے تھے کہ ان کے سہارے وہ پہلے دن سے پاکستان میں ایک عظیم حکومت کی داغ بیل ڈال دیں گے، جہاں انصاف اور احتساب کا دور دورہ ہو گا، جہاں غریب آگے آگے ہو گا اور اس کا رزق اس کے پیچھے۔ جہاں اگلے پچھلے قرض چکا کر ملک کا ہر باسی شہد، زیتون اور دیسی انڈوں سے لطف اندوز ہو رہا ہو گا۔

یہ فرق ہے ہمارا اور مغربی جمہوریت کا۔ جہاں اپوزیشن جلسے جلوسوں میں ذاتی تنقید اور طعنوں کی بجائے پالیسیز پر تنقید کرتی ہے۔ حکومت، اپوزیشن اور میڈیا سچ قوم کے سامنے لے کر آنے کی جدوجہد میں مسلسل مصروف رہتے ہیں، فوج کی طرف منہ کرنے کی بجائے عوام سے رجوع کرتے ہیں۔ اپوزیشن ایک ”شیڈو کابینہ“ بنا لیتی ہے جو حکومت کی پالیسیز پر گہری نظر رکھتی ہے اور ساتھ ساتھ سیکھنے اور تیاری کے عمل سے گزرتی ہے۔ اسی لئے جس دن اقتدار میں آئیں اسی دن سے کام شروع ہو جاتا ہے۔ پہلے تیس دن، پہلے سو دن ایک سنگ میل کے طور پر ہوتا ہے کہ ہم  نے اپنا سفر صحیح سمت جاری رکھا ہوا ہے نہ یہ کہ ”اس لیے کہ ابھی تیس دن ہوئے ہمیں سمجھ نہیں آئی اور ابھی سو دن ہوئے ہیں ہم سیکھ رہے ہیں۔”

ہمارے مسلسل سیکھنے اورمسلسل کچھ بھی نہ سیکھتے چلے جانے کی ایک وجہ اور بھی ہوتی ہے ، وہ یہ کہ ہمارے معاشی معاملات ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف طے کرتے ہیں، خارجہ اور داخلہ پالیسیاں بڑی طاقتوں اور فوج کی مرہون منت ہوتی ہیں، اطلاعات کا سارا نظام اپوزیشن کے گرد گھومتا ہے، وزارتیں جان پہچان اور پیروں کے سہارے بانٹی اور چلائی جاتی ہیں۔

ہر برا کام ”سابقین“ کی گردن پر لاد دیا جاتا ہے اور عوام براڈ شیٹ جیسے بڑے سکینڈل آنے کے بعد بھی مریم اورنگ زیب اور شبلی فراز کی وضاحتوں اور الزامات میں مطمئن کھڑے اپنے اپنے قائد کو پاک صاف اور دوسرے پر تبرا کر کے فارغ اور مطمئن ہو جاتے ہیں۔ جمہوری معاشروں میں پارلیمنٹ ہی وہ واحد جگہ ہوتی ہے جہاں آپ حکومت میں آنے کی تیاری کرتے ہیں ، یہاں وہ سیکھنے سکھانے کی بجائے الزامات اور گرما گرم تقریروں کا محور و مرکز بنی رہتی ہے۔

ہاں اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنے دیں گے، فرانس کے سفیر کو باہر نکالیں گے، بلیک میل نہیں ہوں گے، چیخیں نکلوائیں گے، پیٹ پھاڑیں گے، سڑکوں پر گھسیٹیں گے، دھرنے دیں گے، مارچ کریں گے لیکن حکومت سازی کے لئے تیاری نہیں کریں گے۔

بیک وقت مطمئن اور غیر مطمئن عوام کبھی آنے والے امریکی صدر سے امید لگا لیتے ہیں، کبھی چین کونجات دہندہ سمجھ لیتے ہیں۔ کبھی محمد بن سلمان ہمارا قبلہ و کعبہ ہو جاتا ہے کبھی مہاتیر محمد محور و مرکز۔ کبھی کوئی جرنیل نشانہ مشق ستم بنا جاتا ہے تو کبھی کوئی جج ٹکر جاتا ہے۔ کبھی کوئی موسوی چونا لگا جاتا ہے تو کبھی کوئی پاور پلانٹ کمپنی کتھا لگا جاتی ہے۔ کبھی ہم باکمال لوگوں کی کوئی سالم لاجواب غائب ہو جاتی ہے تو کبھی کوئی جہاز کسی ائیرپورٹ پر پکڑا جاتا ہے۔

بھئی کریں بھی تو کیا کہ ابھی ہماری تیاری ہی مکمل نہیں۔ ادھر تم تیار ادھر ہم بیکار


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).