بادشاہ سلامت کی خلعت صد چاک اور صحافی کی لاتعلقی


ایک صاحب ہوتے تھے لیفٹنٹ جنرل مجیب الرحمٰن۔ ضیا مارشل لا کے ساتھ ہی سیکرٹری انفارمیشن کے طور پر نمودار ہوئے۔ نفسیاتی جنگ کے ماہر تصور کیے جاتے تھے۔ واللہ! جنرل صاحب نے اپنے ہی عوام کے خلاف مارچ 1985 تک شجاعت کے بھرپور جوہر دکھائے تاوقتیکہ وزیر اعظم جونیجو نے انہیں اس ذمہ داری سے سبکدوش نہ کر دیا۔ ٹیلی وژن پر ظلم کی داستانیں، وائٹ پیپرز کی اشاعت، کھیل کی خبروں کو شہ سرخی اور مشاعروں کو مزاحیہ تماشے میں بدلنا تو چشم تماشائی کی نظر بندی کے معمولی کرشمے تھے۔ جنرل صاحب نے سنسر شپ، اخبارات کی بندش، صحافیوں کی جبری بے روزگاری، قید و بند اور کوڑوں کی سزاﺅں سے لے کر پریس ایڈوائس اور کھلی دھمکیوں کے ذریعے پاکستانی صحافت کا جنازہ نکال دیا۔ مفید مطلب صحافیوں کی پہچان میں خاص مہارت تھی۔ ان کے کاشتہ پودے آج تک صحافت کا جھاڑ جھنکاڑ ہیں۔ جنرل صاحب کسی صحافی میں سرکشی کے آثار دیکھتے تو اسے ”معصوم“ قرار دیا کرتے تھے۔ مفہوم یہ تھا کہ عاقبت نا اندیش صحافی مطلق العنان حکومت کے نفس ناطقہ کی طاقت نہیں سمجھتا۔ یہاں جنرل صاحب کی فراست ٹھوکر کھا گئی۔ ’معصوم‘ کا لفظ محض ایک اخلاقی بیان نہیں، یہ سیاسی جمالیات کا فلسفہ ہے۔ معصوم بے خبر نہیں ہوتا، خوشبو کی حفاظت میں علائق دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ جنرل صاحب نے نومبر 2009ء میں دنیا سے پردہ کیا تو گویا حرف بے معنی کی طرح بے نشان ہو گئے۔ ابراہیم جلیس، نثار عثمانی، منہاج برنا اور مسعود اللہ خان سمیت وہ سینکڑوں صحافی پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے جنہوں نے بندوق اور قلم کے گٹھ جوڑ سے بنے غیر آئینی گھونسلے میں پناہ لینے سے انکار کیا۔

معصومیت کی بات چلے تو ڈنمارک کا ہانس اینڈرنس ضرور یاد آتا ہے جس نے بچوں کے لئے دل موہ لینے والی ان گنت کہانیاں لکھیں۔ اپنی کہانی ’شہنشاہ کا لباس‘ میں اس نے سربازار خلعت شاہ کی حقیقت بیان کرنے والے معصوم بچے کی صورت میں ضمیر انسانی کا استعارہ تخلیق کیا تھا۔ یہ محض ایک کم عمر بچے کی کہانی نہیں، یہ منصب یونان کے بزرجمہروں سے مکالمہ کرنے والے فلسفی سقراط کے حصے میں آ سکتا ہے، فسطائیت کے اوتار مسولینی کی مزاحمت کرنے والے سیاسی مفکر انتونیو گرامچی کو یہ عزت نصیب ہو سکتی ہے، محمود درویش کے شعر میں سلطان کی بے بضاعتی بیان ہو سکتی ہے، سولزے نتسن کی نثر گولاگ کا پردہ چاک کر سکتی ہے اور کبھی کوئی سیاسی رہنما گوجرانوالہ کے جلسے میں خوف کا پردہ چاک کر سکتا ہے۔ ایک صحافی کا قلم تو اس فرض کی ادائی کا حلف اٹھا کر خبر دینے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے لیکن صحافی کو درماندہ راہرو کی صدائے صحرا جیسی وہ سہولت حاصل نہیں جو ایک دانشور، مفکر اور شاعر کو حاصل ہوتی ہے۔ صحافی کو اپنی بات کہنے کے لئے صحافتی ادارے کی ضرورت ہے اور صحافتی ادارہ سود و زیاں کی دیدہ و نادیدہ زنجیروں میں بندھا ہوتا ہے۔ ہمارے کراچی والے شاعر شمیم احمد نے کہا تھا نا، ’بات بین السطور ہوتی ہے / زیست میں حاشیہ نہیں ہوتا۔‘ آئیے آپ کو ایک قصہ سنایا جائے۔

ہالی ووڈ کے ڈائریکٹر جان فورڈ نے 1962ء میں ایک فلم بنائی تھی The Man Who Shot Liberty Valance ۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ شن بون کے قصبے میں لبرٹی ولانس نام کے ایک غنڈے نے آفت اٹھا رکھی تھی۔ سٹیٹفورڈ ایک غریب وکیل ہے اور چاہتے ہوئے بھی ولانس کی غنڈہ گردی کا مقابلہ نہیں کر سکتا چنانچہ قصبہ ہی چھوڑ جاتا ہے۔ قسمت مہربان ہوتی ہے اور سٹیٹفورڈ ترقی کی منزلیں طے کرتے کرتے اپنے آبائی قصبے سے سینیٹر منتخب ہو جاتا ہے۔ ادھر جرائم کی دنیا میں بدستور لبرٹی ولانس کا سکہ چل رہا ہے اور وہ ایک روز مقامی اخبار کے دفتر پر ہلہ بول دیتا ہے، ایڈیٹر میکسویل سکاٹ سخت زخمی ہوتا ہے۔ مجرم کو سب جانتے ہیں لیکن سینیٹر سٹیٹفورڈ کے سوا کون ہے جو مجرم کی طرف انگلی اٹھا سکے۔ سٹیٹفورڈ ایڈیٹر سے ملتا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ اس واقعے کی حقیقی خبر دے گا یا نہیں؟ ایڈیٹر کا جواب سنیے :

 No sir. This is the West, sir. When the legend becomes fact, print the legend. (نہیں جناب، یہ ایک اور دنیا ہے۔ جہاں جھوٹ کو سچ قرار دے دیا جائے، وہاں جھوٹ ہی چھاپنا پڑتا ہے۔ )

تو کیا یہ محض ساٹھ کی دہائی میں امریکہ کی جرائم پیشہ دنیا کا المیہ تھا؟ عزیزو، درویش قومی اخبارات کے صفحہ اول پر ایک کالمی خبر میں ایک جیسے الفاظ پڑھتا ہے تو اسے میکسویل سکاٹ کی مجبوری اور ان معاشروں کا المیہ سمجھ آتا ہے جہاں اخبار پڑھنے والے کا خبر سے اعتبار اٹھ جائے، انصاف مانگنے والے کو عدالت پر بھروسا نہ رہے، طالب علم کو ممتحن کی دیانت پر اعتماد نہ رہے، شہری کو انتظامیہ سے غیر جانبداری کی توقع نہ رہے، جرائم پیشہ ٹولے قانون شکنی پر جواب دہی کے امکان سے بے نیاز ہو جائیں، رائے دہندہ کو انتخابی نتائج کا پہلے سے علم ہو جائے، قانون ساز اپنے ہی رہنماﺅں کی بدنیتی سے آگاہ ہو جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کوئی شہری یقین سے یہ نہ بتا سکے کہ چھ مہینے بعد ملک میں سیاسی بندوبست کی کیا صورت ہو گی؟ امریکہ کے اساطیری ہدایت کاروں میں شمار ہونے والے ڈائریکٹر جان فورڈ 1973 ءمیں انتقال کر گئے تھے۔ آج زندہ ہوتے تو اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ عصر حاضر کا لبرٹی ولانس تنہائی اور رسوائی کی حالت میں وائٹ ہاﺅس سے رخصت ہوا ہے۔ نئے صدر نے اپنے دفتر میں مارٹن لوتھر کنگ، رابرٹ کینیڈی، روزا پارکس، ایلینور روزویلٹ اور سازر شاویز کے مجسمے رکھ دیے ہیں۔ یہ تفرقے اور نسل پرستی کی سیاست سے اتحاد، رواداری اور شہریوں سے ہم دلی کی طرف سفر کا اشارہ ہے۔ دیکھیے، کب دیکھتے ہیں نگاہ والے۔ ہمارے شاعر احمد مشتاق نے بھی نوید دے رکھی ہے

آنکھ سے آنسو نکل جائیں گے اور ٹہنی سے پھول

وقت بدلے گا تو سب قیدی رہا ہو جائیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).