انڈیا میں کورونا ویکسینیشن: بعض لوگوں میں کووڈ 19 کی ویکسین سے ہچکچاہٹ، کیا اس ٹیکے کے کوئی منفی اثرات سامنے آئے ہیں؟


انڈیا میں شہریوں کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین دینے کا عمل ایک ہفتہ قبل شروع ہوا تھا اور انڈیا کی وزارت صحت کے مطابق پہلے دو دن میں تین لاکھ 81 ہزار سے زیادہ افراد کو ویکسین دی گئی تھی۔

جب کہ اس دوران ویکسین حاصل کرنے والے 580 افراد میں اس کے ’ایڈورس ایفیکٹ‘ یعنی منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔

اگر پہلے دو دن کی بات کی جائے تو منفی اثرات والے کیسز کی تعداد لگ بھگ صرف 0.2 فیصد ہے۔ تاہم اس معاملے نے انڈین شہریوں کے دلوں میں نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔

اس کے باوجود انڈین حکومت اپنے ویکسینیشن مہم کے پہلے دو دن کے ہدف کو 64 فیصد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

حکومت پہلے دو دن میں تقریباً تین لاکھ 16 ہزار لوگوں کو کورونا کی ویکسین لگانا چاہتی تھی، تاہم ان دو دنوں میں ویکسین حاصل کرنے والوں کی تعداد 2 لاکھ 24 ہزار رہی۔

آغاز میں کئی ریاستوں میں لوگ ویکسین لگوانے کے لیے ویکسینیشن کے مراکز میں نہیں پہنچے تھے۔ اگر نئی دہلی کی بات کریں تو ابتدائی دنوں میں مقررہ لوگوں میں سے صرف 54 فیصد افراد کو ہی ویکسین دی جا سکی۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان کورونا ویکسین کی خریداری کا معاہدہ کرنے میں تاخیر کا مرتکب ہو رہا ہے؟

تاریخ کا سبق: کورونا کے بعد ’فضول خرچی اور جنسی بے راہ روی کا دور آ سکتا ہے‘

2021: دنیا کے بعض ممالک میں پابندیوں کے سائے میں نئے سال کا آغاز

عالمی وبا کے ابتدائی مرکز ووہان میں ایک سال بعد زندگی کیسی ہے؟

اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ کن ’منفی اثرات‘ کی وجہ سے لوگ ویکسین نہیں لگوا رہے ہیں؟ یا اس کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے؟

انڈٰیا کی وزارت صحت کے مطابق ویکسینیشن شروع ہونے کے بعد پہلے ہی روز سب سے زیادہ ویکسین لگانے کی شرح انڈیا میں ہے۔ یہ تعداد امریکہ، برطانیہ اور فرانس سے بھی زیادہ ہے یعنی ان ممالک میں پہلے ہی دن اتنی بڑی تعداد کو ویکسین نہیں دی گئی۔

لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ حفاظتی ویکسین لگانے کے بعد ہونے والے ’منفی اثرات‘ کیا ہیں اور ان کے نمودار ہونے کی شرح کتنی ہے؟

چند افراد کو کن منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا؟

ویکسینیشن کے منفی اثرات

مرکزی وزارت صحت کے ایڈیشنل سکریٹری ڈاکٹر منوہر اگنانی نے ان منفی اثرات کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے۔

ان کے بقول ’حفاظتی ویکسین لگنے کے بعد کسی شخص میں کسی بھی غیر متوقع طبی پریشانی کو ’ایڈورس ایفیکٹ‘ یا منفی اثر کہا جاتا ہے۔‘

’یہ منفی اثر بذات خود ویکسین کی وجہ سے ہو سکتا ہے جبکہ یہ پیچیدگی ویکسینیشن کے عمل یا کسی اور وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ منفی اثرات تین اقسام کے ہوتے ہیں، معمولی، سنگین اور انتہائی سنگین۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان شکایات میں زیادہ تر معمولی ہیں، جنھیں ’مائنر ایڈورس ایفیکٹ‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے کیسز میں درد، ٹیکے کی جگہ پر سوجن، ہلکا بخار، جسم میں درد، گھبراہٹ اور الرجی جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

مگر چند کیسز میں سنگین منفی اثرات بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔

ایسے کیسز میں ویکسین لگوانے والے فرد کو تیز بخار ہو سکتا ہے یا ان میں انفلیکسس (شدید الرجی) کی شکایت ہو سکتی ہے۔ تاہم ان پیچیدگیوں کے دور رس اثرات نہیں ہوتے ہیں۔ اس نوعیت کے اثرات کے شکار افراد کو ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

لیکن انتہائی سنگین ایڈورس ایفیکٹ کے حالات میں بعض اوقات ایمرجنسی بنیادوں پر ہسپتال کا رُخ بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ویکسین لگنے کے بعد انتہائی سنگین نوعیت کے اثرات انتہائی کم ہوتے ہیں۔ تاہم بعض کیسز میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے یا کسی کی زندگی پر بھی اثرات پڑ سکتے ہیں۔

انڈیا میں ابتدائی دو دن کی ویکسینیشن مہم کے دوران صرف تین افراد کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے، جن میں سے دو کو ابتدائی علاج معالجے کے بعد گھر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

نئی دہلی کے راجیو گاندھی سپر سپیشلیٹی ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر بی ایل شیروال کے مطابق عموماً ویکسینیشن مہم کے دوران اس طرح کے ایڈورس ایفیکٹ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پوری ویکسینیشن مہم کے دوران اس طرح کے پانچ سے 10 فیصد تک کیسز سامنے آتے ہیں۔

انفلیکسس کیا ہے؟

بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں ڈاکٹر بی ایل شیروال نے کہا کہ جب کسی شخص کو ویکسینیشن کے بعد شدید الرجی ہوتی ہے تو اس حالت کو انفلیکسس کہتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ویکسین نہیں ہوتی بلکہ جسم میں کسی بھی دوا کے باعث الرجی ہونے پر اس طرح کی پریشانی دیکھی جاتی ہے۔

ایسے حالات میں پھر ڈاکٹر اپنی کٹ میں ایک اور ٹیکا رکھتے ہیں تاکہ اس کے اثر کو فوری طور پر کم کیا جاسکے۔ لیکن بہت کم ہوتا ہے کہ اس کی ضرورت پڑے۔

منفی اثرات کی صورت میں ڈاکٹر کیا کرتے ہیں؟

اس سے متعلق ہم نے طبی ادارے ایمز کے ہیومن ٹرائل کے سربراہ ڈاکٹر سنجے رائے سے بات کی۔

انھوں نے کہا کہ ایڈورس ایفیکٹ فالوؤنگ امیونائزیشن (منفی اثرات کے بعد احتیاط) کے لیے پہلے سے ہی پروٹوکول (طریقہ کار) طے ہے۔ اس کے لیے ویکسینیشن سنٹر میں ڈاکٹروں اور عملے کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ویکسین لگانے کے بعد ہر شخص سے کہا جاتا ہے کہ وہ 30 منٹ تک ویکسینیشن سینٹر میں انتظار کریں تاکہ کسی بھی طرح کے منفی اثرات پر نظر رکھی جاسکے۔

ہر ویکسینیشن سینٹر میں اس کے لیے ایک کٹ تیار کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انفلیکسس کی حالت سے نمٹنے کے لیے کچھ انجیکشن، پانی چڑھانے والی ڈرپس اور دیگر چیزیں ضروری ہیں۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قریبی ہسپتال میں خبر دینی ہوگی اور اس کے بارے میں ایپ پر تمام تفصیلی معلومات کو بھرنا ہوگا۔

ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ویکسین کو صحیح طریقے سے محفوظ رکھا جائے، ویکسین لگانے سے پہلے شخص کی طبی ہسٹری کے بارے میں مکمل معلومات لی جائے۔

کسی دوا سے الرجی کی صورت میں حکومت کے قواعد کے مطابق اس شخص کو کورونا ویکسین نہیں دی جاسکتی۔ ساتھ ہی شخص کو ویکسین لگنے کے بعد ہونے والی دقتوں کے بارے میں بتایا جانا اہم ہے۔

سنگین منفی اثرات کیا ہیں؟

اگر ایڈورس ایفیکٹ کی وجہ سے کوئی شخص ہلاک ہو جاتا ہے تو اس کی جانچ ایک ڈاکٹروں کا پینل کرتا ہے۔

اگر اس شخص کو سنگین کیس میں ویکسینیشن کے بعد ہسپتال میں داخل نہیں کیا گیا تو اس معاملے میں کنبے کی رضامندی کے ساتھ پوسٹ مارٹم ہونا ضروری ہے تاکہ موت کی وجہ کا پتا لگایا جاسکے۔

اگر کنبہ اس کے لیے تیار نہیں تو بھی علیحدہ فارم کو پُر کرنے اور تفتیش کرنے کی ضرورت ہوگی۔

یہ ضروری ہے کہ کسین لگنے کے بعد ہونے والے دقتوں کے بارے میں بتایا جائے

اگر ویکسینیشن کے بعد شدید منفی اثرات کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد موت ہوتی ہے تو ہدایات کے مطابق پورے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔

تفتیش کے ذریعے یہ قائم ہوگا کہ ایڈورس ایفیکٹ ویکسین میں استعمال ہونے والی دوا کی وجہ سے ہوا ہے یا ویکسین کے معیار میں کسی کمی کی وجہ سے، یا ویکسینیشن کے دوران کسی غلطی کی وجہ سے یا کسی اور قسم کے اتفاق کی وجہ سے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق منفی اثرات کے ہر کیس میں وجوہات کے بارے میں جلد از جلد آگاہی ضروری قرار دی جاتی ہے۔

منفی اثرات کا کیسے پتا لگایا جاتا ہے؟

ڈاکٹر سنجے رائے کے مطابق ’فی الحال جو طریقہ کار مرتب کیا گیا ہے وہ اب تک کے ٹرائل (آزمائشی) ڈیٹا پر مبنی ہے۔ اس طرح کا طریقہ عام طور پر طویل مدتی آزمائشی اعداد و شمار پر مبنی ہوتا ہے۔

’لیکن انڈیا میں جو کورونا ویکسین لگائی جارہی ہے اس کے بارے میں طویل مدتی مطالعے کے اعداد و شمار کا فقدان ہے۔ لہذا موجودہ طریقہ کار محض معلومات پر مبنی ہے۔‘

کیا ہر ویکسین مہم میں منفی اثرات ایک جیسے ہوتے ہیں؟

ایسا نہیں ہے کہ ہر ویکسین کے بعد صرف ایک قسم کا اثر دیکھا جائے۔ بعض اوقات علامات مختلف ہوتی ہیں۔

یہ اس پر منحصر ہے کہ ویکسین بنانے کا طریقہ کیا ہے اور ویکسین لینے والے کے جسم کی قوت مدافعت کیسی ہے۔

مثال کے طور پر بی سی جی ویکسین دینے کے بعد اس جگہ پر کبھی کبھار سوجن ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض بچوں کو ڈی پی ٹی ویکسین کے بعد ہلکا بخار ہوسکتا ہے۔ پولیو کے قطرے پینے کے بعد کوئی واضح منفی اثرات اب تک سامنے نہیں آئے۔

اسی طرح کووی شیلڈ اور کوویکسین نامی کورونا کی ویکسینز کا منفی اثر بھی ایک جیسا نہیں۔

انڈیا میں لگائی جانے والی ویکسین کے مضر اثرات کیا ہیں؟

ڈاکٹر سنجے رائے نے کوویکسن کے ٹرائل کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کے مطابق کوویکسین میں ہونے والے تین مراحل کی آزمائش میں کوئی سنگین مضر اثرات دیکھنے کو نہیں ملے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک تیسرے مرحلے کے مکمل اعداد و شمار جاری نہیں ہوئے۔ اس میں 25 ہزار افراد کو ویکسین دی گئی ہے۔

کوویکسین کے ٹرائل کے دوران دیکھی جانے والی علامات یہ ہیں: درد، ٹیکے کے مقام پر سوجن، ہلکا بخار اور جسم میں درد جیسی معمولی دقتیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد 10 فیصد تھی۔

جبکہ 90 فیصد لوگوں میں کوئی منفی اثرات نہیں دیکھے گئے۔

کو ویکسین لینے والے 90 فیصد لوگوں میں کوئ منفی اثرات نہیں دیکھے گئے

دوسری طرف کووی شیلڈ ویکسین میں ہلکا بخار اور الرجی کا رد عمل ظاہر ہوا تھا۔

انڈیا دنیا کی سب سے بڑی ویکسینیشن مہم چلانے والا ملک ہے جہاں بچوں اور حاملہ خواتین کو بھی ٹٰیکا دیا جاتا ہے۔ پولیو ویکسین مہم کے دوران انڈیا میں تین دن میں ایک کروڑ بچوں کو ویکسین کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔

اگر اتنی بڑی مہم انڈیا برسوں سے چلانے میں کامیاب ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں ایڈورس ایفیکٹ فالوؤنگ امیونائزیشن کے پروٹوکول کو صحیح طریقے سے لاگو کیا جا رہا ہے۔

لیکن ویکسینیشن کے دوران ایک بھی ایڈورس ایفیکٹ کا کیس مہم پر کافی غلط اثر ڈالتا ہے۔

کیا ایڈورس ایفیکٹ ہونے کی وجہ سے لوگ ویکسین لیتے وقت گھبراتے ہیں؟

ابھی تک ویکسینیشن مہم کے دوران اس طرح کے صرف تین ہی واقعات پیش آئے ہیں جن میں کسی کو ایڈورس ایفیکٹ کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہو۔

اگرچہ ویکسین ہیزیٹنسی (ہچکچاہٹ) کا ایڈورس ایفیکٹ سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں لیکن ویکسین کے بارے میں ہچکچاہٹ کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ عام لوگوں میں ویکسین کے بارے میں صحیح معلومات کی کمی ہے۔

اگر ویکسین کی سیفٹی یعنی حفاظت اور افادیت سے متعلق سوالات ہوں تب بھی لوگ ویکسین لینے سے ہچکچاتے ہیں۔

اکثر لوگوں میں ویکسینیشن مہم کے آغاز سے یہ ہچکچاہٹ نظر آتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس ہچکچاہٹ میں کمی آ جاتی ہے۔

لیکن اگر ایڈورس ایفیکٹ میں کوئی سنگین بات سامنے آتی ہے تو پھر لوگ ویکسین لینے سے پرہیز کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ معمولی دقتیں معمول کا حصہ ہیں۔

لوکل سرکلز نامی ایک تنظیم کچھ عرصے سے لوگوں میں ویکسین سے ہچکچاہٹ جاننے کے لیے آن لائن سروے کر رہی ہے۔

3 جنوری کے اعداد و شمارہ کے مطابق انڈیا کے 69 فیصد لوگوں میں کورونا ویکسین لگانے میں ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے۔

یہ سروے انڈیا کے 224 اضلاع سے تعلق رکھنے والے 18000 افراد کے آن لائن ردعمل کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔

اس سروے کے مطابق انڈیا میں گذشتہ ماہ کے مقابلے ہر ماہ لوگوں میں یہ ہچکچاہٹ بڑھ رہی ہے۔

لیکن ویکسینیشن مہم کے آغاز کے بعد لوگوں کے ردعمل کے بارے میں ابھی کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔

ایم آر این اے ویکسین کے استعمال پر سوال

مختلف ممالک نے اب تک کورونا کی نو ویکسین منظوری کی ہیں۔

ان میں سے دو فائزر اور موڈرنا کی بنائی ہوئی ویکسینز، ایم آر این اے ویکسین ہیں۔ اس ٹیکنالوجی سے تیار کردہ ویکسین انسانوں پر پہلی بار آزمائی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر سنجے کے مطابق ان ویکسینز کے کچھ سنگین مضر اثرات کی اطلاعات ملی ہیں۔

باقی چار ویکسین وائرس کو غیر فعال کر کے بنائی جاتی ہیں، جن میں بھارت بائیوٹیک اور چین کی ویکسین شامل ہیں۔

باقی دو ویکسین آکسفورڈ آسٹرا زینیکا (کووی شیلڈ) اور سپوتنک ہیں۔ انھیں ویکٹر ویکسین کہا جاتا ہے۔

اب تک ایم آر این اے ویکسین کے علاوہ کسی بھی دوسری ویکسین کے استعمال میں کوئی سنگین مضر اثرات کی اطلاع نہیں ملی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp