جب ٹرمپ حلف برداری میں ہی نہیں آئے تو ’ایٹمی بریف کیس‘ نئے صدر جو بائیڈن تک کیسے پہنچا؟


نیوکلیئر بریف کیس
نیوکلیئر بریف کیس کی منتقلی امریکی انتقال اقتدار کی منتقلی کی اہم نشانیوں میں سے ایک ہے
امریکی صدر جہاں بھی جاتا ہے اس کے قریب ملٹری یونیفارم میں ملبوس ایک اہلکار ایک کالے رنگ کا بھاری بھرکم بریف کیس اٹھائے نظر آتا ہے۔ یہ اہلکار دراصل نیوکلیئر بریف کیس اٹھائے ہوتا ہے۔

امریکی انتقال اقتدار کی اہم نشانیوں میں سے ایک نشانی نیوکلیئر بریف کیس کی منتقلی ہے۔ جب نیا امریکی صدر 20 جنوری کی بعد از دوپہر ملک کی باگ دوڑ سنبھالتا ہے تو یہ سوٹ کیس اسے منتقل ہو جاتا ہے۔

تقریباً چھ عشروں سے امریکہ میں اقتدار کی منتقلی کی تقریب میں فوجی یونیفارم میں ملبوس دو اہلکار اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ جب نیا صدر حلف لے لیتا ہے، تو رخصت ہونے والے صدر کے ساتھ کام کرنے والا اہلکار نئے صدر کے ساتھ کام کرنے والے اہلکار کو نیوکلیئر سوٹ کیس تھما دیتا ہے۔

20 جنوری کو جب نیا صدر حلف لے لیتا ہے، تو یہ بیگ نئے کمانڈر ان چیف یعنی صدر کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

جان ایف کینیڈی پہلے امریکی صدر تھے جن کے حوالے نیوکلیئر بریف کیس کیا گیا تھا۔ البتہ اِس بار نیوکلیئر بٹن کی نئے صدر کو منتقلی کا سادہ سا عمل کافی پیچیدہ ہو گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

بائیڈن نے سو سال پرانی جس بائبل پر حلف اٹھایا اس کی اہمیت کیا ہے؟

ایسا صدر بنوں گا جو لوگوں کو تقسیم کرنے کے بجائے انھیں متحد کرے: جو بائیڈن

ٹرمپ کی شکست کے بعد وائٹ ہاؤس میں کیا ماحول ہے؟

ایک صدی بعد یہ پہلا موقع تھا کہ جب موجودہ امریکی صدر آنے والے صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شریک نہیں ہوئے اور وہ درحقیقت اس مقام سے 15 سو کلومیٹر دور جنوبی فلوریڈا میں تھے۔

پروٹوکول کے مطابق یہ نیوکلیئر بٹن 20 جنوری دوپہر 12 بجے تک ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس رہنا تھا جبکہ نئے صدر کی حلف برداری کے فوراً بعد نئے صدر کو منتقل ہونا تھا۔

حلف برداری کی تقریب شروع ہونے سے تھوڑی دیر پہلے ایک فوجی کانگریس ہیڈکوارٹر میں نیوکلیئر بریف کیس کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔

اگر یہ بریف کیس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ہی ہوتا جب وہ نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب سے 1500 کلومیٹر دور تھے تو ایسی صورتحال میں تمام نیوکلیئر کوڈز کو غیر فعال بنا دیا جاتا۔

نیوکلیئر بریف کیس

نئے کمانڈر ان چیف کو نیوکلیئر بریف کیس کی منتقلی کا سادہ سا عمل صدر ٹرمپ کی وجہ انتہائی پیچیدہ ہو گیا تھا

پینٹاگون کے خدشات

پینٹاگون کو نیوکلیئر بریف کیس کی نئے کمانڈر ان چیف کو منتقلی کے حوالے خدشات تھے۔ پینٹاگون نے دریافت کرنے پر کہا تھا کہ ان کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کا ایک منصوبہ موجود ہے لیکن اس کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا تھا۔

کئی ماہرین نے اس منفرد صورتحال کے حل کے کئی ممکنہ منظر نامے پیش کیے تھے۔

اٹامک سائنٹسٹ کے نیوکلیئر بٹن کے ماہر سٹیفن شوارٹز کا کہنا ہے کہ درحقیقت تین ایسے نیوکلیئر بریف کیس ہوتے ہیں جن میں ایک تو صدر کے پاس ہوتا ہے، جبکہ ایمرجنسی کی صورتحال میں ایک نائب صدر کے پاس ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک نیوکلیئر بریف کیس ایک ایسے کابینہ کے وزیر کے لیے تیار ہوتا ہے، جو کسی ایسی صورتحال میں جب صدر یا اس کے جانشین زندہ نہ رہے ہوں، کابینہ نے اہم فیصلے لینے کے لیے نامزد کیا ہو۔

عام طور پر یہ نیوکلیئر بریف کیس صدرِ امریکہ سے صرف دس فٹ فاصلے پر رہتا ہے۔

لہذا جب صدر ٹرمپ کی صدارت کے وقت ختم ہو جاتا ہے تو وہ پلاسٹک کارڈ جو صدر کو نیوکلیئر بریف کیس تک رسائی دیتا ہے، اسے غیر موثر کر دیا جائے گا۔

سٹیفن شوارٹز نے سی این این کو بتایا کہ اگر نیوکلیئر بریف کیس کو اٹھانے والا اہلکار ایئرفورس ون میں سوار ہو کر صدر ٹرمپ کے ہمراہ فلوریڈا میں ہے، تو وہ دوپہر بارہ بجے صدر ٹرمپ کو چھوڑ کر نیوکلیئر بریف کیس کے ہمراہ واپس واشنگٹن روانہ ہو جائے گا۔

جان ایف کینیڈی

جان ایف کینیڈی پہلے امریکی صدر تھے جن کے حوالے نیوکلیئر بریف کیس کیا گیا تھا

نیوکلیئر حملے کا حکم کیسے دیا جاتا ہے؟

لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر نیوکلیئر بریف کیس کو کھول کر بٹن دبائے گا تو جوہری ہتھیار داغے جائیں گے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

عام لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ جوہری ہتھیاروں کے داغنے کا حکم نیوکلیئر بریف کیس میں ایک بٹن دبانے سےنہیں بلکہ اس چھوٹے سے آلے سے جسے ’کوڈ آف گولڈ‘ یا ’ککی‘ کہا جاتا ہے سے دیا جاتا ہے۔ یہ آلہ ہر وقت امریکی صدر کی جیب میں ہوتا ہے۔

جب صدر کو جوہری ہتھیار داغنے کا حکم دینا ہو تو وہ پینٹاگون میں قائم وار سینٹر سے رابطہ کر کے جوہری ہتھیار داغنے کا حکم دے سکتا ہے۔

ایسے کرنے کے لیے صدر ’کوڈ آف گولڈ‘ کو درمیان سے پھاڑنا ہوگا جس سے وزارت دفاع کو تصدیق ہو جائے کہ یہ حکم صدر کی طرف سے آیا ہے۔

حلف برداری کی تقریب کی صبح نو منتخب صدر اور نائب صدر کو اس نیوکلیئر بریف کیس کے استعمال سے متعلق ہدایات اور ’گولڈ کی‘ حوالے کی جاتی ہے۔

بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹ کے مطابق عام طور پر رخصت ہونے والے صدر کے جوہری کوڈ دوپہر بارہ بجے ختم ہو جاتے ہیں اور آنے والے صدر کے کوڈز کو فعال کر دیا جاتا ہے۔

فرض کریں کہ ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو جوہری حملے کا حکم دینا چاہتے تو بارہ بج کر ایک منٹ پر ایسا کرنے کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے اسی طرح صدر جو بائیڈن اگر ایسا کرنا چاہتے تو وہ گیارہ بج کر 59 منٹ ایسا نہیں کر سکتے تھے۔

Nancy Pelosi

ایوان نمائندگان کی سپیکر نے محکمہ دفاع سے رابطہ کر کے انھیں صدر ٹرمپ کی جانب سے کسی جوہری حملے کا حکم نہ ماننے کا کہا

صدر ٹرمپ کے جوہری حملے کے خدشات

پارلیمنٹ بلڈنگ پر صدر ٹرمپ کے حامیوں کے حملے کے بعد ایسے خدشات کا اظہار کیا جانے لگا تھا کہ صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس سے نکلنے سے پہلے جوہری حملے کا حکم ہی نہ دے دیں۔

ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے محکمہ دفاع سے رابطہ کیا اور انھیں کہا کہ اگر صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے پہلے ایسے کسی حملے کا حکم دیں تو اسے نہ مانا جائے۔

کئی بار اس بریف کیس سے ایک اینٹینا باہر نکلتا ہوا نظر آتا ہے جس کے ذریعے پینٹاگون کے ساتھ براہ راست مواصلاتی رابطہ قائم ہو سکتا ہے۔

نیوکلیئر بریف کیس میں کیا ہوتا ہے؟

امریکہ کی نیوکلیئر لانچ ٹیم کے ایک سابق ممبر بروس بلیئر نے ماضی میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ عام تاثر کے برعکس اس بلیک باکس میں نہ تو کوئی بٹن ہوتا ہے اور نہ ہی جوہری ہتھیار کو لانچ کرنے کا کوڈ ہوتا ہے۔

درحقیقت اس بریف کیس میں جوہری حملے کے پروٹول، متعلقہ مشیروں سے رابطوں کی معلومات ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ اس بریف کیس میں میدان جنگ کا نقشہ اور صرف ایک صفحے پر اس جنگ کے مقاصد، مرنے والوں کی تعداد اور دستیاب ہتھیاروں کی معلومات ہوتی ہیں جس سے صدر کو تمام صورتحال چند سیکنڈوں میں سمجھ آ سکتی ہے۔

اس کے علاوہ اس بریف کیس میں دو کتابیں بھی ہوتی ہیں جن میں دستیاب جوہری ہتھیاروں کی اقسام کے بارے معلومات کے علاوہ ایسی محفوظ جگہوں کا ذکر ہوتا ہے جہاں صدر اور ان کا خاندان پناہ لے سکتے ہیں۔

جو بائیڈن

صدر جوف بائیڈن کو اقتدار کی منتقلی ہر لحاظ سے منفرد تھی۔ نہ تو سابق صدر اس تقریب میں شریک تھے اور نہ عوام کا ہجوم تھا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp