پشاور یونیورسٹی میں مالی بحران: ملازمین جنوری کی ’آدھی تنخواہ میں گھر کا راشن کہاں سے لائیں گے؟‘


سوچیں اگر کسی شخص کو کو یکم تاریخ سے چند روز پہلے یہ کہہ دیا جائے کہ اس مرتبہ تنخواہ آدھی ملے گی، تو اس کی کیا کیفیت ہوگی؟ اور اگر اس شخص نے مہنگائی کے اس دور میں مہینہ گزارنے کے لیے پہلے ہی قرض لے رکھا ہو پھر تو۔۔۔

ایسی ہی صورتحال سے پشاور یونیورسٹی کے بعض اساتذہ اور ملازمین گزر رہے ہیں جو نچلے گریڈز یعنی گریڈ تھری یا گریڈ فور کے ملازم ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کی تاریخ میں یہ شاید پہلا موقع ہے جب ایک تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا ہے کہ جنوری کے مہینے کی تنخواہ، جو یکم فروری کو ملنی ہے، اس میں مکمل معاوضہ نہیں ہوگا بلکہ صرف بیسک یا بنیادی تنخواہ فراہم کی جائے گی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیادی ایڈہاک ریلیف، کنوینس الاؤنس اور میڈیکل الاؤنس کے علاوہ دیگر جو الاونسز ملتے تھے، اس مہینے وہ نہیں دیے جائیں گے۔

پشاور یونیورسٹی کے کلاس فور ملازمین کی بنیادی تنخواہ 13 ہزار سے 22 ہزار کے درمیان ہوتی ہے اور یہ ملازمت کے دورانیہ پر انحصار کرتی ہے۔

ان ملازمین کی تنخواہ الاونسز کے ساتھ 27 سے 38 ہزار کے درمیان بن جاتی ہے۔ بعض لوگوں کے مطابق یہ نجی کمپنیوں کے مقابلے پہلے ہی کم ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تعلیمی بجٹ میں اضافہ اساتذہ کی تنخواہوں اور پینشن کی نذر

بولان میڈیکل یونیورسٹی کے طلبا و ملازمین کا دھرنا ختم

’ایسا مجبور کیا گیا کہ احتجاج کے لیے سینکڑوں میل دور آنا پڑا‘

’قربانی بچوں کی تعلیم کی دیں یا صحت کی‘

پشاور یونیورسٹی کے سپرنٹینڈنٹ اور کلاس تھری ملازمین یونین کے صدر مذکر شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر تنخواہ دار فرد نے اپنے مہیینے کا حساب کیا ہوتا ہے اور کلاس فور اور کلاس تھری ملازمین کی زندگی اس ماہوار تنخواہ کے گرد گھومتی ہے۔

’انھوں نے اپنا مہینہ اسی تنخواہ میں گزارنا ہوتا ہے لیکن اگر ان کی تنخواہ آدھی کر دی جائے تو سوچیں ان کا گزارا کیسے ہو گا۔ اکثر ملازمین مہینے کے آخری دن لوگوں سے قرض لے کر اس تنخواہ میں گزارا کرتے ہیں اور تنخواہ ملنے پر تمام قرضے ادا کر کے اگلے مہینے کا راشن لیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’اس مہینے ملازمین راشن فراہم کرنے والے دکاندار سے کیا کہیں گے، بچوں کے علاج اور تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیا بہانے کریں گے، گھر میں بیماری اور ادویات لانے کے لیے کیا قربانی دینی پڑے گی یا گھر کا کچھ سامان بیچنا پڑے گا، یہ سارے سوالات ان دنوں ان ملازمین کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔‘

پاکستان میں بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ان تنخواہ دار افراد کا گزارا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔

پشاور یونیورسٹی کا حالیہ فیصلہ کیا ہے؟

ایک تحریری حکم نامہ رجسٹرار پشاور یونیورسٹی کے دستخط سے جاری کیا گیا ہے کہ تمام متعلقہ افراد کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ’مالی مشکلات کی وجہ سے یونیورسٹی کے تمام ملازمین کو جنوری کے مہینے کی مکمل تنخواہ ادا کرنے سے قاصر ہے یعنی یکم فروری کو جو تنخوا ملنی ہے وہ اب بنیادی یعنی بیسک تنخواہ اور پرسنل تنخواہ ادا کی جا سکے گی۔ یہ حکم نامہ اعلی حکام کی منظوری سے جاری کیا گیا ہے۔‘

اس بارے میں پشاور یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر یورید احسن ضیا سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس مہینے یونیورسٹی کو اپنی بنیادی ادائیگیوں کے لیے 285 ملین روپے درکار ہیں جس میں سے 172 ملین روپے تنخواہوں کی مد میں 73 ملین پینشن کی مد میں اور 40 ملین دیگر ادائیگیوں جیسے یوٹیلیٹی بلز وغیرہ کے لیے درکار ہیں۔‘

’اس وقت یونیورسٹی کے پاس 112 سے 115 ملین روپے موجود ہیں اور ان فنڈز سے یہ تمام ادائیگیاں نہیں کی جا سکتیں اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس مرتبہ صرف بنیادی تنخواہ دی جائے گی اور اسی طرح پنشن بھی کم ہی ادا کی جا سکے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ جب یونیوسٹی کے پاس مکمل فنڈز موجود ہوں گے تو یہ تمام ادائگیاں کر دی جائیں گی چونکہ اس وقت یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے اس لیے یہ سخت فیصلہ کرنا پڑا۔

کیا مالی بحران اچانک شروع ہوا؟

یونیورسٹی ذرائع کے مطابق ایک عرصے سے پشاور یونیورسٹی کی آمدن کم اور اخراجات بڑھ گئے ہیں۔

رجسٹرار پشاور یونیورسٹی، جنھیں خود بھی رواں ماہ کی تنخواہ تقریباً آدھی ملے گی، نے بتایا کہ آج سے دس پندرہ سال پہلے تک صوبے میں دو یونیورسٹیاں ایک پشاور یونیورسٹی اور ایک گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان تھیں۔

’اس وقت پشاور یونیورسٹی کے کوئی ایک لاکھ پرائیویٹ طالبعلم ہوتے تھے جو امتحانی فیس اور دیگر ادائیگیاں کرتے تھے جس سے یونیورسٹی کی آمدن ہوتی تھی لیکن جب سے دیگر یونیورسٹیاں بنی ہیں تو یونیورسٹی کے پرائیویٹ طالبعلم اب کم ہو کر 25 سے30 ہزار طالبعلم رہ گئے ہیں۔ اس سے یونیورسٹی کی آمدن بھی کم ہوئی اور اب نئے بی ایس کے پروگرام جیسے شروع کیے گئے ہیں اس سے مزید کمی کا بھی امکان ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ حکومتی گرانٹ پہلے کی نسبت کم ہو گئی ہے کیونکہ آج سے دس سال پہلے یونیورسٹی کی گرانٹ بجٹ کا 55 فیصد ہوتی تھی اور اب کم ہو کر 47 سے 48 فیصد تک رہ گئی ہے۔

اسی طرح یونیورسٹی کے دیگر ایم اے ایم ایس سی پروگرام اور بی ایس پروگرام شروع کیے گئے اور اس کے لیے اساتذہ کی تعیناتیاں بھی کی گئیں اور اس سے اخراجات بڑھے ہیں۔

رجسٹرار نے بتایا کہ یونیورسٹی میں پینشن کی مد میں رقم ایک ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہے جو یونیورسٹی کے وسائل پر بڑا بوجھ ہے۔

پشاور یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن کے صدر فضل ناصر نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور 2010 میں ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا اور یہ اضافہ ہر سال کیا جاتا رہا۔

لیکن اس کے برعکس یونیورسٹی کو فراہم کی جانے والی گرانٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جس سے یونیورسٹی کو مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈاکٹر فضل ناصر

پشاور یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن کے صدر فضل ناصر

انھوں نے بتایا ’یونیورسٹی ایکٹ میں تبدیلی کی گئی جس سے یونیورسٹی کا دائرہ کار محدود کرکے پشاور ڈویژن تک کر دیا گیا ہے اسی طرح دیگر یونیورسٹیوں کے قیام سے پشاور یونیورسٹی کے مالی بحران کا باعث بنی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اس وقت پشاور یونیورسٹی میں اساتذہ کی تعداد 600 جبکہ طلبہ کی تعداد 16000 تک ہے۔ اسی طرح کنٹریکٹ ملازمین کو گذشتہ سال اگست میں فارغ کر دیا گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا اور تعلیم کی بہتری کے لیے اقدامات کا فیصلہ ہوا تھا لیکن منظم لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی صورتحال بہتر ہونے کی بجائے ابتر ہوتی جا رہی ہے۔

صوبے میں دو سال کے بی اے اور بی ایس سی پروگرام کو ختم کر کے چار سال کے بی ایس پروگرام شروع کیے گئے تو اس کے لیے اساتذہ کی تعیناتی اور انفراسٹرکچر کے اخراجات سے حکومت لا علم رہی۔

حکام کے مطابق اس وقت یونیورسٹیاں اپنی آمدن کے علاوہ وفاقی حکومت کی جانب سے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن سے ملنے والی گرانٹ پر انحصار کرتی ہے۔ اب یہ گرانٹ وفاقی حکومت نیشنل فنانس کمیشن، صوبوں کے وسائل یا اپنے طور پر یونیورسٹیوں کو دیتی ہے، اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں۔

صوبائی حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کو ایک مرتبہ مالی امداد فراہم کی جا چکی ہے لیکن اس کا کوئی مستقل حل نہیں نکالا جا سکا۔

صوبے میں نئی یونیورسٹیوں پر ملازمین کی پنشن کا بوجھ نہیں کیونکہ وہ حال ہی میں قائم ہوئی ہیں اور اب اگر ان کے ملازمین ریٹائر ہوں گے تو ان کی پینشن کا مسئلہ 2030 کے بعد کہیں شروع ہو گا۔

فی الحال اُن یونیورسٹیوں کو مسائل لاحق ہیں جن کو قائم ہوئے 30 یا 40 سال سے زیادہ وقت ہو چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp