اردو زبان اور اس سے جڑے ہوئے مسائل


ہندوستان کے اردو دان طبقے کو گلہ ہے کہ تحریک پاکستان سے ہندوستان میں اردو زبان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا جبکہ یہی صورتحال اردو کی وجہ سے پاکستان کے اپنی زبانوں کی بھی ہے۔ اردو زبان اپنے نام کے ساتھ ساتھ اپنے اکثر الفاظ کے لیے بھی اردگرد کی زبانوں کی مقروض ہے۔ اردو کے عجائب میں سے ایک یہ ہے کہ پنجابی زبان بولنے والوں کو پنجابی، سندھی بولنے والوں کو سندھی، بلوچی بولنے والوں کو بلوچ پشتو بولنے والوں کو پشتون کہتے ہیں لیکن اردو بولنے والوں کو کچھ بھی نہیں کہتے۔ اسی طرح بلوچی بولنے والوں کی ثقافت کو بلوچ ثقافت، پنجابی بولنے والوں کی ثقافت کو پنجابی ثقافت، پشتو بولنے والوں کی ثقافت کو پشتون ثقافت کہتے ہیں، تو اردو بولنے والوں کی ثقافت کو کیا کہتے ہیں؟

مغل دربار کی زبان فارسی تھی اس لئے یہی زبان نہ صرف یہ کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی علم و فن، قانون اور تعلیم کی زبان ٹھہری بلکہ دوسری محکوم اقوام بھی اپنی ترقی اور مالکوں سے رابطے کے لیے فارسی سیکھنے پر مجبور ہوئیں۔ فارسی کے علاوہ مسلمانوں کی مذہبی زبان عربی تھی، کیونکہ عربی میں قرآن کریم کے علاوہ تقریباً سارے بنیادی مذہبی احکامات موجود تھے۔

جب مغل صرف نام کے حکمران رہ گئے تو ان کو ڈر پیدا ہوا کہ اگر کسی ہندوستانی زبان کو ان کے سیاسی اور انتظامی ضعف کے دور میں ترقی ملی تو اس زبان کے بولنے والے زبان کی عصبیت کی بناء پر منظم ہو کر ان سے ہندوستان چھین نہ لیں، انہوں نے ایک لاوارث اور نئی زبان کو گود لے لیا تاکہ یہ مستقبل میں ان کی حکومت کی رابطے کی زبان ہو لیکن اس کا کوئی والی وارث نہ ہو، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قومیں زبان کی عصبیت کی بنیاد پر بنتی اور مضبوط ہوتی ہیں۔

ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کی کسی قوم کی زبان کی سرکاری سرپرستی دراصل اسی قوم کی سرپرستی ہو گی جو آگے جا کر سیاسی مسائل کا سبب بنے گی۔ اردو کی اس وقت کوئی مخصوص ہئیت یا نام بھی تھا۔ ڈاکٹر مسعود حسین خاں اپنی کتاب ”مقدمہ شعر و زباں“(شائع شدہ ہندوستان) کے صفحہ نمبر 148 پر لکھتے ہیں، ”گزشتہ صدی کے آخر تک اردو زبان کے بہت سارے نام تھے۔ امیر خسرو کے وقت سے لے کر انیسویں صدی کے خاتمے تک اس زبان کو ہندی، ہندوی، ہندوئی، زبان دھلوی، گوجری، (گجری، گرجری، بولی گجرات) دکنی، دکھنی، مورز مسلمانی، ہندوستانی، (اندوستانی، زبان ہندوستانی) ، زبان اردوئے معلٰی، زبان اردوئے شاھی، زبان اردوئے حاورہ، شاجہاں آباد، ریختہ اور اردو کہتے تھے“

انگریز کے قبضے کے بعد اردو کا دوسرا خوش قسمتی کا دور شروع ہوا کیونکہ جو ڈر مغلوں کو تھا کہ کسی بڑی اور مستحکم ہندوستانی زبان کی سرپرستی سے ان کی سلطنت خطرے میں پڑ سکتی ہے، اسی خطرے کی وجہ سے انگریز نے بھی اسی زبان کی سرپرستی جاری رکھی جو زوال پذیر مغل سلطنت نے اپنائی تھی۔

مسعود حسین خاں کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اردو کو ہندی بھی کہا جاتا تھا، انگریز نے بڑی ہوشیاری سے اپنے نوکروں کی زیرنگرانی اردو کو ترقی دینے کے نام پر ہندی سے الگ کیا۔ اردو سے وہ الفاظ جو ہندی کے ساتھ اس کا مشترکہ اثاثہ تھے ، نکال باہر کیے اور اس کی بجائے عربی فارسی کے نامانوس اور ثقیل الفاظ اس میں شامل کیے اور یہی کچھ ہندی کے ساتھ کیا گیا، ہندی سے اردو کے زبان زد عام الفاظ نکال کر سنسکرت کے پرانے، متروک اور نامانوس الفاظ شامل کیے تاکہ ہندوستان کی دو بڑی قوموں کا مشترکہ اثاثہ تقسیم سے دوچار کر کے دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھ دے، جس کو بعد میں سرسید نے اپنایا۔

تحریک پاکستان کی صف اول کی لیڈر شپ کہتی رہی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی کلچر، ثقافت، زباں، اور مذہب کو متحدہ ہندوستان میں خطرہ ہے ، اس لیے ان کے لیے ایک الگ ملک کی ضرورت ہے۔ جب کہ اس لیڈرشپ کی اکثریت کا بذات خود عام ہندوستانی کلچر، زبان، لباس، اکل و شرب اور مذہبی عقائد سے برائے نام سا تعلق تھا۔ سرسید کے وقت تک اردو کا دامن شاعری کی چند کتابوں کے علاوہ قابل ذکر علمی اثاثے سے خالی تھا (آج بھی ہندوستان کے چند شاعروں کے علاوہ اردو کے بڑے شعراء، اقبال اور فیض پنجابی ہیں اور فراز پختون ہیں)

سرسید نے انگریزوں کی حمایت سے ایک ادارے سائینٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی تو انگریزی سے چند کتابیں اردو میں ترجمہ کرائیں تاکہ اردو دان طبقے کو علم کا چسکا لگے اور وہ فارسی اور عربی زبانوں سے، جن میں ان کا تاریخی، علمی اور قانونی اثاثہ تھا، دور ہو جائے۔ چونکہ انگریز کو اس علاقے میں ایک لمبے عرصے تک اپنا قبضہ برقرار رکھنا تھا، اس لیے اس نے مسلمانوں کو اپنی درباری علمی، قانونی اور مذہبی زبانوں سے کاٹنا تھا، اس لئے اردو کو ان کے متبادل کے طور پر آگے بڑھایا گیا۔

یوں آہستہ آہستہ اردو رابطے کی زبان بنی۔ چونکہ اردو میں پہلے سے کوئی قابل ذکر تحقیقی یا نظریاتی مواد موجود نہیں تھا ، اس لیے انگریز نے اپنی نگرانی میں اردو میں وہ کتابیں ترجمہ کرائیں جن سے ہندوستان کے مسلمانوں میں کوئی سیاسی بیداری پیدا ہو سکتی تھی نہ انگریز کے مستقبل کے منصوبوں کے لیے کوئی خطرہ بن سکتا تھا۔ اس لیے ہندی اور اردو کو الگ الگ کر کے اس نے ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کی بنیاد رکھ دی۔

بنارس ہندوؤں کا مقدس شہر ہے۔ وہاں مسلمانوں کی حکمرانی کے دوران، قانونی کتابیں عموماً فارسی زبان میں تھیں، کیونکہ اکثر قاضی اور وکیل مسلمان تھے، اس لئے ہندوؤں نے بھی مجبوراً فارسی سیکھی لیکن جب انگریز حکمران بنے تو بنارس کے ہندوؤں نے ایک تحریک شروع کی کہ چونکہ نہ مسلمان بادشاہ، نہ قاضی ، نہ وکیل رہے اور نہ ہی عدالت کی زبان فارسی ہے تو پھر کیوں ان کی عائلی قوانین کی کتابیں فارسی زبان میں کیوں ہوں،  کیوں ان کی اپنی زبان ہندی میں نہ ہوں؟ اپنی عائلی قوانین کی کتابیں ہندی زبان میں منتقل کرنے کی اس تحریک کو ’ہماری کتابیں‘ ہندی اردو تنازعہ کا نام دیتی ہیں، جس کو آج تک سرسید کا کارنامہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، جس کے مطابق انہوں نے مسلمانوں کے علمی تاریخی اور تہذیبی اور مذہبی اثاثے ہندوؤں کی دست برد سے بچائے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان کے نئے مالک انگریز تھے تو ہندو کیسے ہندو اکثریت کی زبان کو دیوناگری رسم الخط میں منتقل کر کے ہندوستان کی زبان بناتے؟ اگر وہ اتنے طاقتور تھے تو انیس سو سینتالیس تک انگریز کو نکال باہر کیوں نہیں کر سکے؟ اور اب کون ہندوؤں کو اردو زبان تباہ کرنے سے روک رہا ہے، جب ان کا اپنا آزاد ملک ہے؟ کیا اب اردو زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے؟ کیا بھارت میں ایک بھی مسلمان باقی نہیں رہا؟ ان کے علمی، ثقافتی، تہذیبی اور مذہبی اثاثے لوٹ لئے گئے؟ جب آج ہندو مالک اور حکمران ہیں اور اردو مٹا نہیں سکے تو بنارس کی تحریک سے اردو کیسے مٹتی؟ اگر اردو آج بھی اپنی اصل شکل میں موجود ہے تو پھر سرسید نے مسلمانوں کا کون سا اثاثہ بچایا؟

جب انگریز کی حکومت تھی تو وہ اپنی زبان کو ہندوستان پر مسلط کرتے یا اکثریت کی زبان اپنا کر مصیبت مول لیتے؟ اردو کے بارے میں پھیلائی گئی غلط بیانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اردو ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان ہے یا تھی، جس پر آج تک آنکھیں بند کر کے یقین کیا جاتا ہے۔ اگر تھوڑی دیر کے لئے اس دعویٰ کو صحیح مان لیا جائے تو پھر پاکستان میں کوئی سات فیصد مسلمان رہتے ہیں اور تریانوے فیصد غیر مسلم، کیونکہ بھارت سے آئے ہوئے سات فیصد، خود کو مہاجر کہنے والوں کی زبان اردو ہے، اور اس دعویٰ کے مطابق وہی مسلمان ہیں، باقی پاکستان کے اصل باشندے یعنی پنجابی، سرائیکی، پختون، سندھی اور بلوچ غیر مسلم ہیں کیونکہ وہ اردو نہیں بولتے، اپنی اپنی زبانوں کے مالک ہیں۔

sheikh ayaz

انڈیا میں ایک سو تینتیس اور پاکستان میں ستائیس زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جس علاقے میں پاکستان بنا تھا وہاں پر چھپن فیصد بنگالی تھے، جو اردو کے ایک لفظ کو سمجھتے تھے، بولتے تھے نہ لکھ سکتے تھے، بقایا ملک میں پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچ اور پشتون بھی اپنی اپنی زبانیں اور ثقافتوں کے مالک تھے، تو پھر کون سے مسلمانوں کی زبان اردو تھی، جن کا مذہبی، علمی اور ثقافتی سرمایہ سرسید نے بچایا تھا؟ جو خود کبھی سکول نہیں جاسکے وہ پاکستان میں ماہر تعلیم سمجھے جاتے ہیں۔

اردو سرسید کی مادری زبان تھی، اگر انہوں نے اس کی ترقی یا ’بچانے‘ کی خاطر کوشش کی تو یہ ان کی زبان کا ان پر قرض تھا، کیونکہ ہر فرد پر اس کی مادری زبان کا حق ہے کہ وہ اس کی ترقی اور ترویج کے لیے خلوص نیت سے کوشش کرے اور یہی کچھ سرسید نے کیا۔

ہمیں بھی اپنی مادری زبانوں کی ترقی اور ترویج کے لیے سرسید کی طرح آگے آنا چاہیے۔ کیونکہ زبان کی عزت اور ترقی اس کو بولنے والی قوم کی عزت اور ترقی ہے۔ امریکہ کا مشہور دانشور نوم چومسکی کہتا ہے کہ کسی قوم کو برباد کرنا ہو تو جہازوں سے ان پر بمباری کرنے کی ضرورت نہیں صرف ان کی زبان غائب کر دیں، قوم فنا ہو جائے گی۔

جس طرح کسی اور زبان کو سیکھنے سے کوئی ہندو بنتا ہے نہ عیسائی بلکہ دوسری زبان سیکھنا ایک بہت بڑا علمی اقدام ہے، اسی طرح نہ کوئی زبان مسلمان یا غیر مسلم ہوتی ہے نہ مقدس یا راندۂ درگاہ۔ کسی زبان میں مقدس مذہبی کتاب، مذہبی علم یا احکامات تو ہو سکتے ہیں لیکن مذہب میں زبان نہیں ہو سکتی کیونکہ اس طرح تو مذہب محدود اور ناقابل ابلاغ ہو جائے گا، جب کہ مذہب کی جان اس کے ابلاغ میں ہے۔ مصر میں ڈیڑھ کروڑ عرب عیسائی موجود ہیں۔

پاکستان بننے کے بعد اردو کی خوش قسمتی کا تیسرا اور پاکستانی زبانوں کی بدقسمتی کا نیا دور شروع ہوا، جس کی بناء پر ان زبانوں اور ان کے بولنے والوں کو علمی، تعلیمی اور ترویجی میدانوں میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ جن علاقوں میں پاکستان بنا، تحریک پاکستان میں ان علاقوں کے باشندوں کی نسبتاً کوئی خاص دلچسپی اور کوشش شامل نہیں تھی۔ چونکہ ان علاقوں میں ہندو کبھی بھی اکثریت میں نہیں تھے اس لیے یہاں کے باشندوں کو دو قومی نظریہ یعنی ہندو سے نفرت کوئی خاص متاثر نہیں کر سکی ، نہ ان کو نظریۂ پاکستان یعنی ہندو کا ڈر، کوئی زیادہ اپیل کر سکا۔ تحریک پاکستان ان علاقوں میں زیادہ سرگرم رہی جو آج پاکستان کا حصہ نہیں، اس لیے سندھی، بلوچ اور پختون اقوام ہندو کے ساتھ براہ راست کسی مذہبی یا اقتصادی مسئلے میں مقابل نہیں رہے۔

Abdul Ghani Khan

پنجابی مسلمان کا ذہنی مسئلہ بھی تقسیم کے وقت پنجابی سکھ کے ساتھ باہمی فسادات کی وجہ سے وجود پذیر ہوا، ورنہ اس کے ذہنی رویے کی کوئی تاریخی توضیح پیش نہیں کی جا سکتی۔ ان وجوہات کی بناء پر دو قومی نظریے کے پرچارک ہندوستان کے ان علاقوں سے تھے جہاں پر مسلمان اقلیت میں تھے، یعنی گنگا دوآب، اودھ، یوپی اور بہار کے علاقوں میں۔ وہاں کے باشندوں کے ہندو کے ساتھ کچھ حقیقی مسائل تھے اور کچھ تخلیق کردہ، انہی لوگوں کی زبان اردو تھی،  برصغیر کے سارے مسلمانوں کی زبان نہیں۔

پاکستان بننے کے بعد ان علاقوں سے کچھ لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان میں مہاجر بن کر آئے، جہاں پر ان کے ہم زباں تھے نہ سیاسی ہم خیال۔ ان مہاجرین میں مسلم لیگ کے بڑے بڑے رہنما بھی تھے۔ یہ تاریخ میں شاید پہلی دفعہ ہوا کہ کسی ملک کے کرتا دھرتا اس کے اصلی باشندوں کی بجائے وہاں مہاجر بن کر آنے والے بنے۔ جو اس علاقے کے باشندوں کی سیاسی حماقت یا سادگی تھی، جس کی وجہ سے ان مہاجر لیڈروں نے بڑی مدت اس ملک پر حکمرانی کی جہاں پر ان کی کوئی جان پہچان تھی نہ ان کو یہاں کے لوگوں نے منتخب کیا تھا اور نہ ان کو یہاں سے منتخب ہونے کی کوئی امید تھی، عموماً مہاجرین کو منتقل ہونے والے ملک میں پناہ، روزگار اور خوراک ملے تو احسان سمجھا جاتا ہے۔

یہ سیاسی اور اقتصادی مہاجرین رہنما پاکستان کی بڑی اقوام کی ایک زبان بھی نہیں جانتے تھے جبکہ یہ ان اقوام پر حکمرانی کرنے آئے تھے، بلکہ مستقبل میں بھی ان کے یہی ارادے تھے، اس لیے بجائے اس کے کہ یہ یہاں کی زبانیں سیکھتے، انہوں نے یہاں کے باشندوں کو اپنی زبان سیکھنے پر لگا دیا، انہوں نے یہاں کے باشندوں کو سمجھایا کہ آپ کی کلچر اور زبان ان کی کلچر اور زبان سے کم تر ، آپ کی تاریخ مجہول اور ناقابل التفات ہے۔ اس لیے آج سے آپ کی زبان ہندوستان سے آئی ہوئی زبان اردو، آپ کی تاریخ ہندو سے ڈر اور نفرت، آپ کا کلچر گنگا اور جمنا کے کنارے اور ہندوؤں کے درمیان پنپا ہوا کلچر ہو گا۔

Mir Gul Khan Nasir

دنیا بھر کی اقوام زبان کی بنیاد پر بنتی اور پہچانی جاتی ہیں۔ یہاں پر پہلے سے الگ الگ زبان کلچر اور روایات پر مبنی اقوام اپنی قابل فخر تاریخ کے ساتھ موجود تھیں، جو مہاجرین کی زبان کلچر تاریخ اور روایات سے کسی طرح کم تر نہیں تھی لیکن ان کو بدترین خسارے سے دوچار کیا گیا۔

پاکستان بنا تو بنگالی پاکستان کی سب سے بڑی زبان تھی، جس کا حق تھا کہ وہ قومی زبان بن جاتی اور آج پنجابی سب سے بڑی قوم اور سب سے بڑی زبان ہے، اس لئے پنجابی کا حق ہے۔

پاکستان کی علمی، دفتری اور حاکمانہ زبان انگریزی ہے۔ جو پڑھنے والے بچے کسی نہ کسی مرحلے پر سیکھنے پر مجبور ہیں، زبان اور نفسیات کے ماہرین کے مطابق پرائی زبان مادری زبان میں سیکھی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں، پرائی زبان انگریزی، ایک اور پرائی زبان اردو میں سکھانے کی سعی لاحاصل جاری ہے، جس کی وجہ سے ہمارے اکثر بچے انگریزی زبان میں ناکام ہوتے ہیں، کیونکہ وہ انگریزی کو فطری زبان میں سمجھنے کی بجائے اس کا اردو زبان میں ترجمہ کرتے رہتے ہیں جبکہ بولنا لکھنا اور ترجمہ کرنا بیک وقت نہیں ہو سکتا ۔ انگریزی گرائمر کی کتاب اردو جملوں کی نشانیاں بتاتی ہوئی کہتی ہے، جس جملے کے آخر میں تھا ہے، تھی ہے، تھے ہیں، آ جائے وہ پریزنٹ سمپل ٹینس ہے، جب کہ تھا ہے تھی ہے اردو میں آ سکتے ہیں ،انگریزی میں نہیں۔

اردو بولنے والے اہل زبان اور نہ بولنے والے ’عجم‘ ہیں۔ غلط اردو بولنے پر ’عجم‘ کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اگر اردو واقعی پاکستان کی قومی زبان ہے تو چاہیے تھا کہ اردو زبان میں پاکستان میں موجود ہر قوم کا حصہ ہوتا، اردو کا دامن ہر زبان کے الفاظ محاورات اور ضرب المثال کے لیے پھیلا ہوتا، اس کے گرائمر کے اصول گنگا جمنا سے آئے ہوئے مہاجرین کی مرضی سے طے نہ ہوتے بلکہ پاکستان کے قدیم باشندوں کی مرضی سے مرتب ہوتے۔ کوئی اہل زبان اور کوئی عجم نہ ہوتا، پہلے بھی اس کے اکثر الفاظ ارد گرد کی زبانوں سے لیے گئے تھے ۔ اب بھی سندھی ، بلوچ ، پشتو ، پنجابی ، کشمیری ، سرائیکی زبانوں کے الفاظ وافر مقدار میں اپنا کر اس کو سب کے لئے قابل فہم اور آسان بنا دیا جا سکتا تھا، فارسی اور عربی جو اس علاقے کی کسی قوم کی زبان نہیں ، اس کے الفاظ تو اردو میں قابل قبول ہیں، لیکن بلوچی ، سندھی اور پشتو کے ناقابل قبول اور نامانوس۔

اگر ایسا نہیں ہو سکتا اور اردو محض ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کی زبان ہے تو پھر یہاں پر موجود ہر قوم کی اپنی ایک زبان موجود ہے، جبکہ علمی زبان انگریزی ہے، اس لئے قوم کی تعلیمی اور علمی ترقی کی خاطر انگریزی زبان کو مکمل اپنا کر اردو کو ان کی مادری زبان کا درجہ دیا جائے جن کی وہ واقعی مادری زبان ہے۔ کیونکہ اردو کا دامن آج بھی سرسید کے دور کی طرح علمی ، تحقیقی اور طبع زاد معیاری سرمایہ سے بالکل خالی ہے اور خالی دامن سے کچھ ملنے کی توقع حماقت ہو گی۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments