بچوں پرجنسی تشدد کے بڑھتے واقعات: حل کیا ہے؟


دو ہفتے قبل پیر جو گوٹھ سے نو سال ایک بچی گھر واپس نہیں پہنچی اور چند روز بعد اس کی لاش کیلوں کے ایک باغ سے ملی۔ اسے زنا بالجبر کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ بچی اپنے گھر سے ایک کلومیٹر دورایک گھر میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی۔ چونکہ بچی جس گھر میں کام کرتی تھی ، اکثر اس گھر میں ٹھہر جاتی تھی، اس لئے والدین نے شروع میں اس کے گھر واپس نہ آنے کو کوئی غیر معمولی بات نہیں سمجھا۔ دو روز کے بعد تلاش شروع ہونے پر اس کی لاش ملی۔

ڈی این اے ٹیسٹ سے مجرموں کا سراغ لگانے کی کوشش کی گئی اور پھر خیرپور پولیس نے اعلان کیا کہ انہوں نے دو ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید سہولیات کے استعمال سے مجرموں کو پکڑنے کا امکان بہت بڑھ گیا ہے۔ اور جب بھی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو پاکستان میں مجرموں کو کڑی سی کڑی سزا دینے کا مطالبہ شروع ہوجاتا ہے۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے لیکن کیا یہ کافی ہے؟ کیا صرف مجرموں کو سزا دینے سے ہی ان مظالم کا راستہ رک جائے گا؟ کیا ملک میں بچوں اور بچیوں سے جنسی زیادتی کے صرف اکا دکا واقعات ہو رہے ہیں؟ ہم ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ مسئلہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک ناسور بن چکا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایک زائد مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے اکثر واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں صحیح طرح اس مسئلہ کی اہمیت کا ادراک نہیں پیدا ہوتا۔

ایک تنظیم ”ساحل“ نے اس بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے کام شروع کیا ہے۔ ان کی کاوشیں اس مسئلہ کو اجاگر بھی کر رہی ہیں۔ لیکن یہ تنظیم جو اعداد و شمار جمع کر رہی ہے وہ زیادہ تر شائع ہونے والی خبروں سے لے کر جمع کر رہی ہے۔ ان اعداد و شمار کو بہتر بنانے کے لئے انہیں پورے ملک کا تعاون درکار ہے۔

” ساحل“ نے 2019 کی جو رپورٹ جاری کی تھی، اس کے مطابق اس سال کے دوران پورے پاکستان میں بچوں اور بچیوں پر جنسی تشدد کے کل 2846 واقعات ہوئے۔ یعنی ہر روز 8 بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات رپورٹ کرائے جائے رہے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ اگر اتنے واقعات رپورٹ کیے جا رہے ہیں تو اصل واقعات کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ جن بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان میں لڑکیوں کی تعداد 53 فیصد تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں لڑکوں کو بھی بہت بڑی تعداد میں جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سب سے زیادہ چھ سے پندرہ سال کے بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے۔ ان میں سے 205 ایسے واقعات تھے جن میں لڑکوں سے اجتماعی طور پر جنسی زیادتی کی گئی۔ 115 واقعات ایسے تھے جن میں لڑکیوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

جن مجرموں نے اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ، ان میں سے ساٹھ فیصد ایسے تھے جو نشانہ بننے والے بچوں کے شناسا یا رشتہ دار تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ہمارے معاشرے میں بچے کتنے غیر محفوظ ہیں۔ 2019 میں ایک سال پہلے کی نسبت یہ واقعات 26 فیصد کم ہوئے تھے۔ لیکن 2020 کے پہلے چھ ماہ میں ان افسوسناک واقعات میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور ان کا سلسلہ پہلے کی طرح جاری رہا۔

پوری دنیا میں ان واقعات کی روک تھام کی حکمت عملی ایک سائنس بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں بچوں کو کس طرح آگہی دینی ہے۔ کون سے بچے زیادہ غیر محفوظ ہیں، زیادہ تر کن مقامات پر بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں کس طرح محفوظ بنانا ہے۔ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کی نفسیات کیا ہوتی ہے۔ اور ان کی زندگیوں کے کون سے واقعات انہیں اس بھیانک جرم پر اکساتے ہیں۔ یہ سب اہم سوالات ہیں جو سائنسی تحقیق اور حکمت عملی بنانے کا تقاضا کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں 2017 میں آغا خان یونیورسٹی کے ڈاکٹروں کا ایک ریسرچ پیپر شائع ہوا تھا۔ اس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ پاکستان میں اس جائزے کے لئے جدید خطوط پر ٹیم بنانے کی ضرورت ہے۔ اب تک جو اعداد و شمار جمع کیے جا رہے ہیں وہ بہت سطحی انداز میں جمع کیے جا رہے ہیں۔ ایسے واقعات کی بڑی تعداد منظر عام پر ہی نہیں آتی۔ ان کے مطابق صرف ایک سال کے دوران صرف مذہبی مدرسوں میں پانچ سو بچوں کو ان کے اساتذہ نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

(Survellience system for child abuse: Bridging the gap between actual and hidden cases. J Pak Med Assoc. 2017 Jan;67 (1) :126-127)

مجموعی طور پر اس موضوع پر پاکستان میں بہت کم تحقیق کی گئی ہے اور اس کی بنیاد پر کوئی مضبوط پالیسی بنانا ممکن نہیں ہے۔ اور جو پالیسی بنی بھی ہے اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ جس واقعہ کا اس تحریر کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے اس میں قتل ہونی والی بچی آٹھ نو سال کی عمر میں خود اکیلی چل کر ایک گھر میں ملازمت کر رہی تھی۔ غربت سے مجبور ہو کر اتنی کم عمر کے بچوں کو ملازمت کے لئے بھجوانا ان کو جنسی تشدد کے خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

دنیا بھر میں یہ جائزہ لیا جا رہا ہے کہ جو لوگ بچوں کو جنسی استحصال یا زنا بالجبر کا نشانہ بناتے ہیں، ان کے بچپن کے کون سے واقعات ان کی شخصیت میں اتنا بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر بچوں سے ریپ یا زنا بالجبر کرنے پر اتر آتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق ایسے لوگوں میں سے 68 فیصد ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے بچپن میں خود جسمانی تشدد کا سامنا کیا ہوتا ہے اور ان میں سے بھاری اکثریت اپنے والدین کے ہاتھوں جسمانی تشدد کا نشانہ بنی ہوتی ہے اور 94 فیصد ایسے تھے جن کا اپنے والدین سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کی اکثریت کو بچپن میں بری طرح جذباتی طور پر مجروح کیا گیا تھا۔

امریکہ میں ان میں سے اکثریت نے بچپن میں جانوروں پر تشدد ہوتا دیکھا تھا اور ان مجرموں میں عام آبادی کی نسبت فلموں اور ٹی وی پر تشدد کے واقعات دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ایسے لوگوں میں سے جنہوں نے بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا تھا اکثر ایسے تھے جنہوں نے دس سال کی عمر سے پہلے ہی پورنو گرافی کو دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ جب ان میں کئی عوامل مل جائیں تو ایسے لوگوں میں ایسے خطرناک جرم کے ارتکاب کرنے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔

(Simons DA, Wurtele SK, Durham RL. Developmental experiences of child sexual abusers and rapists. Child Abuse Negl. 2008 May;32 (5) :549-60. )

یہ تحقیق تو امریکہ میں کی گئی ہے لیکن اس سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ جس معاشرے میں بچے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں، ان کے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے، بچوں اور والدین میں فاصلے بڑھتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں بچوں کو ریپ کرنے کے واقعات بڑھتے جاتے ہیں۔

اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ہمارے بچے محفوظ رہیں تو ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ملک میں بچوں پر کسی قسم کا تشدد نہ ہو۔ ورنہ ہم عفریت بنا بنا کر معاشرے میں چھوڑتے رہیں گے۔ اس سلسلے میں کام کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ ہم چائلڈ ریپ کے اگلے واقعے کا انتظار کریں بلکہ آج سے ہی ٹھوس بنیادوں پر کام شروع کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).