کیا کورونا وائرس سے متاثرہ انڈین معیشت اب ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہے؟


انڈین معیشت
کیا انڈین معیشت اب بہتری کی راہ پر واپس آ رہی ہے؟ اس کا آسان سا جواب 'ہاں' ہے۔

گذشتہ سال شروع ہونے والی خوفناک عالمی وبائی بیماری کی وجہ سے یہ منفی ترقی کی شرح سے گزرنے اور تحت الثری کے بعد گذشتہ سہ ماہی میں ملکی معیشت مثبت ترقی کی شرح تک پہنچی اور آخری سہ ماہی میں فی الوقت مثبت شرح نمو جاری ہے۔

اپریل تا جون سنہ 2020 کی سہ ماہی میں دنیا کی چھٹی سب سے بڑی معیشت کی ترقی کی رفتار منفی 23.9 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔

اب یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ رواں سال جنوری تا مارچ والی سہ ماہی میں یہ 0.7 فیصد کی مثبت شرح سے ترقی کر سکتی ہے۔ جبکہ آخری سہ ماہی یعنی اکتوبر سے دسمبر کے درمیان ترقی کی شرح 0.1 فیصد تھی۔

کن شعبوں میں ترقی کے امکانات ہیں؟

اپریل سنہ 2020 کے مہینے سے معیشت پر لاک ڈاؤن کے سنگین اثرات محسوس ہونے لگے۔ لیکن ستمبر سے اس میں قدرے بہتری آنا شروع ہوگئی۔ وزارت خزانہ کے درج ذیل اعداد و شمار پر غور کریں:

اعدادوشمار

مذکورہ اعداد و شمار معیشت کی بحالی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور حکومت انھی اعداد و شمار کو شیئر کر کے کہہ رہی ہے کہ معیشت ٹھیک ہو رہی ہے اور اب ترقی کی طرف جارہی ہے۔ لیکن شاید یہ صرف نصف سچائی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’کورونا وائرس انڈیا کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دے گا‘

بنگلہ دیش اور انڈیا میں زیادہ خوش حال کون؟

انڈیا بمقابلہ چین: کیا یہ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا ٹکراؤ ہے؟

اگر ہم پورے مالی سال 2020-21 میں ترقی کی شرح کو دیکھیں تو کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈی کے مطابق یہ منفی 11.5 فیصد ہوگی۔ ایجنسی نے سنہ 2021-22 کے مالی سال میں انڈیا کی معیشت میں 10.6 فیصد مثبت ترقی کی پیش گوئی کی ہے۔

لاک ڈاؤن کے بعد دو تین ماہ کے اند ہی 12 کروڑ سے زیادہ افراد بے روزگار ہوگئے تھے۔ بے روزگاری اب بھی زیادہ ہے، جسے حکومت کی بڑی ناکامی کہا جاتا ہے۔

انڈین معیشت

انڈین معیشت پر گہری نظر رکھنے والی ایک مشہور تنظیم سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی نے بی بی سی کے ساتھ ایک حالیہ رپورٹ شیئر کی ہے جس کے مطابق رواں مالی سال میں ترقی کی شرح منفی ہی رہے گی۔

قومی شماریات آفس (این ایس او) کے ایک تخمینے کے مطابق انڈین معیشت کو رواں سال آزادی کے بعد بدترین دور کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اس بار یہ 7.7 فیصد کی شرح سے کم ہوگی۔ یہ ریزرو بینک آف انڈیا کے تخمینے سے زیادہ ہے جس میں 7.5 فیصد سکڑنے کا امکان ظاہر کیا گيا ہے۔

اس رپورٹ میں برآمدات میں 8.3 فیصد کمی اور درآمدات میں 20.5 فیصد کمی کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس کے علاوہ طلب میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ بینکوں سے قرضوں کی مانگ میں بہت سست روی دیکھی گئی ہے کیونکہ بیشتر کارپوریٹس نے رواں مالی سال میں اپنے منصوبوں کو روک دیا ہے۔

لیکن نومبر سنہ 2020 سے قرض کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ انڈین معیشت کی نگرانی کے مرکز کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 15 جنوری تک بینکوں میں قرضوں کی مانگ میں 6.1 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

انڈین معیشت

حکومت کی V شکل بازیابی کے دعوے کی حقیقت

وزارت خزانہ سے لے کر ریزرو بینک آف انڈیا تک تمام سرکاری اداروں نے دعوی کیا ہے کہ بازیابی وی (V) شکل میں ہورہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران تمام علاقوں میں ترقی کی شرح کم ہوگئی تھی اور بازیابی کے دوران تمام شعبوں میں چوطرفہ بہتری ہے۔

لیکن کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ کی بحالی ’کے‘ (یعنی K) کی شکل میں ہورہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ شعبوں میں ترقی ہو رہی ہے لیکن کچھ دیگر شعبوں میں یا تو ترقی کی رفتار بہت ہی کم ہے یا ترقی نہیں ہو رہی ہے۔ یہ ترقی کی ایک ناہموار لائن کی طرح ہے۔

ممبئی میں مالیاتی امور کے ماہر اور سابقہ سرمایہ کاری بینکر پرنو سولنکی کا خیال ہے کہ منظم اور غیر منظم دونوں شعبوں میں ایک ہی سمت و رفتار میں ترقی نہیں کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘ہم جانتے ہیں کہ جی ڈی پی کے حساب کتاب میں غیر منظم شعبے کو مکمل طور پر شامل نہیں کیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر جبکہ منظم سیکٹر میں نسبتا تیزی سے کمی واقع ہوئی تو غیر منظم شعبے اس وبا سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بحالی کا بھی یہی رجحان ہے۔’

ان کا کہنا ہے کہ منظم شعبے میں شروع ہونے والی ترقی بھی ایک جیسی نہیں ہے۔

‘آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وبا کے دوران بھی دواسازی، ٹیکنالوجی، ای ریٹیل اور سافٹ ویئر خدمات جیسے شعبے ترقی کر رہے تھے اور اب بھی یہاں ترقی دیکھی جا رہی ہے لیکن سیاحت، نقل و حمل، ریستوراں اور ہوٹلوں اور تفریح جیسے شعبے اب بھی ایک خراب دور سے گزر رہے ہیں۔’

وبائی بیماری کے اثرات

انڈیا میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 30 جنوری کو کیرالا میں سامنے آیا تھا جس کے اب ایک سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد 22 مارچ کو ایک دن کے عوامی کرفیو کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے 24 مارچ کی شام کو اسی رات 12 بجے سے 21 دن کے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔

ریل، روڈ اور ہوائی سفر معطل، مال اور بازار بند، مشینیں بند، پیداوار مکمل طور پر رک گئی۔

تقریبا 135 کروڑ آبادی والے ملک کی بڑی معیشت یکایک مکمل طور پر رک گئی۔ یومیہ اجرت کمانے والے لاکھوں افراد سینکڑوں میل دور اپنے گھروں کی طرف پیدل چل پڑے۔

دوسری طرف کورونا کی تباہی بڑھتی رہی۔ آہستہ آہستہ یہ انڈیا اور پوری دنیا میں صحت عامہ کا بحران بن گیا، لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے عالمی معیشت کو تباہ کردیا جس کی زد میں انڈیا بھی آ گیا۔

انڈین معیشت

مئی کے آخر سے لاک ڈاؤن میں آہستہ آہستہ نرمی لائی جانے لگی، جو آج بھی جاری ہے۔ معیشت ابھی بھی پوری طرح سے کھلی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی پروازیں اب بھی بند ہیں (اس وقت 31 جنوری تک) اور تھیئٹروں میں فلم دیکھنے والوں کے داخلے کے لیے متعدد ریاستوں میں ابھی بھی پابندیاں عائد ہیں۔

پرنب سولنکی کا کہنا ہے کہ یکم فروری کو پیش کیا جانے والا بجٹ اس معاملے میں بہت اہم ہوگا کہ حکومت بازیابی کو تیز کرنے اور اسے آگے بڑھانے کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘معیشت کو وبائی امراض سے جو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے اس کا علاج ایک سال کے بجٹ سے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ بازیابی حکومت کی سربراہی میں ہو، جس کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت کتنا خرچ کرتی ہے۔ اور مانگ پیدا کرنے کے لیے لوگوں کو کیا راحت فراہم کرتی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp