شکریہ سعادت حسن منٹو



میرے ایک قریبی دوست جو کہ گورنمنٹ سکول میں اردو کے استاد ہیں۔ جن سے ملاقات میں اکثر علمی یا معاشرتی مسائل پر بات ہوتی رہتی، ایک دن کسی ادبی موضوع پر بات سے بات نکلتے منٹو تک جا پہنچی۔ کہنے لگے کبھی منٹو کو پڑھا ہے۔ میرا جواب تھا کہ مجھے منٹو تو بہت اچھا لگتا ہے تو پوری بات سنے بغیر بولے کہ جتنا ممکن ہو دور رہو، یہ بندہ افسانہ نگار کم اور گمراہ زیادہ ہے۔ مزید بولے کہ نفس، شیطان اور منٹو۔ مجھے اس بات کا ذرا بھی رنج نہ تھا کیونکہ منٹو کی فحش نگاری مجھے پہلے بھی پسند تھی اور آج بھی ہے۔ مگر ماضی میں اور آج کے حال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

پہلے سوچتا تھا کہ شاید منٹو بھی ہماری طرح  ترسا ہوا ہے جسے شراب اور عورت ہی نظر آتی ہے۔ مجھے اپنے آپ میں اور منٹو میں زیادہ فرق نظر نہ آتا۔ میں بھی گمراہ تھا اور منٹو بھی۔ دلی تمنا ہوتے ہوئے بھی معاشرتی خوف سے مجھے شراب تک رسائی نہ تھی اور عورت مجھ پر بھی سوار تھی اور منٹو پر بھی۔ لاغر ایمان ہونے کی وجہ سے میں اکثر شیطان کے بہکاوے میں رہتا اور یہی حال میں منٹو کا سمجھتا۔ ان تمام باتوں کو سوچ کر میں سمجھتا کہ میں بھی جہنمی ہوں اور منٹو بھی۔

بلوغت کا زمانہ بھی عجیب اور بڑا پراسرار ہوتا ہے۔ ہوتا تو سب کچھ پرانا ہی مگر لگتا نیا نیا سا ہے۔ جسمانی، ذہنی اور جنسی تبدیلیاں ایسی کہ جیسے نئی نئی بہار ہو اور پھر اپنے ہم عمروں سے ان تبدیلیوں پر بات چیت۔ زیادہ تو نہیں یاد مگر اتنا یاد ہے کہ کلاس کے لڑکے مخالف جنس کے بارے میں کچھ عجیب و غریب اور پراسرار گفتگو کرتے۔ یہ باتیں ہوتی بڑے راز کی تھیں اور اکثر یہ کہا جاتا کہ ایسی باتیں سرعام کرنا ممنوع ہے۔ خوب مرچ مصالحے ڈال ڈال کر سناتے اور ہم اتنے ہی مزے لے لے کر سنتے۔ پھر شدید جنسی پیاس محسوس کرتے ہوئے ان رازوں کو جاننے کی بھرپور کوششیں کرتے۔ قصور وار ٹھہراتے نفس، شیطان اور عورت کو کہ شیطان عورت کے ذریعے مرد کے نفس کو بہکاتا ہے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اس عمر میں بچوں کی تربیت کا فقدان ہے اور بچے اپنے ہی ہم عمروں کے ساتھ مل کر مسائل کا خود حل ڈھونڈ کر ایسے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اپنے مسائل کو مخالف جنس سے نتھی کر لیتے ہیں۔ ہم بھی اس معاشرے کا حصہ تھے ، ہمارا حال بھی ایسا ہی تھا۔ تبدیلی تو محسوس کر رہے تھے لیکن بچپن سے کلاس میں ایک ساتھ بغیر کسی جنسی تفریق کے کھیلنے کودنے والے ہم کلاس فیلوز اب ایک دوسرے سے دوری محسوس کر رہے تھے۔

روز کلاس روم میں ایک نئی من گھڑت جنسی کہانی سننے کو ملتی۔ ان کہانیوں کا مرکزی کردار عورت ہی ہوتی اور ہم روز اک نئے جنسی کرب اور پیاس میں مبتلا ہو جاتے۔ ہمارے خیال میں اس کا مستقل حل تو مخالف جنس ہی تھا مگر عملی طور پر سوائے اس کے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے کہ صبر کرتے ہوئے سہاگ رات کا انتظار کیا جائے۔ پھر ایک دن نہ جانے کہاں سے ایک کلاس فیلو نیم برہنہ تصویر لے آیا اور پھر کچھ جنسی ٹوٹکوں سے آگاہ ہوئے۔

یہ عارضی علاج تھا مگر ہمارے ذہنوں میں یہ بات کہاں کہ ”نیم حکیم خطرہ جان“ ۔ اگلے کئی سالوں تک نفس ، شیطان اور عورت کے بہکاوے میں ہم نے نیم برہنہ تصاویروں سے جنسی ڈائجسٹوں تک کا عملی سفر طے کیا۔ ایک نظر جائز ہونے کی مشہور دلیل کی بنیاد پر بازاروں، بس اڈوں اور گرلز سکولوں تک آوارہ گردی اور مختلف جنسی خیالی پلاؤ کی ہانڈیوں کو ہیرا منڈی میں طوائفوں کے پاس بیٹھ کر کھایا۔

گناہ کے احساس کے ساتھ ساتھ ضمیر بھی ملامت کرتا مگر نفس، شیطان اور عورت کا پلڑا ہمیشہ بھاری ہی محسوس ہوتا۔ پھر مسجد جا پہنچتے۔ رو دھو کہ نفس کو تو قابو کر لیتے مگر باہر نکلتے ہی شیطان مردود کو استقبال کے لیے کھڑا پاتے۔ اپنے آپ کو عجیب نفسیاتی الجھن میں میں مبتلا رکھتے۔ بالآخر تھک ہار کر اپنے آپ کو اس دھرتی کا سب سے بڑا گناہ گار مان کر جنسی تسکین کی خاطر منٹو کی دہلیز تک جا پہنچا۔

منٹو کی تحریروں میں عورت تھی مگر وہ جنسی کشش نہ تھی جو کہ جنسی کہانیوں والی ڈائجسٹ میں ہوتی تھی۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ منٹو جو لکھ رہا ہے وہ ہمارے معاشرے کی حقیقت ہے۔ ایسا ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے اور ایسا ہی ہم سوچتے بھی ہیں۔ سوال ذہن میں آتا کہ ایسی راز کی باتیں سرعام تو نہیں کی جاتیں مگر منٹو نے ایسا کیوں کیا۔ کیوں کھلم کھلا لکھا؟ اس ”کیوں‘‘ کو کھوجتے کھوجتے میں شعور کی اس منزل تک جا پہنچا۔ جہاں عورت مجھے انسان نظر آئی۔ شکریہ سعادت حسن منٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).