ایرک فرام: نفسیات،سماجیات اور سیاسیات


ماہرین نفسیات کی اکثریت نے انفرادی اور خاندانی نفسیات پر اپنی توجہ مرکوز کی لیکن ایرک فرام نے فرد کو سماج کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ، اسی لیے ان کی کتابیں نفسیات ، سماجیات اور سیاسیات کے علوم کے درمیان بہت سے پل تعمیر کرتی ہیں۔ ایرک فرام ایک انسان دوست ماہر نفسیات کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

ایرک فرام  روایتی یہودی خاندان میں 1900 میں فرینکفرٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا اور پڑدادا مذہبی پیشوا اور رِبی تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1918 میں فرینکفرٹ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور سماجیات کا علم حاصل کرنا شروع کیا۔ ان کے اساتذہ میں معاشیات کے ماہر الفریڈ ویبر (جو مشہور میکس ویبر کے بھائی تھے ) اور فلسفی کارل جاسپرز شامل تھے۔ انہوں نے 1922 میں اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ایرک فرام نے ایک سائیکو اینیلسٹ بننے کا فیصلہ کیا اور ہیڈلبرگ کے سینیٹوریم میں کام کرنا شروع کیا جہاں ان کی ملاقات فریڈا سے ہوئی۔ وہ فریڈا کے عشق میں گرفتار ہو گئے اور دونوں نے 1926 میں شادی کر لی۔ فریڈا رائخمین بھی ماہر نفسیات بننا چاہ رہی تھیں۔ ان کی شادی سولہ برس رہی جس کے بعد ان کے راستے جدا ہو گئے اور انہوں نے 1942 میں طلاق لے لی۔

جب جرمنی پر نازیوں نے قبضہ کر لیا تو ایرک فرام کو یہودی ہونے کے ناتے جان کا خطرہ پیدا ہوا۔ اس لیے پہلے وہ جینیوا گئے اور پھر 1934 میں ہجرت کر کے امریکہ آ گئے۔

ایرک فرام پہلے کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے پھر WILLIAM ALANSON WHITE INSTITUTE OF PSYCHIATRY کے ساتھ منسلک ہو گئے۔

1949 میں ایرک فرام میکسیکو چلے گئے اور ایک یونیورسٹی میں پروفیسر بن گئے۔ اسی دوران وہ مشی گن امریکہ کی یونیورسٹی میں بھی پڑھاتے رہے۔ 1974 میں وہ واپس یورپ چلے گئے اور سوئزرلینڈ میں رہائش پذیر ہو گئے جہاں وہ 1980 میں فوت ہو گئے۔

ایرک فرام نے 1941 میں اپنی پہلی کتاب ESCAPE FROM FREEDOM میں اپنے نفسیاتی نظریات پیش کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ اس کتاب میں انہوں نے پہلی دفعہ نفسیات سماجیات اور سیاسیات کی روایتوں کے درمیان پل تعمیر کیے اور سیاسی اور سماجی نفسیات کے علوم میں گراں قدر اضافے کیے۔ ایرک فرام کا موقف تھا کہ انسان بنیادی طور پر آزاد ہے لیکن وہ اپنی آزادی کی ذمہ داری لینے سے کتراتا ہے اور اسے اپنا بوجھ سمجھتا ہے اور پھر اس ذمہ داری سے بچنے کے لیے مختلف نفسیاتی سماجی اور سیاسی نظام اور روایتیں بناتا ہے۔

1956 میں ایرک فرام نے محبت کے بارے میں اپنے نظریات اپنی کتاب THE ART OF LOVING میں رقم کیے۔ اس کتاب میں ایرک فرام نے محبت کے روایتی نظریات کو چیلنج کیا اور محبت اور رومانس کے بارے میں نیا موقف پیش کیا۔ ایرک فرام نے اس کتاب میں وضاحت کی یہ محبت کسی نوجوان کا ایسا رومانوی جذبہ نہیں جس میں عاشق آہیں بھرتا ہے اور محبوبہ ہجر میں خودکشی کرنے کی دھمکیاں دیتی ہے بلکہ محبت دو عاقل و بالغ انسانوں کا ایسا رشتہ ہے جو چار بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔

پہلی بنیاد CARING ہے جس میں دو محبوب ایک دوسرے کا اخلاص سے خیال رکھتے ہیں۔
دوسری بنیاد RESPECT ہے جس میں فریقین ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔
تیسری بنیاد RESPONSIBILITY ہے جس میں دو محبوب اپنے اعمال کی ذمہ داری لیتے ہیں۔

چوتھی بنیاد KNOWLEDGE ہے جس میں فریقین ایک دوسرے کو اچھے طریقے سے جانتے اور سمجھتے ہین اور اپنے رشتے کے بارے میں حقیقت پسندانہ فیصلے کرتے ہیں۔

ایرک فرام کی یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ بین الاقوامی بیسٹ سیلر بن گئی اور اس کے متعدد زبانوں میں ترجمے ہوئے۔

ایرک فرام نے روایتی مذہبی گھرانے میں پرورش پائی لیکن پھر روایتی مذہب کی غیر روایتی تفسیر پیش کی۔ انہوں نے آدم اور حوا اور جنت کی نئی تشریح کی۔ انہوں نے فرمایا کہ آدم اور حوا کوئی جنت میں بسنے والے دو انسان نہیں تھے بلکہ یہ مرد اور عورت کی استعاراتی کہانی ہے جو کرۂ ارض پر جانوروں کی طرح بستے تھے لیکن پھر ارتقا کی منازل طے کرتے ہوئے جانور سے انسان بنے اور علم حاصل کیا۔ اس علم حاصل کرنے سے ان میں خود آگہی پیدا ہوئی۔ اس آگہی کو روایتی مذہب نے جنت کا TREE OF KNOWLEDGE کہا ہے۔ ایرک فرام نے کہا کہ جنت اور دوزخ جگہیں نہیں کیفیتیں ہیں۔ اس خیال کو علامہ اقبال نے بھی اپنے لیکچرز میں ان الفاظ میں پیش کیا ہے HEAVEN AND HELL ARE STATES NOT PLACES

ایرک فرام ایک انسان دوست فلسفی تھے۔ ان کا مشورہ تھا کہ ہمیں آسمانی کتابوں کو اساطیری کہانیوں اورلوک دانش کی طرح پڑھنا چاہیے۔

ایرک فرام نے انسانی ذات کے تاریک رخ اور جارحیت کا بھی مطالعہ کیا اور اپنی تحقیق کو اپنی کتاب ANATOMY OF HUMAN DESTRUCTIVENESS میں پیش کیا۔ اس کتاب میں انہوں نے انسانی نفسیات کے کئی راز پیش کیے۔

انہوں نے کہا کہ جانوروں میں BENIGN AGGRESSION پائی جاتی ہے، وہ صرف اس وقت کسی دوسرے جانور کو مارتے ہیں جب وہ بھوکے ہوتے ہیں لیکن انسان جانوروں کو ہی نہیں انسانوں کو بھی قتل کرتا ہے کیونکہ اس میں MALIGNANT AGGRESSION پائی جاتی ہے ، وہ جارحیت کو نظریات سے جوڑ لیتا ہے اور مذہب اور حب الوطنی جیسی روایات کا سہارا لے کر دوسرے انسانوں کا خون بہاتا ہے۔ اس طرح انسان جانوروں سے زیادہ خطرناک مخلوق بن جاتا ہے۔

ایرک فرام نے جہاں سگمنڈ فرائڈ کی انفرادی نفسیات کا مطالعہ کیا وہیں کارل مارکس کی سماجی نفسیات کو بھی پڑھا۔ ان دونوں روایتوں کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد انہوں نے MY ENCOUNTRER WITH MARX AND FREUD لکھی اور دونوں روایتوں کے درمیان علمی پل تعمیر کیا۔ ایرک فرام نے 1955 میں ایک اہم کتاب تخلیق کی جس کا نام THE SANE SOCIETY ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے روس کے کمیونزم اور امریکہ کے کیپیٹلزم دونوں نظاموں پر سخت تنقید کی اور اپنے سیاسی نظریات پیش کیے۔

ایرک فرام نے انسانیت کی فلاح کے لیے جس منزل کی نشاندہی کی اس کی طرف تین راستے جاتے ہیں۔ سوشلزم ، انسانی دوستی اور جمہوریت، ایرک فرام نظریاتی طور پر جمہوریت پسند سوشلسٹ انسان دوست تھے۔ ایرک فرام امریکہ کے انسان دوستوں مین اتنے ہر دل عزیز تھے کہ امریکن ہیومنسٹ ایسوسی ایشن نے انہیں 1966 کے ہیومن آف دی ائیر کے اعزاز سے نوازا۔ ایرک فرام ایک امن پسند انسان تھے۔ انہوں نے امریکی حکومت پر ایٹمی ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے اور ویتنام میں جنگ کرنے پر سخت تنقید کی۔ ایرک فرام نے انسانی نفسیات کی ایک نئی روایت قائم کی اور انسانوں کو ایک بہتر انسان بننے اور پرامن معاشرہ قائم کرنے کی تحریک دی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail