قید میں لکھی گئی تین عظیم کتابیں


دنیا میں جتنے بھی غیر معمولی کام ہوئے ہیں وہ سب مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے انجام دیے گئے ہیں، چاہے ان کا تعلق مذہب سے ہو یا پھر وہ سیاسی ہوں یا پھر سائنسی ، سب کام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے سرانجام دیے گئے ہیں۔

انگریز سامراج کے دور کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں اور ہندوؤں نے وہ کارنامے سر انجام دیے ہیں جن کا آج کل کے زمانے میں تصور کرنا بھی محال ہے۔ اس تناظر میں تین نام انتہائی اہم ہیں، جن کے کام ادبی، سماجی، سیاسی، تاریخی اور مذہبی لحاظ سے انتہائی اہم تصور کیے جاتے ہیں۔

ان میں سب سے اہم جن کو پڑھنے کا اتفاق ہوا وہ جواہر لعل نہرو ہیں۔ آپ برصغیر پاک و ہند کی سیاست کے ایک جانے پہچانے نام کے ساتھ ساتھ ادبی اور تاریخی حلقوں میں بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ آپ کی مشہور زمانہ کتاب ”دی گلمپسیس آف ورلڈ ہسٹری“ ہے۔ یہ کتاب نہرو کے خطوط پر مشتمل ہے جو آپ نے اندرا گاندھی کو لکھے تھے۔ ان میں وہ اپنی بیٹی کو خطوط کے ذریعے دنیا کی تاریخ پڑھا رہے تھے۔ آپ کا ادبی ذوق اپنی جگہ لیکن آپ کی بیٹی کی دانش مندی بھی قابل رشک ہے کہ اس نے ان خطوط کو نہ صرف سنبھال کر رکھا بلکہ ان کو کتابی شکل میں شائع بھی کرایا۔

یہ وہ کتاب ہے جس کو پڑھنے کا مشورہ ذوالفقار علی بھٹو اپنی آخری خط میں بے نظیر بھٹو کو دیتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم اندرا گاندھی سے بھی بڑا نام کماؤ گی۔ بھٹو کی بات پر عمل کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے نہ صرف یہ کتاب پڑھی بلکہ بھٹو کی پیش گوئی کو بھی سچ ثابت کر دکھایا۔ اس کتاب کے متعلق ماہرین کا یہ خیال ہے کہ محدود وسائل کو استعمال کرتے ہوئے تاریخ پر ایک اہم اور مستند دستاویز ہے۔

دوسری اہم شخصیت جس کا برصغیر کی سیاست، مذہبی علوم اور اردو ادب پر گہرا اثر ہے ، وہ مولانا ابو الکلام آزاد ہیں۔ آپ کی کتاب ”غبار خاطر“ بھی خطوط پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی زبان اور آپ کی مختلف موضوعات پر علمی دسترس اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آپ کتنے بڑے ادیب اور علم دوست انسان تھے۔ اس کتاب کی انفرادیت اس کا اسلوب تحریر ہے۔ پوری کتاب میں کوئی سات سو شعر ہیں جو مولانا کے حافظے اور ذوق کو ظاہر کرتے ہیں۔

اس کتاب میں مولانا آزاد نے مختلف علوم کو کوزے میں بند کیا ہے۔ آپ کو یہاں چائے کی تاریخ سے لے کر جدید تاریخ اور اس کے سیاست پر اثرات کا گہرا تجزیہ نظر آئے گا۔ آپ کو سائنسی پہلوں جیسے کوانٹم تھیوری پر بھی مولانا قلم چلاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ آپ کی ان چیزوں کے بارے میں بھی دلچسپی دیکھنے کو ملے گی جنہیں عام طور پر معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کا ستار سیکھنا اور اس کے متعلق آپ کا مطالعہ آپ کے جمالیاتی ذوق کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی طرح نہ صرف عمومی باتوں کا ذکر آپ کو ملے گا بلکہ رسل جیسے فلسفیوں کے مطالعے اور اس کے تنقیدی جائزے کی جھلک بھی دیکھنے کو ملے گی۔

تیسری اہم ادیب اور عالم جس کی تحریروں نے مذہبی، سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی نظام پر گہرے نقوش چھوڑے وہ مولانا مودودی ہیں۔ آپ اول الذکر دو شخصیات سے اس وجہ سے ممتاز ہیں کہ آپ کو معاشرتی اور سیاسی نظام کی بہتری کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے پاک سر زمین میں ہی جیل ہوئی۔ آپ نے سنہ 1948 میں ملتان جیل کی اسیری میں تفہیم القرآن جلد اول تحریر کی۔ یہ اپنے طرز بیان، تحریری اسلوب اور سادہ زبان اور jargons کی وجہ سے نہ صرف ادبی چاشنی رکھتی ہے بلکہ آسان زبان کی وجہ سے عام مسلمان کو دین عام فہم الفاظ میں سمجھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ہے۔

تفہیم القرآن کی خاصیت یہ ہے کہ یہ انتہائی آسان اور سادہ زبان میں لکھی گئی ہے۔ دوسرے مفسرین جو اس سے پہلے قرآن کی تفسیر خواص کے لیے لکھتے تھے ، ان کے برعکس مولانا نے یہ کوشش کی ہے کہ عام قاری بھی قرآن کو سمجھے اور دین کے معاملے میں کسی کا محتاج نہ ہو۔ بحیثیت انگریزی ادب کے ایک طالب علم کے مجھے تفہیم پڑھتے ہوئے یہ گمان ہوتا ہے کہ مغرب میں جس طرح مارٹن لوتھر کنگ کی تحاریر نے اصلاح پسندی کی بنیاد رکھی ۔ مولانا کی تفہیم القرآن بھی اسی طرز پر لکھی گئی ہے۔ البتہ مولانا مودودی نے دین کو اس کے اصل روح میں عقلی دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی ہے نہ کہ ان کے ذریعے دین سے دور کرنے کے لئے۔

تفہیم القرآن کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے اتنا ضرور کہوں گا کہ تفہیم پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے تفہیم القرآن (خاص کر کے جلد اول) لکھتے ہوئے کچھ جلد بازی سے کام لیا ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ جلد اول جیل میں لکھی گئی تھی اور مولانا کو وہ ذرائع دستیاب نہیں تھے جو ایک تفسیر لکھنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

دوسری چیز جو کہ میں نے محسوس کی وہ یہ کہ بعض جگہ مولانا نے غیر ضروری چیزوں کو طول دیا ہے اور بعض بہت ہی غیر ضروری چیزوں کی تکرار کی ہے جو کہ پڑھنے والے کو پریشان کرتی ہے۔ اس کی وجہ آپ کا ادبی ذوق بھی ہو سکتا ہے جو کہ بڑے شاعروں اور لکھاریوں میں پایا جاتا ہے جو ”less is more“ پر یقین رکھتے ہیں۔

ان تین عظیم ادیبوں کی دوسری تصنیفات میں جواہر لعل نہرو کی ”دی ڈسکوری آف انڈیا“ ، مولانا ابوالکلام آزاد کی ”ترجمان القرآن“ اور ”انڈیا ونز فریڈم“ اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی ”پردہ، ’’خلافت و ملوکیت“ اور ”تنقیحات“ شامل ہیں۔ تاہم ”گلمپسز آف ورلڈ ہسٹری“ ، ”غبار خاطر“ اور ”تفہیم القرآن“ اس لئے اہم ہیں کہ یہ عالم محبوسی میں جیل کے اندر لکھی گئی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).