شادی کی اقسام (2)


\"\"پچھلے کالم میں ہم نے سوہنی دھرتی پر رائج اقسام شادی میں سے بے جوڑ شادی، زبردستی کی شادی، محبت کی شادی، ناکام شادی اور کامیاب شادی کے بارے میں اپنی ناقص معلومات آپ کو بہم پہنچائیں۔ آج اپنے ہنگامہ خو معاشرے کی چند مزید ہنگامہ خیز اقسام شادی و نکاح پیش خدمت ہیں۔

گھر سے بھاگ کر شادی: اس کامہذب نام کورٹ میرج ہے، جو خالصتاً بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انجام پاتی ہے۔ جب والدین پریمی جوڑے کے جذبات پر ڈرون حملے کرتے ہیں تو رد عمل میں جوڑا اپنے ہی بزرگوں کی عزت پر خود کش حملہ کر دیتا ہے۔ دونوں رات کی تاریکی میں گھروں سے بھاگ نکلتے ہیں اور عموماً کسی دوسرے ضلع میں جا کر کورٹ میرج کر لیتے ہیں، تاہم اس سے قبل دونوں، خصوصاً لڑکی گھر سے زیورات اور نقدی وغیرہ سمیٹنا نہیں بھولتی۔ اب لڑکی کے لواحقین لڑکے کے علاوہ اس کے والدین اور جملہ برادران و ہمشیران کو بھی نامزد کر کے جھوٹا پرچہ کٹواتے ہیں کہ ان لوگوں کی مدد سے لڑکے نے ہماری لڑکی کو (ورغلا کر یا زبردستی) برائے حرام کاری اغواء کیا ہے۔ حقوق نسواں ایکٹ 2006ء کی منظوری کے بعد حالات بہت تبدیل ہوئے ہیں۔ جب پولیس جوڑے کو گرفتار کرتی ہے تو عدالت کے حکم پر لڑکی دارالامان جب کہ لڑکا حوالات میں قدم رنجہ فرماتا ہے۔ دارالامان میں قیام کے دوران لڑکے اور لڑکی کے لواحقین اسے اپنے اپنے حق میں بیان دینے پر مجبور کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ہر طرح کی منت سماجت، دھونس دھاندلی اور جذباتی بلیک میلنگ روا سمجھی جاتی ہے۔ جو فریق لڑکی کو قائل کر لے وہ میدان مار لیتا ہے۔ اگر لڑکی عدالت میں بیان دے کہ اسے کسی نے اغواء نہیں کیا بلکہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے تو عدالت کے حکم پر پیا گھر سدھار جاتی ہے۔ بصورت دیگر پولیس اس کے منہ میں ازل سے گھڑا گھڑایا بیان دے دیتی ہے کہ ”میں گھر میں اکیلی تھی، نہا کر صحن میں چارپائی پر بیٹھی بال سکھا رہی تھی کہ فلاں ہمراہ فلاں فلاں مسلح پسٹل گھر کی شمالی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور مجھے اسلحہ کی نوک پر زبردستی اغوا کر کے سفید رنگ کی کار میں ڈال کر نامعلوم مقام کی طرف لے گئے “ ….حالانکہ کم بخت گھر سے بھاگنے کے سارے ڈرامے کی ماسٹر مائنڈ خود ہوتی ہے، جو لڑکے کو طعنے دے دے کر اس عمل پر مجبور کرتی ہے کہ ”تمہاری غیرت کب جاگے گی رانجھیا ! جب میری ڈولی کھیڑے لے جائیں گے ؟“ ….پس عدالتی بیان بالا کی روشنی میں زوجین محبت کا جنازہ پڑھنے کے بعد باعزت طریقے سے اپنے اپنے مقامات یعنی لڑکی گھر اور لڑکا جیل روانہ ہو جاتا ہے اور شریک جگتیں مارتے ہیں کہ ”گئی محبت ڈھیکے کھاندی“۔

اغوا بالجبر: اغوا کے جھوٹے مقدمات کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مملکت خداداد میں اغواء کا رواج ہی نہیں۔ یہاں شادی کی ایک مروجہ قسم یہ بھی ہے کہ وڈیرے اور جاگیر دار بے کسوں کی لڑکیوں کو اغواء بالجبر کے ذریعے اپنے حر م میں داخل کر لیتے ہیں، جیسے ہمارے سلاطین کا وطیرہ مبارک تھا۔

قلیل مدتی شادی: یہ گھر سے بھاگ کر شادی کی ایک ذیلی قسم ہے۔ جوڑا کورٹ میرج کے بعد کسی خفیہ مقام پر رہائش پذیر ہوتا ہے۔ لڑکی کے لواحقین ان کی بو سونگھتے وہاں پہنچ جاتے ہیں اور غیرت کے نام پر دونوں کو گولی مار کر ان کا کام تمام کر دیتے ہیں۔ اس بنا پر یہ قلیل مدتی شادی کہلاتی ہے۔

طویل مدتی شادی: اگر خوش قسمتی سے قلیل مدتی شادی والا سانحہ پیش نہ آئے تو شادی ہذا طویل مدتی شادی میں ڈھل جاتی ہے۔ چونکہ محبت کی شادی ہوتی ہے،لہذا مثالی شادی اور قابل رشک شادی کے ناموں سے بھی موسوم کی جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک قابل رشک شادی کی گولڈن جوبلی کی شاندار تقریب میں کسی نے خاوند سے پوچھا : اتنی طویل رفاقت کے دوران کبھی طلاق کا خیال بھی آیا ؟ “انہوں نے جھٹ سے کہا ”نہیں، نہیں،ہر گز نہیں ….البتہ گلا گھونٹنے کا منصوبہ کئی دفعہ بنایا“۔

دوسری شادی: پخیر راغلے ! یہ اسلامی نظریاتی کونسل کی مرغوب شادی ہے۔ اس سے مراد دوسری، تیسری یا چوتھی شادی بھی ہو سکتی ہے،فقط استطاعت کی بات ہے۔ پچاسی سالہ بزرگ اپنی پوتی کی عمر کی لڑکی کے ساتھ چوتھی شادی پر کمر بستہ ہوئے تو ان کی پوتی نے کہا ” کچھ احساس کریں دادا جان ! آخر موت فوت بھی بنی ہوئی ہے “ دادا جان نے جواب دیا ” میں موت سے نہیں ڈرتا بیٹی ! اگر یہ مر گئی تو میں پانچویں شادی کر لوں گا “

نکاح پر نکاح: یہ قانونی نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دوسری شادی مرد جبکہ نکاح پر نکاح عورت کرتی ہے۔ دوسری شادی کی اجازت ہے جبکہ نکاح پر نکاح جرم ہے۔ آپ اکثر اخبار میں پڑھتے ہیں ”چار بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار“ اس خبر میں آشنا صاحب کے آٹھ بچوں کا کوئی ذکر نہیں ہوتا کیونکہ جب اس نے جرم ہی نہیں کیا تو اسے خواہ مخواہ مطعون کرنے کا فائدہ؟ اس قانون کا یوں احسن استعمال کیا جاتا ہے کہ جب لڑکی گھر سے بھاگ کر مرضی کی شادی کرلیتی ہے اور عدالت میں والدین کے خلاف بیان دیتی ہے تو اس کے لواحقین نکاح خواں سے مل کر لڑکی کا کسی کزن کے ساتھ پچھلی تاریخوں میں جعلی نکاح نامہ تیار کراتے ہیں اور عدالت کو دھوکہ دیتے ہیں کہ لڑکی نے نکاح پر نکاح کیا ہے، لہذا دوسرا نکاح فسخ قرار دیا جائے۔

دو نمبر شادی: یہ ضیاء الحق کے دور کی پیداوار ہے، جب حدود آرڈیننس کا سورج سوا نیزے پر تھا۔ جوڑا رنگ رَلیاں مناتا پکڑا جاتا تو دونوں کی ضمانت مشکل ہو جاتی۔ اس گھمبیر صورتحال میں لڑکے کے دوست یار پچھلی تاریخوں میں دونوں کا جعلی نکاح نامہ تیار کر کے عدالت میں پیش کر دیتے کہ فاعل اور مفعول دراصل میاں بیوی ہیں، پولیس نے ان کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے۔

ونی کرنا: جدید دنیا کے اتباع میں گرتے پڑتے ہم بھی 3G اور 4G ٹیکنالوجی تک تو پہنچ ہی گئے، مگر اپنی ”شاندار روایات“ سے پیچھا نہ چھڑا سکے۔ لڑکا اور لڑکی پسند سے شادی کر لیں تو اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کے خلاف لا محدود اختیارات کا حامل جرگہ بیٹھتا ہے اور قبائلی روایات کے مطابق لڑکے کے خاندان کی نابالغ بچیوں کو لڑکی کے خاندان کے مردوں کے ساتھ ونی کر دیا جاتا ہے، یعنی ان کی زبردستی شادی کر کے قانون کا بول بالا کیا جاتا ہے۔ اس شادی میں ڈولی چڑھنے کو سولی چڑھنے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

کم سنی کی شادی: اس شادی کے پیچھے یہ حکمت کار فرما ہوتی ہے کہ بچوں کو معاشرتی اور ازدواجی معاملات و مشکلات کا بچپن ہی میں تجربہ ہو جائے۔ اس طرح وہ زندگی کے مسائل سے بطریق احسن نمٹنے کے ساتھ ساتھ آبادی کے محاذ پربھی حسن کارکردگی کے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔

ہنسی خوشی کی شادی: اس شادی کا حامل جوڑا عموماً ملازمت پیشہ ہوتا ہے اور دونوں کی پوسٹنگ الگ الگ شہروں میں ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنی اپنی مصروفیات کی بنا پر بہت کم مل پاتے ہیں، سو لا محالہ ہنسی خوشی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔

نوٹ: یہ جنرل نالج کی باتیں ہیں، طلباو طالبات ذہن نشین کرلیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے ضعف علم کا یہ عالم ہے کہ اگر پوچھا جائے ” مغویہ کن حالات میں دفعہ 164 کے تحت علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں جھوٹا بیان دیتی ہے؟ “ یا ” ٹی وی پر فحاشی کا ماتم کرنے والے غازیانِ اسلام اغوا بالجبر، ونی اور کم سنی کی شادیوں جیسے غیر انسانی افعال پر کس مصلحت کے تحت دَڑ وَٹ لیتے ہیں ؟“ توجواب میں کل کے یہ معمار منہ میں گھنگھنیاں ڈال لیتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ ایسے طالب علموں کی ڈگریاں ردی اکٹھی کرنے والے افغان بچوں کو دے دی جائیں۔ کم از کم کسی پکوڑے بنانے والے کے کام تو آ سکیں ( شادی کی جو اقسام رہ گئی ہیں،وہ اگلے کالم میں عرض کی جائیں گی )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments